Thursday, November 29, 2007

عبدالحئی کاکڑ - اعجاز مہر - لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود coments on Mr Musharaf and Gen Kiani


جنرل مشرف، جنرل کیانی
جنرل مشرف کی نسبت جنرل کیانی زیادہ پراعتماد نظر آئے
آخر کار جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑدیا اور پاکستان فوج کی کمان ایک گھنٹے سے بھی کم جاری رہنے والی تقریب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دی۔ تقریب میں سرکاری میڈیا کو ہی بلایا گیا اور ریاستی ٹی وی چینل پر یہ تقریب براہ راست دکھائی گئی جس میں جنرل کیانی کے چہرے پر مسکراہٹ جبکہ جنرل پرویز مشرف بجھے بجھے سے نظر آئےتقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں جنرل پرویز مشرف کے لہجے میں بھاری پن تھا وہیں دوران تقریر وہ کئی بار الفاظ کی ادائیگی میں اٹکتے رہے جبکہ ان کی نسبت جنرل کیانی کافی پراعتماد نظر آئے۔ فوجی کمان کی تبدیلی کی اس تقریب سے جب جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا تو باقی باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فوج سے کہا کہ ’جب بھی ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو فوج کو اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے‘۔

جب آرمی چیف کے کمان کی علامت، تقریبا ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی میز پر رکھی گئی تو جنرل مشرف دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور جنرل کیانی نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے میز کی طرف چلنے کی درخواست کی۔ میز پر موجود ایک فریم یا سٹینڈ پر رکھی اس چھڑی کو ایک سرے سے جنرل پرویز مشرف اور دوسری طرف سے جنرل کیانی نے اٹھایا۔ جنرل کیانی والے سرے سے تو وہ چھڑی نکل آئی لیکن جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پھنسی رہ گئی اور جنرل کیانی نے چھڑی نکالنے میں ان کی مدد کی۔ جب بینڈ باجے بج چکے اور سلامی والے دستے واپس جانے لگے تو جنرل مشرف انہیں دیر تک مڑ کر دیکھتے رہے اور آخر میں جنرل کیانی نے انہیں چلنے کا اشارہ کیا اور ایسا لگا کہ وہ انہیں کہہ رہے ہوں کہ ’اب چلیے سر جی‘
جنرل پرویز مشرف نے جاتے ہوئے جہاں سے بھی گزرے تقریب میں موجود فوجیوں اور خواتین سمیت کئی سویلین شخصیات کو بھی سلیوٹ کرتے گئے۔ جب تقریب ختم ہوئی تو اچانک ذہن کی سکرین پر خیال آیا کہ بس! یہی آرمی چیف کے کمان کی تبدیلی تھی کہ محض ایک ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی حوالے کرنی تھی۔ جس کے لیے اپوزیشن والے برسوں سے شور مچا رہے تھے!۔

جنرل پرویز مشرف نے بالاخر اپنی’ کھال‘ ، اتار دی اور کمان کی جس چھڑی میں انکی طاقت پوشیدہ تھی اس سے انہوں بظاہر بڑی نیم دلی کے ساتھ اپنے ہی ہاتھ سے پاکستان کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کردیا۔خطاب کے دوران انکی آواز کچھ لمحوں کے لیے بھرائی ہوئی تھی اور الفاظ بھی ایک طاقتور جرنیل کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔اس تاریخی موقع پر انہوں نے جو تقریر کی وہ بظاہر نامکمل معلوم ہورہی تھی۔ انہیں تو یہ بات یاد رہی کہ جب کبھی بھی پاکستان میں زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت آئی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے فوج ہی میدان عمل میں اتری ہے۔سبکدوش جنرل پرویز مشرف کو تو یہ یاد رہا کہ جب بھی خود کش حملہ ہوتا ہے تو پاکستانی فوج آگے آتی ہے لیکن وہ یہ بات کہنا بھول گئے تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انکے ہی زیر کمان فوج نہیں بلکہ خود کش حملہ آور ہی فوج کے آگے آئے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر کے دوران فخریہ انداز میں پاکستانی فوج کو ایک طاقتور فوج کا خطاب دیا تاہم اس تاریخی موقع پر شاید یہ بات جنرل صاحب کے حافظے سے محو ہوگئی تھی کہ انکے زیر کمان پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طاقتور اور منظم فوج کے تین سو سے زائد اہلکاروں کو جنوبی وزیرستان میں چند درجن غیر منظم اور روایتی طالبان جنگجوؤں نے یرغمال بنایا تھا اور پھر انکی رہائی کسی آپریشن کے نتیجے میں نہیں بلکہ انتیس مبینہ دہشت گردوں کی رہائی کے بدلے میں عمل میں آئی تھی۔ اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب انہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد قوم سے اپنی تقریر کے دوران سپریم کورٹ کے برطرف چیف جسٹس افتخار چودھری اور دیگر جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اکسٹھ مبینہ دہشت گردوں کو رہا کردیا تھا۔ جنرل صاحب یہ کہنا بھی بھول گئے تھے کہ انکی زیر کمان ہی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے گلے کاٹنے کا رجحان پروان چڑھا جبکہ بلوچستان میں کئی دہائیوں تک اسٹبلشمنٹ کے ’بہترین دوست‘، نواب اکبر خان بگٹی کو دیوار کے ساتھ لگا کر انہیں ایک محب وطن پاکستانی کے بجائے ایک ’بلوچ حریت پسند‘، بناکر ہلاک کردیا گیا جسکے نتیجے میں آج بلوچستان میں دن بدن بلوچ عسکریت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستانی فوج کی کمان جنرل پرویز مشرف سے جنرل اشفاق پرویز کو منتقل ہونے کی تقریب اس لیے بھی دیدنی تھی کہ پاکستانی عوام نے آٹھ سال سے اپنے اوپر مسلط فوجی حاکم کو پہلی بار ایک ایسی کیفیت سے گزرتے ہوئےدیکھا جنکے چہرے پر پریشانی، اور عدم تحفظ تیرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
صدر جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ وہ ایک مضبوط ترین فوج چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کے لیئے ضروری تھا۔ اگر وہ یہ کہہ کر جاتے کہ وہ کمزور فوج چھوڑ کر جارہے ہیں تو یہ شاید مناسب نہ ہوتا۔

لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں۔ فوج کو اس وقت مختلف اقسام کے چیلنجز درپیش ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ قیادت میں ان کی آخری وقت تک کوشش تھی کہ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کے دونوں عہدے اپنے پاس رکھیں۔ اس وجہ سے وہ فوج پر پوری توجہ نہیں دے سکے۔ اس سے بھی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر منفی اثر پڑا۔

وہ بھی ایک ایسے وقت جب اتنی بڑی فوج اور اس کو اتنے ہی بڑے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا بھی تھا۔ ایسے میں قیادت چاہے کتنی ہی اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو جب اس کی توجہ بٹی ہو اور اس کا زیادہ وقت اور توجہ کا مرکز سیاست ہو تو پھر کوئی کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ اس فوج کا مورال بہتر ہوگا۔

فوج کے سربراہ سیاست میں تقریباً آٹھ سال ملوث رہے جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں بلکہ منفی نتائج حاصل ہوئے اور فوج کا وقار اور فوج کو جو لوگوں سے حمایت ملنی چاہیے تھی وہ حاصل نہ ہو سکی، بلکہ جتنی ہونی چاہیے تھی اس میں ایک قسم کی کمی ہی آئی۔


ملک میں فوج کا سربراہ بیک وقت عسکری اور سیاسی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ جنرل ضیا الحق تو مشرف سے بھی زیادہ مدت تک دونوں عہدوں پر فائز رہے۔ اس وقت بھی عوام میں فوج کی مقبولیت میں کمی آئی تھی لیکن اس مربتہ کچھ زیادہ ہوا ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ ماضی میں فوج اس حد تک حکومت میں ملوث نہیں تھی کہ جس حد تک اس دور میں رہی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے اس وقت بین الاقوامی لحاظ سے اور خاص طور سے امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج کو چیلنجز یا مشکلات کا سامنا تھا۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کی جو اصل ساری تربیت تھی وہ ایک روایتی جنگ کے لیے تھی جس میں بھارت اس کا حریف تھا۔ اسی پر تمام تربیت، کارروائیاں اور منصوبہ بندی وغیرہ ہمیشہ سے روایتی طور سے رہی ہے۔ لیکن اب مغربی سرحد پر خود اندرونی طور سے جو مزاحمت کا سامنا ہے وہ فوج کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف نے امریکہ اور دیگر ممالک سے جنگی آلات و تربیت وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ناکافی تھے۔ فوج کو اس طرز کی گوریلا وارفیئر یا کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں مہارت حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن پھر بھی کافی کچھ انہوں نے اس عرصے میں سیکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اپنی صلاحیت کو بہتر کیا جائے۔

نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اب بڑے پیمانے پر اپنی پالیسی اور حکمت علمی میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ ایک بالکل عام سی بات ہے جس کا سب کو علم ہے کہ دنیا میں کوئی فوج اپنے لوگوں کے خلاف جنگ کبھی جیت ہی نہیں سکتی چاہے وہ کتنی بھی بہترین فوج کیوں نہ ہو۔

دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی میں یہ ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں بھی فوج کو لگائیں اور اپنے ہی لوگوں سے لڑائی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر جگہ چاہے وہ سوات ہو یا قبائلی علاقے ہی کیوں نہ ہوں فوج کو صرف اسی وقت استعمال کریں جبکہ ہم سمجھیں کہ سیاسی اور دوسرا لائحہ عمل ہے وہ بالکل ناکام ہو گیا ہے۔ یہ بڑا ضروری ہے۔

اپنے لوگوں کے خلاف فوج کو آخری حربے کے طور پر انتہائی محدود انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ کولیٹرل ڈیمیج بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی آپ قابض فورس نہیں ہیں، تو آپ اس طریقے سے فوج کو نہیں استعمال کر سکتے جس طریقے سے امریکہ یا نیٹو فورسز افغانستان میں یا عراق وغیرہ میں استعمال ہو رہی ہیں۔

جنرل کیانی کی سنجیدگی سے یہ کوشش ہوگی کہ وہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے اپنے پیشے ہی میں وہ زیادہ تر اس کو توجہ دیں، اور اسی کی بہتری میں مصروف رہیں۔ جنرل کیانی ایک مدبر اور ایک پیشہ ور صلاحیت کے مالک سپاہی ہیں۔ ان کا کافی وقار ہے فوج میں۔ لوگوں کا ان کے بارے میں اچھا خیال ہے۔ ان کی طبیعت پچھلے لیڈروں سے ذرا مختلف ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ تر توجہ اپنے پیشے کی طرف دیں گے اور یہ کوشش کریں گے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔


لیکن خیر اگر حالات بہت خراب، خدا نہ کرے، ہوئے تو پھر شاید فوج کو لانا پڑے لیکن میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ ضرور سیاستدانوں کو موقع دیں گے کہ وہ ملک کو چلائیں اور یہ جو سیاسی عمل انتخابات کے ذریعے شروع ہو رہا ہے، اس کو جتنی حد تک صاف و شفاف رکھا جائے یہ فوج کے حق میں بہتر ہوگا اور ملک میں انتشار ختم ہوگا۔

ماضی میں ایک خیال یہ تھا کہ فوج کے ذریعے ملک کا دفاع ہو سکتا ہے لیکن اب یہ اپنے تجربے سے اور ملک میں جس طرح کے حالات رہے ہیں، اس سے تو بالکل عیاں ہوگیا ہے کہ فوج خود اکیلی کسی صورت میں ملک کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ لوگ اس کا ساتھ نہ دیں۔ اس سلسلے میں سیاسی لائحہ عمل بڑا ضروری ہے، جمہوریت بڑی ضروری ہے، اس کو مضبوط بنیادوں پر رکھا جائے۔

نیشنل سکیورٹی کونسل کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ صدر مشرف نے بار بار کہا تھا کہ اگر نیشنل سکیورٹی کونسل کے آنے سے اب مارشل لاء کبھی نہیں لگے گا لیکن آپ نے دیکھا کہ انہوں نے خود ہی مارشل لاء یا ایمرجنسی نافذ کر دی باوجود اس کے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل موجود تھی۔

تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو روایتی طریقے ہیں دنیا میں اور جس طریقے سے دنیا میں جمہوریت کامیاب ہوئی ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنی جمہوریت چاہتے ہیں اس سے ان کو کیوں دور رکھا جائے۔ بجائے اس کے کہ فوج مداخلت کرے، وہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے سنبھالے، دوسروں کے کاموں میں ملوث ہو کر ان کا بھی کام خراب کرے اور پھر اپنا بھی ادارہ اور اپنی بھی پیشہ ورانہ صلاحیت میں کمی لائ



جنرل مشرف، جنرل کیانی
جنرل مشرف کی نسبت جنرل کیانی زیادہ پراعتماد نظر آئے
آخر کار جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑدیا اور پاکستان فوج کی کمان ایک گھنٹے سے بھی کم جاری رہنے والی تقریب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دی۔ تقریب میں سرکاری میڈیا کو ہی بلایا گیا اور ریاستی ٹی وی چینل پر یہ تقریب براہ راست دکھائی گئی جس میں جنرل کیانی کے چہرے پر مسکراہٹ جبکہ جنرل پرویز مشرف بجھے بجھے سے نظر آئےتقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں جنرل پرویز مشرف کے لہجے میں بھاری پن تھا وہیں دوران تقریر وہ کئی بار الفاظ کی ادائیگی میں اٹکتے رہے جبکہ ان کی نسبت جنرل کیانی کافی پراعتماد نظر آئے۔ فوجی کمان کی تبدیلی کی اس تقریب سے جب جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا تو باقی باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فوج سے کہا کہ ’جب بھی ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو فوج کو اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے‘۔

جب آرمی چیف کے کمان کی علامت، تقریبا ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی میز پر رکھی گئی تو جنرل مشرف دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور جنرل کیانی نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے میز کی طرف چلنے کی درخواست کی۔ میز پر موجود ایک فریم یا سٹینڈ پر رکھی اس چھڑی کو ایک سرے سے جنرل پرویز مشرف اور دوسری طرف سے جنرل کیانی نے اٹھایا۔ جنرل کیانی والے سرے سے تو وہ چھڑی نکل آئی لیکن جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پھنسی رہ گئی اور جنرل کیانی نے چھڑی نکالنے میں ان کی مدد کی۔ جب بینڈ باجے بج چکے اور سلامی والے دستے واپس جانے لگے تو جنرل مشرف انہیں دیر تک مڑ کر دیکھتے رہے اور آخر میں جنرل کیانی نے انہیں چلنے کا اشارہ کیا اور ایسا لگا کہ وہ انہیں کہہ رہے ہوں کہ ’اب چلیے سر جی‘
جنرل پرویز مشرف نے جاتے ہوئے جہاں سے بھی گزرے تقریب میں موجود فوجیوں اور خواتین سمیت کئی سویلین شخصیات کو بھی سلیوٹ کرتے گئے۔ جب تقریب ختم ہوئی تو اچانک ذہن کی سکرین پر خیال آیا کہ بس! یہی آرمی چیف کے کمان کی تبدیلی تھی کہ محض ایک ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی حوالے کرنی تھی۔ جس کے لیے اپوزیشن والے برسوں سے شور مچا رہے تھے!۔

جنرل پرویز مشرف نے بالاخر اپنی’ کھال‘ ، اتار دی اور کمان کی جس چھڑی میں انکی طاقت پوشیدہ تھی اس سے انہوں بظاہر بڑی نیم دلی کے ساتھ اپنے ہی ہاتھ سے پاکستان کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کردیا۔

۔

Monday, November 26, 2007

Jang Group Online shoukat aziz is tired a tremendous column from Hamid Mir posted by shafique ahmed blog

shoukat aziz is tired a tremendous column from Hamid Mir but
in the daily jinnah ( http://www.dailyjinnah.com.pk/admin/anmviewer.asp?a=56112&z=2 ) news paper i just read that an investigative agency has provoked them to not contest election not to go out of country because serious agency has investigating him about many corruption cases like Pakistan steel mill Habib bank stock exchange scandals and gen Musharaf has paid heavy price for all these cases.
Jang Group Online

Sunday, November 25, 2007

جان بچاؤ تحریک سے ملک بچاؤ تحریک تک حسن مجتٰبی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارکposted by shafique ahmed blog

نواز شریف
’سعودی بادشاہ سے لے کر سعودی انٹیلیجنس تک سے نواز شریف خاندان کے مراسم کے کہانی بہت پرانی ہے‘

ابھی کل ہی کی بات ہے جب پاکستان کے سابق وزیراعظم تخت لاہور سے تختے کے قریب پہنچ کر اٹک قلعے کے قیدی تھے اور ان کی آزادی کیلیے متحدہ حزب مخالف کی تحریک کے دوران ان کی بيگم کلثوم نواز اور لاہور پولیس کے درمیاں ’سٹینڈ آف‘ میں انہیں ان کی کار سمیت فورک لفٹر میں کئي گھنٹے تک معلق رکھا گیا تھا۔

اور ابھی مسلم لیگ (ن) کے فیصل آباد سے رکن پنجاب اسمبلی رانا ثناءاللہ لاہور کی فوجی چھاؤنی میں اپنی ننگی پشت پر لگے بیس کوڑوں کے زخم ہی سہلا نہ پائے تھے کہ راتوں رات نواز شریف اپنے خاندان، ملازمین اور پسندیدہ باورچیوں اور بڑھیا غالیچوں اور سامان سے بھرے دو ٹرکوں سمیت چکلالہ ائرپورٹ سے جدہ اڑان بھر کے پوری حزب مخالف کو ہوا میں معلق چھوڑ کر چلتے بنے تھے۔

بہرحال مشہور ہے کہ جان بچانا سنت ہے اور نواز شریف بھی بھٹو نہیں تھے سو انہوں نے یہی کیا۔ بات یہ نہیں کہ یہ معافی نامہ یا عہد نامہ دس یا پانچ برسوں کا تھا، بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی نام نہاد خود مختاری مطلق العنانیت، روشن خیالی، عرب اور پاکستانی حکمران ٹولوں کی ملی بھگت اور محلاتی سازشوں کی ملی جلی عجیب طوطا کہانی ہے۔

پاکستان کا عام آدمی سوچ رہا ہے کہ سیاسی طور پر قرون وسطی میں رہنے والے وہ عرب مسلمان مطلق العنان حکمران جو ڈھائي درہم یا دینار تک چوری کرنے والے آدمی کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں وہ پاکستان پر’ڈاکہ‘ ڈالنے والوں کو چالیس صندوقوں سمیت اڑن غالیچے پر سرور محل پہنچا دیتے ہیں۔

کاش ایسا اسلامی بردارانہ پن یا غیرت بھٹو کی جان بخشوانے پر بھی کام آتی جسے ساری دنیا سے اپیلوں کے باوجود جرنیلوں اور ججوں نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔پاکستان کے اس جلاوطن بادشاہ نے سعودی عرب میں بھی سٹیل مل لگوائی اور جدہ میں اپنے قیام کے دوران زیادہ تر وقت سابق صدر رفیق تارڑ کے لطیفوں، پاکستانی پرنٹ میڈیا میں فوجی حکممران جنرل پرویز مشرف کے خلاف اور ان کے حق میں شائع ہونے والے کالموں کو پڑھنے اور اپنے پسندیدہ کھانے کھانے اور کھلانے میں وقت گزارا۔

نواز شریف سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کے ہمراہ

سعودی بادشاہ سے لے کر سعودی انٹیلیجنس تک سے نواز شریف خاندان کے مراسم کی کہانی بہت پرانی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب انیس سو ترانوے میں بینظیر بھٹو حکومت نے سیاسی انتقام کے طور پر شریف خاندان کی کاروباری ناکہ بندی کر رکھی تھی تب بھی ان کے بزنس کو قرضے سعودی عرب کے الفیصل بنک سے ہی جاری کیے گئے۔

جدہ سے بظاہر اپنے بیٹے حسین نواز کی بیماری کے علاج کی غرض سے لندن جانے والے نواز شریف اور اس نواز شریف میں فرق تھا جو جان بچانا سنت ہے والے فارمولے اور اپنے ابا جی کے مشورے پر عمل کرتے اٹک جیل سے جدہ جا پہنچے تھے۔

اس پورے کیس میں نواز شریف جو اب ایک فریادی تھے کے آخر کار وہ منتخب وزیراعظم تھے اور ان کی حکومت ان ہی کے چیف آف آرمی سٹاف اور فوجی ٹولے نے اپنی نوکری جانے پر ان کا تختہ الٹ کر ختم کی تھی۔

پاکستانی عدلیہ کی آزادی کا کیا کہنا کہ ملک کی منتخب وزیراعظم کی حکومت کو ختم کر کے ملکی آئین کو ہائي جیک کرنے والے آرمی چیف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کو تو بغاوت کرنے پر کوئی سزا نہیں ہوئی پر معزول وزیراعظم نواز شریف کو سزا ہوگئي۔

جہاں جی ایچ کیو کا معاملہ ہوتا ہے وہاں لاہور اور لاڑکانہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔

جدہ اور لندن میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف، ان کی مسلم لیگ ن اور بینظیر بھٹو کے درمیاں قربت بڑھی اور میثاق جمہوریت معاہدہ بھی ہوا لیکن معافی سے مشروط کرسی کی دوڑ دھوپ میں بینظیر بھٹو اتنی آگے نکل گئيں کہ ان کے مشرف فوجی سرکار سے مذاکرات و معاملات تب بھی جاری تھے جب وہ میثاق جمہوریت پر دستخط کر رہی تھیں۔

اسی میثاق جمہوریت میں اس آئي ایس آئی میں سیاسی سیل ختم کرنے کا نکتہ بھی شامل تھا جس کے چیف سے بینظیر بھٹو نے ابوظہبی میں ملاقاتیں کی ہیں۔

یہ سبق بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائي میں، بقول انکے، مارگریٹ تھیچر سے سیکھا ہوا ہے کہ دو فریقوں کی لڑائي میں وہ ایک کے زخمی یا بےسدھ ہو کر گرنے تک خاموشی اور مزے سے تماشا دیکھتی رہا کریں اور پھر آ کر ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھائيں۔ بینظیر بھٹو مارگریٹ تھیچر کے اس سبق پر نواز شریف اور صدر اسحاق کے درمیان ہونے والی محاذ آرائي سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم بن گئي تھیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے وکلاء، متوسط طبقات، نوازشریف اور ان کا آبائي صوبہ پنجاب فوجی اسٹبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لاہور جیسے پنجاب کے بڑے شہروں میں فوجیوں کو وردی پہن کر چھاؤنی سے باہر بازاروں میں جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ اب لاہوری ان کے لیے’لچي سی لفنگی سی گنجے، کولوں چنگی سی‘ والا نعرہ نہیں لگاتے اور اب پھر وہاں’ڈھاکے جناں بم چلائے۔۔۔۔‘ والے نعروں کا موسم آیا ہوا ہے۔

یہ پت جھڑ شاید مشرف فوجی راج کی پت جھڑ ہو۔ ایسے سمے میں نواز شریف نے پاکستان میں لوہا تپتا دیکھ کر ضرب لگانے کی ٹھانی ہے۔ پورا ملک اس وقت ان کے لیے’تو لنگھ آ جا پتن چناں دے‘ بنا ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں بھی ان سولہ کروڑ دکھی عوام کیلیے سوہنی جیسا دل ہے یا اب بھی وہ کچھ کٹھ ملاؤں، چند پنجابی کور کمانڈروں اور ’ زندگی کے ہاتھ میں آدمی کھلونا ہے‘ بنے ہوئے ہیں!

کیا اس بار یہ پت جھڑ پاکستان میں فوجی راج کی پت جھڑ ثابت ہوگی!

اندازے اور امکانات wonderful analysis of saleem safi of daily jinnah posted by shafique ahmed blogs


پاکستان میں کس قدر قحط الرجال ہے ، اس کا اندازہ اس امر سے لگالیجئے کہ بعض نادان مجھ جیسے لوگوں کو بھی تجزیہ نگاروں کی صف میں شامل کرجاتے ہیں ۔ ان نادانوں میں لندن ، واشنگٹن اور تہران میں مقیم بی بی سی ، وائس آف امریکہ اور ریڈیو تہران کے لئے کام کرنے والے کچھ دوست بھی ہیں جو ان دنوں وقتاً فوقتاً مجھ سے پاکستان کے حالات کا تجزیہ کرانے کے لئے رابطہ کرتے رہتے ہیں اور تماشہ یہ ہے کہ اس اوٹ پٹانگ تجزیے کو وہ نشر بھی کرلیتے ہیں ۔ میں جس طرح اپنے کالموں میں ایک عرصے سے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو" مستقبل کی ایم ایم اے" کے نام سے یاد کررہا ہوں ، اسی طرح مذکورہ اداروں کے ساتھ گفتگو کے دوران بھی میری لائن یہی ہوا کرتی ہے ۔ میرا اصرار یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت مصنوعی ہے ، جس کے ذریعے وہ عوام میں اپنا امیج بحال کرنا چاہتی ہے ۔ میرے نزدیک بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کا اتحاد ، ایم ایم اے اور جنرل پرویز مشرف کے خفیہ اتحاد کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے کیونکہ نہ صرف دونوں روشن خیال ہیں بلکہ ضامن بھی وائٹ ہاؤس ہے ۔ میں تسلسل کے ساتھ عرض کرتا رہا کہ جس طرح گذشتہ سالوں میں ایم ایم اے اور جنرل مشرف کے کیمپ کا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری رہا ، اسی طرح بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے مابین بھی مخالفانہ بیانات کا یہ ڈرامہ چلتا رہے گا لیکن درون خانہ معاملات ٹھیک رہیں گے ۔
ایمرجنسی کے نفاذکے بعد جب جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بے نظیر بھٹو کے لہجے میں تلخی آئی اور ایک موقع پر یہاں تک فرماگئیں کہ اب انہیں جنرل پرویز مشرف وردی کے بغیر بھی قبول نہیں تو میرے بعض دوست مجھ سے کہنے لگے کہ تمہارا اندازہ غلط ثابت ہوا ہے اور لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کشتیاں جلا کر جنرل صاحب کے خلاف میدان میں کود پڑیں ۔ اس دوران ایک دن ریڈیو تہران سے اس کے پشتو سروس کے انچارج عاشق حسین کا فون آیا۔ وہ ایک بار پھر مجھ سے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرانا چاہ رہے تھے ۔ انٹرویو شروع کرنے سے قبل انہوں نے فرمایا کہ سلیم !اب تو صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور آپ کا اندازہ غلط نکلا ہے تو بے نظیر بھٹو کی سیاست کے بارے میں آپ آج کیا کہیں گے ؟، میں نے عرض کیا کہ وہی کچھ کہوں گا جو اس سے پہلے کہتا رہا ۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا تم اب بھی یہی سمجھتے ہو کہ یہ نوراکشتی ہے تو عرض کہ ہاں مجھے اب بھی یہ نوراکشتی دکھائی دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو بے نظیر بھٹو صاحبہ ، میاں نواز شریف اور ایم ایم اے سے مل کر بھی مشرف کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوگئی ہيں تو میں نے عرض کیا کہ کیا گذشتہ پانچ سالوں میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایم ایم اے کی اٹھک بیٹھک کا سلسلہ جاری نہیں رہا ۔ عرض کیا کہ آج اگر بے نظیر بھٹو ، جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت بیانات دے رہی ہیں تو کیا گزشتہ پانچ سالوں میں ایم ایم اے کے رہنماؤں نے جنرل مشرف کے خلاف اور جنرل مشرف نے ایم ایم اے کے خلاف تھوڑے تلخ بیانات جاری کئے ۔پھر ریڈیو تہران کے ساتھ باقاعدہ انٹرویو کے دوران میں نے اپنا یہ تجزیہ ان کے سامنے رکھا کہ مجھے لگتا ہے کہ امریکی بدستور جنرل پرویز مشرف کی ضرورت محسوس کررہے ہیں ۔ وہ ان سے وردی اتروانا چاہتے ہیں لیکن ایک سویلین صدر کی حیثیت سے وہ بدستور درکار ہیں ۔ اسی طرح امریکی بے نظیر بھٹو کو نئے سیٹ اپ میں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کی مصالحت امریکہ نے کروائی ہے ۔ ابھی وہ ثالث اور ضامن کا کردار ادا کررہا ہے ۔ ذرا نیگروپونٹے صاحب کو آنے دو (اس گفتگو کے دوروز بعد امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ نیگروپونٹے نے پاکستان پہنچنا تھا) ، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا۔نیگروپونٹے ابھی واپس امریکہ نہیں پہنچے تھے کہ بينظیر بھٹو صاحبہ کے لہجے میں موجود تلخی میں نمایاں کمی آگئی اور اگلے دن یہ مطالبہ کردیا کہ انتخابات کے دوران بلدیاتی ادارے معطل کردئے جائیں ۔ ان کے اس مطالبے میں یہ پیغام پنہاں تھا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گی ۔ اگلے دن جب ایک بار پھر انٹرویو کے لئے عاشق حسین صاحب کا فون آیا تو میں نے ان کا انٹرویو لینا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ اب ان کا کیا خیال ہے تو وہ ہنس دئے اور کہنے لگے کہ واقعی آپ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ واقعی پاکستانی سیاست دلچسپ اور عجیب و غریب ہے ۔
سیاست میں کوئی بھی بات دو جمع دو چار کی طرح طے نہیں ہوتی ۔ یہاں دوست ہوکر بھی کوئی دوست ، دوست اور دشمن ہوکر بھی کوئی دشمن ، دشمن نہیں ہوتا۔ دوستی اور مفاہمت کے دنوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف چالیں چلائی جاتی ہیں ، یوں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے مابین بھی نہ صرف مخالفانہ بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا بلکہ حسب ضرورت ایک دوسرے کے خلاف چالیں بھی چلائی جائیں گی ، لیکن معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف کبھی نہیں جائے گا ۔ کم از کم مسقبل قریب میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا بھی اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں گے جب تک امریکہ چاہے گا ۔ ہاں البتہ اگر کبھی ایسا مرحلہ آیا کہ امریکہ جنرل پرویز مشرف سے یکسر مایوس ہوگیا یا پھر یہ کہ وہ انہیں اپنے لئے بوجھ سمجھیں تو بے نظیر بھٹو صاحبہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حقیقی جنگ شروع کرنے میں دیر نہیں لگائيں گی ۔
اندر کی کہانی سے آگاہ لوگ بتاتے ہیں کہ نیگرو پونٹے جہاں جنرل پرویز مشرف کے لئے پیغام لائے تھے ، وہاں انہیں نے بے نظیر بھٹو کو بھی صاف لفظوں میں بتادیا ہے کہ وہ اپنے حدود میں رہیں اور پرویز مشرف کے ساتھ بنا کے رکھیں ۔ جنرل پرویز مشرف پر بھی انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ وردی اتار دیں ۔ ایمرجنسی اٹھادیں اور عام انتخابات کا انعقاد کروادیں جبکہ جواب میں وہ جنرل پرویز مشرف کی یہ درخواست مان چکے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے معزول چیف جسٹس اور معزول ججوں کی بحالی پر زور نہیں دیا جائے گا ۔ یوں میرا اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد جنرل پرویز مشرف جہاں وردی اتاردیں گے وہاں وہ ایمرجنسی کے خاتمے کا بھی کچھ دنوں میں اعلان کردیں گے ۔ اسی طرح وہ بہر صورت 8 جنوری 8002ء کو عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کی بھی کوشش کریں گے ۔ بے نظیر بھٹو سردست قاضی حسین احمد اورعمران خان کی ہمنوا بن کر پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں گی لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اس مطالبے سے دستبردار ہوجائیں گی۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل مسئلہ یہی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج ہیں اور اگر مغرب و بے نظیر بھٹو ان کی بحالی کے لئے زور نہ ڈالیں تو وہ دیگر ایشوز پر لچک دکھانے پر تیار ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی طرحمتحدہ مجلس عمل ، اے این پی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی ڈرامہ کے سوا کچھ نہیں ۔ لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ سب جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی اور ڈ ٹ کر حصہ لیں گی جبکہ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف بھی بہت جلد پاکستان میں ہوں گے ۔ اندر کی کہانیوں کی خبر رکھنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے سعودی حکومت کو یہ درخواست کی گئی کہ وہ میاں نواز شریف کو پاکستان آنے سے روک دے لیکن میاں نواز شریف کو واپس جدہ لے جانے کے بعد پاکستان کے اندرسعودی عرب کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا ہے ، اس کے بعد اب وہ مزید میاں نواز شریف کو روکے رکھنے کے حق میں نہیں ۔ یوں جب سعودی حکومت نے میاں نواز شریف کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ پاکستان آنے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔

Thursday, November 22, 2007

کاہان کا بالاچ-آج مریوں کا ایک اور بیٹا پہاڑوں پر آزاد بلوچستان کا خواب دل میں لئے مار دیا گیا۔مظہر زیدی posted by shafique ahmed blog

کاہان کا بالاچ

وفاداری بلوچستان سے
آج مریوں کا ایک اور بیٹا پہاڑوں پر آزاد بلوچستان کا خواب دل میں لئے مار دیا گیا۔

بالاچ ، نواب خیر بخش مری کے چھ بیٹوں میں وہ بیٹا تھا جس کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ پچھلے چند برسوں سے وہی پہاڑوں پر بلوچوں کی مزاحمتی تحریک چلا رہا تھا۔نواب خیر بخش مری یا ’گونگا بابا‘ جو ساری زندگی اپنے قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات پر ڈٹے رہے اب اپنی جد وجہد میں اپنا بیٹا بھی کھو بیٹھے ہیں۔سترہ جنوری انیس سو پینسٹھ میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے اس مری سپوت نے کوئٹہ کے گرامر سکول میں ابتدائی تعلیم کے بعد روس میں ماسکو سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور پھر کئی برسوں تک لندن میں رہا۔سن دو ہزار دو میں جنرل مشرف کے زیر سایہ ہونے والے انتخابات میں لندن سے ہی کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور صوبائی الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد حلف لینے کے لئے کوئٹہ واپس پہنچا۔

اسمبلی میں حلف لیتے وقت پاکستان سے وفاداری کی بجائے بلوچستان سے وفاداری کا نعرہ بلند کیا تو ایوان میں بڑی ہلچل مچی۔
بالاچ کے بھائی گزن مری کے بقول حلف اٹھانے کے بعد انہیں حکومتی حلقوں سے قاف لیگ میں شامل ہونے اور وزارتوں کی پیشکشیں بھی ہوئیں لیکن انہوں نے انکار کردیا جس کے بعد ان کے خلاف کئی پرانے مقدمات کو تازہ کرنے کی کوشش شروع ہوئی اور وہ زیر زمین چلے گئے۔
اگست سن دو ہزار چھ میں مری علاقے میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے وقت بھی اس غار میں بالاچ مری ان کے ساتھ موجود تھے۔ ان کے بھائی گزن کے مطابق نواب بگٹی کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن سے پندرہ منٹ پہلے نواب صاحب نے انہیں اور اپنے پوتے براہمداغ بگٹی کو وہاں سے جانے کے لئے کہا لیکن انہوں نے اپنے مہمان کو چھوڑ جانے سے انکار کیا جس پر نواب بگٹی نے زبردستی انہوں وہاں سے بھیجا۔بالاچ مری پچھلے کئی برسوں سے قبائیلی معاملات کے ساتھ ساتھ بلوچ مزاحمتی تحریک کے اہم ترین رہنماؤں میں تصور کئے جاتے تھے اور حکومت پاکستان کو مطلوب بھی تھے۔

پچھلے سال نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بالاچ مری بلوچستان کے اہم رہنما ہیں جو ایک آپریشن میں ہلاک ہوئے ہیں۔

Tuesday, November 20, 2007

THREE PERVIZ وسعت اللہ خان تین پرویز


صدر اور جنرل مشرف
پیارے بچو ہماری دعا ہے کہ آپ سب بھی صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی طرح ہنسی خوشی مل جل کر کھائیں پئیں،
پیارے بچو آئیے آپ کو آج مثالی دوستی کے موضوع پر ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی سناتے ہیں۔

بہت سال پہلے دلی کے ایک محلے میں تین بچے ایک ہی دن پیدا ہوئے۔ایک کا نام رکھا گیا پرویز مشرف اور دوسرے کا نام اس کے والدین نے رکھا پرویز مشرف اور تیسرے بچے کا نام تھا پرویز مشرف۔ان تینوں پرویزوں اور ان کے والدین میں بڑی محبت اور حسنِ سلوک تھا۔وقت گزرتاگیا اور زمانے کا گرم و سرد انہیں کہیں سے کہیں لے گیا۔ان میں سے دو پرویز تو ملک اسلام آباد کی فوج میں بھرتی ہو گئے اور تیسرا پرویز ادھر ادھر ہوگیا۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جن پرویزوں کو فوج میں کمیشن ملا ان میں سے ایک والدین کی دعاؤں اور محنت کے طفیل ترقی کرتے کرتے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر پہنچ گیا اور دوسرے پرویز نے بھی اعلیٰ ترین جرنیل کے طور پر ترقی پائی اور اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیاد پر جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ایک دن جب چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کسی ملک کے دورے سے واپس آ رہا تھا تو حاکمِ وقت نے اسے دھوکے سے مروانے کی کوشش کی۔اس موقع پر جوائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین پرویز مشرف نے دیگر جرنیلوں کے ساتھ مل کر چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کا بے جگری سے ساتھ دیا اور دشمن حاکم کو مار بھگایا۔

پھر جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے اتفاق سے دونوں پرویزوں کو اپنا بچھڑا ہوا تیسرا جگری یار پرویز مشرف بھی مل گیا۔دونوں پرویز اس تیسرے یار کے ملنے پر جذبات سے اتنے مغلوب ہوگئے کہ اسے ملک اسلام آباد کا صدر بننے کی پیش کش کردی اور تیسرے پرویز نے یہ پیشکش بخوشی قبول کرلی۔تینوں نے پہلے سے براجمان بڈھے کھوسٹ صدر کو ڈنڈا ڈولی کرکے ٹیکسی میں بٹھایا اور ملک لاہور کی طرف روانہ کر دیا۔اور اس کی جگہ تیسرا پرویز کرسی صدارت پر متمکن ہوگیا۔اس کے بعد دونوں فوجی پرویزوں نے تیسرے پرویز کو پہلے تو صدارتی سلوٹ مارا اور پھر آنکھ ماری اور پھر تینوں تا دیر پیٹ پکڑ ے ہنستے رہے۔

بلڈی سویلین کتنے بلڈی
ایک روز صدر پرویز مشرف نے چیف آف سٹاف پرویز سے پوچھا یار۔۔۔جس طرح ہیٹ سے خرگوش نکل سکتا ہے کیا اسی طرح ہیلمٹ سے کوئی سیاسی جماعت نہیں برآمد ہوسکتی۔ ویسے بھی میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ بلڈی سویلینز آخر کتنے بلڈی ہوتے ہیں۔


ایک دن جب تینوں پرویز صدارتی محل میں بیٹھے تین پتی کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک پرویز نے اعلان کیا کہ میں نوکری کرتے کرتے بور ہوچکا ہوں اس لیے اب سبکدوش ہوکر اپنے پوتوں نواسوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور مطالعے اور گولف کورس میں وقت گزارنا چاہتا ہوں۔اب تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔میرے مشوروں کی جب بھی ضرورت ہو میں حاضر لیکن مجھے روکنے کی ضد نہ کرنا۔چنانچہ صدر پرویز مشرف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے بڑے بھاری دل کے ساتھ اپنے جگری یار جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو الوداع کہا اور پھر رموزِ مملکت سلجھانے میں لگ گئے۔

ایک روز صدر پرویز مشرف نے چیف آف سٹاف پرویز سے پوچھا۔یار۔۔۔جس طرح ہیٹ سے خرگوش نکل سکتا ہے کیا اسی طرح ہیلمٹ سے کوئی سیاسی جماعت نہیں برآمد ہوسکتی۔چیف آف سٹاف نے کہا کہ نکل تو سکتی ہے لیکن آخر اس کی ضرورت کیا ہے۔صدر پرویز مشرف نے کہا کہ تو تو اکثر فوجی امور میں مصروف رہتا ہے اور میں بیٹھا بیٹھا بور ہوتا رہتا ہوں۔پارٹی ہوگی تو میری بھی کچھ مصروفیت ہوجائے گی اور ویسے بھی میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ بلڈی سویلینز آخر کتنے بلڈی ہوتے ہیں۔

چنانچہ چیف آف آرمی سٹاف نے اپنے کچھ ماتحتوں کے ہمراہ ایک پارٹی تشکیل کرکےصدر کے حوالے کردی تاکہ صدر کا دل لگا رہے۔صدرِ مملکت شغل شغل میں اس پارٹی کے سویلینز سے مشورے کر کے وقت گزاری کرتے لیکن آخری مشورہ ہمیشہ اپنے جگری چیف آف آرمی سٹاف کا ہی مانتے۔

اس مثالی ہم آہنگی کےنتیجے میں انہیں بہت فائدہ ہوا۔مثلاً دونوں نےمل کر جب ملکی امور، اپنے سویلین ماتحتوں اور سویلین پارٹی پر نگاہ رکھنے کے لئے نیشنل سیکورٹی کونسل نامی ایک ادارہ تشکیل دیا تو اس کا ایجنڈہ صدر پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کے ساتھ مشترکہ طور پر ہی بنایا۔اس کے سبب اس کونسل نے جتنے بھی فیصلے کئے بلا چون و چرا کئے۔کونسل کے دیگر ارکان کی مجال نہیں تھی کہ دونوں کی مشترکہ خواہش سےانحراف کرسکیں۔
تو بچو یہ ہوتی ہے اتحاد کی برکت!

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک اسلام آباد کی حکومت میں ایک روانی اور استحکام آگیا۔جہاں صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیرِ اعظم نامی کوئی عہدیدار مل کر حکومتی پالیسیاں طے کرتے تھے۔

پرویزوں نے پہلے سے براجمان صدر کو ڈنڈا ڈولی کر کے ٹیکسی میں بٹھایا کر لاہور کی طرف روانہ کر دیا

صدر مشرف کی حکومت سے پہلے اقتدار کی یہ تکون مستقل کھینچا تانی کا شکار رہتی تھی۔لیکن صدر مشرف اور جنرل مشرف نے اس تکون کو ایک استحکام بخشا جس کے سبب وزیرِ اعظم بھی سیدھا رہتا تھا اور ملک اسلام آباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک منتخب حکومت نے پانچ برس پورے کئے۔

صدر مشرف سے پہلے کے ادوار میں چیف آف آرمی سٹاف کو تین برس سے زیادہ اپنے عہدے پر رہنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔لیکن جنرل پرویز اور صدر پرویز کی یاری نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا اور جنرل پرویز مشرف نے جب بھی یاد دلایا کہ انکی چیف آف سٹاف کے عہدے کی مدت قریب الختم ہے۔صدر پرویز مشرف اپنا قلم اپنے دوست کی طرف یہ کہہ کر بڑھا دیتے۔۔۔۔یار تو خود ہی اپنی توسیع کی فائیل پر میری طرف سے دستخط کرلے۔۔۔۔۔

یہ صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی یاری کا ہی تو ثمر ہے کہ جب سپریم کورٹ نامی عدالت کے جج آپے سے باہر ہونے لگے اور انہوں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر صدر پرویز مشرف کو چلتا کرنے کی ٹھانی تو یہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنے بچپن کی دوستی کا حق یوں نبھایا کہ صدر مشرف کے علم میں لائے بغیر ایمرجنسی لگا دی ۔سرکش ججوں کےمنہ سی دیئےاور دیگر اول فول بکنے والوں کو خاک چٹوادی۔

صدر مشرف کو اگرچہ یہ بات کچھ زیادہ نہیں بھائی کہ جنرل پرویز مشرف نے ان سے پوچھے بغیر ایمرجنسی لگا دی۔لیکن پھر یہ سوچ کر جنرل مشرف کو کچھ نہیں کہا کہ جو کام میں امریکی دباؤ میں دو ماہ پہلےنہ کرسکا وہ کام میرے وفادار دوست چیف آف سٹاف نے پلک جھپکتے میں کر ڈالا۔اگر مجھ سے پوچھ کر کرتا تو شاید میں اجازت نہ دے پاتا۔شکر ہے بات بن بھی گئی اور رہ بھی گئی۔

اور بچو ! وفاداری و دوستی کی اس کہانی میں مزید چار چاند اس طرح لگے جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوست اور باس صدر پرویز مشرف کو یہ اختیار منتقل کردیا کہ صدر اپنی مرضی سے ایمرجنسی کے اعلان میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور اسے ختم بھی کرسکتے ہیں۔

پیارے بچو یہ بات تو عجیب و غریب نہیں ہے کہ ایک باس اپنے ماتحت کو کوئی اختیار دے دے۔لیکن دنیا کی حکومتی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کوئی ماتحت اپنے باس کو کوئی اختیار منتقل کرڈالے یا باس کے ہوتے ہوئے باس کا اختیار استعمال کرلے۔ایسے معجزے ملک اسلام آباد المعروف سب سے پہلے پاکستان میں ہی ممکن ہیں۔

بچو اگر آپ کو صدر پرویز مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی مثالی دوستی کے بارے میں مزید مواد درکار ہے تو اس کے لیےصدر کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر پڑھنا بہت ضروری ہے۔اس کتاب میں صدر مشرف نے اپنے دوست جنرل مشرف کے کارنامے تفصیلاً اجاگر کرتے ہوئے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

پیارے بچو ہماری دعا ہے کہ آپ سب بھی صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی طرح ہنسی خوشی مل جل کر کھائیں پئیں، کھیلیں کودیں اور دودھوں نہائیں پوتوں پھلیں۔
آمین۔ ثم آمی

’جج،جنرل آئین سے بغاوت کے مرتکب‘حسن مجتٰبی

جسلٹس وجیہہ
’بائیسویں گریڈ کے چیف آف آرمی سٹاف کو آئین میں ترمیم کا حق نہیں‘
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور صدارتی انتخابات میں جنرل مشرف کے مقابل امیدوار ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے تمام جج اور جنرلوں کو آئین سے غداری کی پاداش میں سزا دی جا سکتی ہے۔

جسٹس وجیہہ الدین نے یہ بات اتوار کی دوپہر نیویارک میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’ڈاکٹرز فار ڈیموکریسی اینڈ جسٹس‘ کی طرف سے پاکستان میں ایمرجنسی اور میڈیا پر پابندیوں کے خلاف منعقدہ ایک تقریب سے ٹیلفونک خطاب کے بعد سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہی۔

جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے والے جج آئین سے بغاوت کے مرتکب ہیں جس پر انہیں آئین کی دفعہ چھ اور چھ(الف) کے تحت آئین سے غداری کے جرم میں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اس سے قبل جسٹس وجیہہ الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جنرل مشرف سمجھتے تھے کہ ان کے انتخاب اور وردی کے متعلق سنی جانیوالی پٹیشنوں پر فیصلہ ان کے خلاف آ سکتا تھا اور دوسری بڑی وجہ قومی مصالحتی آرڈینینس یا این آر او تھا جس کی آئینی و قانونی حیثیت بھی بہت کمزور تھی اور سپریم کورٹ میں چیلنج کی گئي تھی۔

انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ صدر مشرف کو سپریم کورٹ میں ان کے صدارتی انتخابات کے خلاف پیٹشنز کی سماعت کرنے والے فل کورٹ بینچ کے ججوں میں سے کسی ایک نے بتایا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف آنے والا تھا۔

جسٹس(ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ’پاکستان اس وقت سخت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ مہذب ممالک میں جب مسلمہ نظام تہ و بالا کیا جاتا ہے تو اس کا شکار حکومت کے ادارے ہوتے ہیں اور پاکستان میں تین نومبر کے شب خون کا شکار عدلیہ اور آزاد میڈیا ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ انیس سو اٹھاون سے لے کر بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے تک جتنی بھی فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں اس کا براہ راست نشانہ حکومتیں اور پارٹیاں رہی ہیں لیکن تین نومبر کو جنرل مشرف نے خود اپنی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی ہے جس کا نشانہ حکومت کے ادارے عدلیہ اور پارلیمان بنے۔

جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ’ایک بائیسویں گریڈ کے چیف آف آرمی سٹاف کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آئين میں ترمیم لائے اور اس کی شکل بگاڑے۔یہ حق نہ اسے پاکستانی آئین اور نہ ہی آرمی ایکٹ کے تحت حاصل ہے‘۔

انہوں نے کہا جبکہ جنرل مشرف نے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف کی حيثیت سے ایمرجنسی کے نفاذ کے حکمنامے پر دستخط کیے اور اب پھر ایمرجنسی ختم کرنے کے اختیارات انہوں نے چيف آف آرمی اسٹاف سے واپس صدر کی طرف منتقل کر دیے ہیں جو آئين کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

ادھر نیویارک میں اقوام متحدہ کے سامنے نیویارک سمیت دیگر امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات نے ایمرجنسی اور مشرف حکومت کے خلاف زبردست مظاہرہ بھی کیا۔

Sunday, November 18, 2007

aJang Group Online

Jang Group Online
A fantastic column by the Great Hamid Mir click the link to read the column lease.

عالمی برادری میں پاکستان کے امیج کا سوال a column from saleem safi


مغرب میں مقیم دانا لوگوں سے رابطے کئے ۔ امریکہ اور یورپ سے پلٹ کر آنے والوں کے مشاہدات سے آگاہی حاصل کی ۔ غیرملکی صحافیوں اور سفارتکاروں کو کریدا ۔ مغربی پریس کو کنگالا اور ہر طرف سے ایک ہی پیغام ملا ۔ وہ یہ کہ امریکہ اور مغرب میں جتنی تشویش ان دنوں پاکستان کے بارے میں پائی جاتی ہے، پہلے کبھی نہ تھی ۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل مغربی ممالک کے لئے تشویش کا سب سے بڑا سبب عراق تھا۔ دوسرے نمبر پر وہ ایران کے جوہری پروگرام سے پریشان تھے جبکہ پریشانی کاتیسرا سبب افغانستان تھا لیکن ان دنوں وہ تینوں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور مغربی دنیا کے لئے تشویش کے حوالے سے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے ۔ نیویارک ٹائمز ہو کہ واشنگٹن پوسٹ ، ڈیلی ٹیلی گراف ہو کہ لندن ٹائمز ، ہفتہ روزہ نیوزویک ہو کہ ٹائم میگزین ، ہر جگہ پاکستان زیربحث ہے ۔ پاکستان کو فیلڈ (ناکام) ریاست قرار دیا جارہا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور سولہ کروڑ انسانوں کی اس دھرتی کو وحشیوں اور دہشت گردوں کے گڑھ کے نام سے یاد کیا جارہا ہے ۔ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے بے یقینی کی فضا صرف ملک کے اندر موجود تھی لیکن اب پوری دنیا پاکستان کے بارے میں بے یقینی کی شکار بن گئی ہے اور ہمارے حکمران پھر بھی یہ دلیل دیتے جارہے ہیں کہ ایمرجنسی ، بے یقینی کی فضا کو ختم کرنے کے لئے لگائی گئی ۔
پاکستان کے بارے میں اہالیان مغرب ، عراق ، ایران اور افغانستان سے بڑھ کر تشویش میں مبتلا کیوں نہ ہوں ۔ مذکورہ تینوں ممالک میں سے ایک بھی ایٹمی قوت نہیں جبکہ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ عراق میں نام نہاد سہی لیکن ایک آئین پر عمل ہورہا ہے ، ایران بھی ایک منظم اور آئین و قانون کے تحت چلنے والا ملک ہے جبکہ افغانستان میں بھی حامد کرزئی ایک آئین کے تحت حق حکمرانی استعمال کررہے ہیں لیکن ان کے برعکس پاکستان سرزمین بے آئین بن گیا ہے ۔عالمی برادری اس ملک کے بارے میں تشویش میں مبتلا کیوں نہ ہو، جہاں کے حکمرانوں کو اپنے ہاتھوں ترمیم شدہ آئین کے تحت چلنا بھی گوارا نہیں کرتے اور وہ اس ترمیم شدہ آئین کو بھی معطل کر بیٹھے ہوں ۔ جہاں کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انصاف کے طلب گار بن جائیں اور جہاں کے اعلیٰ عدالتوں کے جج گھروں میں نظربند ہوں ۔ جہاں کے سیکورٹی فورسز ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں بلکہ متعدد مقامات پر اپنے ہی ملک کے باسیوں سے برسرپیکار ہوں اور جہاں انہیں سینکڑوں کی تعداد میں یرغمال بنایا جارہا ہو۔ جہاں پر مسلح گروہ پورے پورے اضلاع کو قبضہ کرکے پولیس تھانوں سے پاکستانی پرچم اتار کر اپنے پرچم لہرارہے ہوں ۔ جہاں چور ، ڈاکو اور قانون شکن دندناتے پھررہے ہوں لیکن پولیس سیاسی لیڈروں اور وکلاء کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہوں ۔ جہاں قانون شکنی عام ہو جبکہ جیلیں اور تھانے مجرموں کی بجائے قومی رہنماؤں سے بھرے پڑے ہیں ۔ جہاں میڈیا کا گلہ دبا دیا گیا ہواور الیکٹرانک چینلز کو یوں بند کیا جارہا ہو، جیسے وہ الیکٹرانک ٹی وی چینلز نہیں بلکہ چوری کے مال کی دکانیں ہوں ۔ جہاں پر میڈیا کو ہر طرح کی بے حیائی پھیلانے کی تو اجازت ہو، لیکن اس پرعوام کے پسندیدہ ٹاک شوز اس جرم میں بند کئے جارہے ہوں کہ وہ حکمرانوں کے کلامی محاسبے کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
پاکستان وہ عجیب وغریب ملک ہے کہ جہاں اس اکیسویں صدی میں بھی ایک ہی فرد کے ہاتھوں دوسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ اب یہ یہاں کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟۔ ملک کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ جبری گھر بھجوانا ، کیا یہاں کے انصاف کے طلب گار عوام کے ساتھ سنگین مذاق نہیں ؟۔ پہلے میڈیا کو آزادی دی گئی اور وہ بھی بے مہار آزادی ۔ پھراس آزادی کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ جو آزادی دی گئی تھی وہ بھی بے مہارتھی لیکن پھر یکدم میڈیا کا اس طرح گلہ گھونٹاگیا ، جیسے پاکستان سابق سوویت یونین کا حصہ ہو۔ اب یہ کیا اس ملک کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں ؟۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ، نگران وفاقی کابینہ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ بہترین صلاحیتوں کی مالک سولہ کروڑ کی اس آبادی میں ذاتی دوستوں ، دوستوں کے دوستوں اور سفارشیوں پر مشتمل ایسی عجیب و غریب کابینہ بنانا اور اسے ملک کا انتظام سونپنا ،کیا یہاں کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں ۔ ہوسکتا ہے اس کابینہ میں دو تین اہل افراد بھی ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کس کے ساتھ مشورہ کیا گیا اور ذاتی پسند کے علاوہ اورکس بنیاد پر ان لوگوں کا انتخاب کیا گیا ؟۔
عوام کی سبکی کے جو کارنامے موجودہ حکومت کے دور میں دیکھنے کو ملے ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان سے حکومتی رٹ کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ وہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار یرغمال بنائے جارہے ہیں ۔ کرم ایجنسی میں آگ و خون کا بازار گرم ہے ۔ خیبر ایجنسی کی ایک پوری تحصیل میں حکومتی اہلکار قدم نہیں رکھ سکتے ۔ مہمند ایجنسی میں بھی اب بھرے مجمعوں میں لوگ ذبح کئے جارہے ہیں ۔ باجوڑ ایجنسی تو ایک عرصے سے شورش زدہ ہے اور دوسری طرف ان قبائلی علاقوں کے انتظامی سربراہ یعنی گورنر سرحد علی محمد جان اوکرزئی سندھ کے صحراؤں میں شکار کے مزے لے رہے ہیں ۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ یہ خبریں چھپوائی جاتی ہیں کہ گورنر سرحد نے شکار کے دوران 59 تیتر شکار کئے ۔ اب کیا یہ اس قوم کی توہین ہے کہ نہیں ؟۔
بدامنی کو جواز بنا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے ۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔ ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ پاکستان کا سویٹرزلینڈ تصور کئے جانے والے سوات میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے ۔ گھر اجڑ رہے ہیں ۔ پورا ملک خودکش حملوں کی زد میں ہے اور چند ہی روز قبل وفاقی وزیر امیر مقام کے گھر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں تین سپاہی اور ان کے قریبی عزیز پیر محمد خان وفات پاچکے ہیں لیکن ہمارے حکمران ایوان صدر میں رخصت ہونے والے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں غریب قوم کی ٹیکس کی آمدنی سے محافل سجا کررنگارنگ تقریبات کے ذریعے شب بیداریوں میں مصروف ہیں ۔ اب یہ کیاقوم کے ساتھ سنگین مذاق نہیں ؟۔
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران خود تسلسل کے ساتھ اپنے عوام کا مذاق اڑا رہے ہوں ، دنیا اس ملک کا مذاق کیوں نہ اڑائے ؟۔

پاڑہ چنار میں لڑائی

قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں سنی اور شیعہ مسالک کے ماننے والوں کے درمیان جمعہ کو شروع ہونے والی لڑائی تیسرے روز بھی بدستور جاری ہے اور فوج کے ترجمان کے مطابق لڑائی کے دوران مرنے والوں کی تعداد اسّی ہو گئی ہے۔

ہلاک شدگان میں سکیورٹی فورسز کے گیارہ اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل مقامی لوگوں نے بتایا تھا لڑائی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کر چکی ہے۔
ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے بتایا کہ تین روز میں زخمی ہونے والوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے جس میں بتیس سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
کرم ایجنسی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق صدر مقام پاڑہ چنار میں گزشتہ تین روز سے بغیر کسی وقفے سے جاری لڑائی سنیچر کی رات کو لوئر کرم ایجنسی کے علاقے سدہ تک پھیل گئی ہے جہاں پر فریقین نے رات بھر ایک دوسرے پر شدید گولہ باری کی ہے۔سدہ کے ایک رہائشی حاجی سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی صبح پاڑہ چنار کی طرف جانے والے ایک فوجی قافلے پر ملیش خیل کے مقام پر حملہ ہوا ہے جس میں دو فوجی ہلاک جبکہ تیرہ زخمی ہوگئے ہیں تاہم سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

پاڑہ چنار میں لڑائی کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص حسین نے ٹیلی فون پر بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کو بھی فریقین نے ایک دوسرے پر مارٹر گولوں اور راکٹ لانچروں سے حملے جاری رکھے ہیں۔ان کے بقول وہ اپنے گھر پر مارٹر کا گولہ لگنے کے نتیجے میں زخمی ہوگئے ہیں جبکہ ان کے پڑوس میں واقع ایک گھر بھی مارٹر کے گولے کا نشانہ بنا ہے جس میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
زخمی شخص نے کہا کہ لوگوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ ختم ہورہا ہے جبکہ بجلی نہ ہونے کے سبب پانی دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ لڑائی رکوانے میں سنجیدہ نہیں۔
کرم ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ فخر عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑائی رکوانے کے لیے اورکزئی ایجنسی اور ہنگو کے عمائدین پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ روز اہل تشیع کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے تین تحصیلداروں کو بھی بازیاب کرا لیا گیا ہے۔حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے جمعہ کوکرفیو کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو شہر میں داخل ہونے کے لیے روانہ کردیا تھا مگر لڑائی کی شدت کی وجہ سے فوجی جوان تین دن گزرنے کے باوجود بھی شہر میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔دوسری طرف پاڑہ چنار کو جانے والے تمام راستوں کی بندش کے سبب مقامی لوگوں کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ سکول بند ہیں اور بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ان کے پاس سہولیات ناکافی ہیں اور ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اس وقت بارہ آسامیوں کے خالی ہونے کی وجہ سےصرف ایک سرجن ہی فرائض انجام دے رہا ہے۔واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد پاڑہ چنار بازار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے بعد فرقہ ورانہ لڑائی شروع ہوگئی تھی۔مقامی لوگوں کے مطابق جمعرات کو نامعلوم افراد نے مسجد سے نکلنے والے دو افراد کو گولی مار کر زخمی کردیا تھا جس کے بعد فریقین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

چھ اپریل کو کرم ایجنسی میں مذہبی جلوس کے مسئلے پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پھوٹ پڑے تھے جس میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 84 ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ آزاد اور مقامی ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بتائی تھی۔ان فسادات کے نتیجے میں کرم ایجنسی میں کئی ہفتوں تک کرفیو نافذ رہا جو فریقین کے درمیان ہونے والے ایک امن معاہدے کے بعد اٹھا لیا گیا تھا
قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں سنی اور شیعہ مسالک کے ماننے والوں کے درمیان سات ماہ کی جنگ بندی کے بعد جمعہ کو شروع ہونے والی لڑائی بدستور جاری ہے اور مقامی انتظامیہ کے مطابق لڑائی کے دوران 48 افراد ہلاک جبکہ 100سے زائد زخمی ہوگئے ہیں ۔ پارا چنار کو فوج نے اپنے کنٹرول میں لیا ہے اور گن شپ ہیلی کا پٹر و ں سے مشتبہ ٹھکانوں پر شدید شیلنگ کی جا رہی ہے ۔ کرم ایجنسی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعہ کی نماز کے بعد صدر مقام پا را چنار اور آس پاس کے علاقوں میں شروع ہونے والی لڑائی کے دوران فریقین ایک دوسرے کے خلاف ما ر ٹر گولوں اور راکٹ لانچر و ں کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں ایف سی کے کم سے کم پانچ اہلکار ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہفتہ کی شب 12 افراد کو ذبح کر کے لاشیں لو ئر کرم ایجنسی کے ڑ ا ولی کے علاقہ میں پھینک دی گئیں جن کو ناک، کان اور سر تن سے جدا کر کے ہلاک کیا گیا ۔ سدہ کے قریب نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کي10 افراد کو ہلاک کر دیا ۔ سدہ بازار میں دو گاڑیوں کو مسلح افراد نے پٹرول ڈال کر جلا دیا۔ ایک اطلاع کے مطابق کرم ایجنسی کے مختلف حصوں میں 10 گاڑ یا ں مسا فر و ں سمیت ا غو ا ء ہوئیں ۔ پولیٹیکل ذرائع کے مطابق جمعہ کو 14 افراد ہلاک ہو ئے جن میں دو میجر و ں سمیت6 فوجی بھی شامل ہیں۔ پارا چنار کے مکینو ں نے بتایا کہ شہر کے اکبر خان سرائے اور کچھر ی کے علاقوں میں بیسیوں گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا ، کروڑوں کا سامان جل کر خاک بن گیا ۔ شہر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ ایجنسی کے تمام راستے بند اور ایک دوسرے سے مواصلاتی رابطے منقطع ہو چکے ہیں۔ سکو لز و کالج بند پڑے ہیں بالخصوص پارا چنار کے مکین بالکل محصور ہو چکے ہیں۔ صد ہ، بالش خیل اور بو شہرہ، مالی خیل، منڈا اور انجیر ی کے علاقوں میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں مزید ہلاکتوں اور زخمیوں کو قوی اندیشہ ہے۔ ایجنسی کے بعض مقامات پر ہلاک شدگان کی نعشیں بے آسرا پڑی ہیں۔ پارا چنار کو فوج نے اپنے کنٹرول میں لیا ہے اور گن شپ ہیلی کا پٹر و ں سے مشتبہ ٹھکانوں پر شدید شیلنگ کی جا رہی ہے جس سے کسی حد تک لڑائی بند ہو گئی ہے۔ تاہم ایجنسی کے دیگر حصوں میں جھڑپیں جاری ہیں اور بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال جاری ہے۔ ایجنسی میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے کرم ایجنسی سے ملحقہ پاک افغان سرحد کو سیل کیا گیا اور آمدورفت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کرم ایجنسی کے پو لیٹیکل ایجنٹ ڈاکٹر فخر العا لم نے بی بی سی کو بتایا کہ گن شپ ہیلی کاپٹر جنگ زدہ علاقوں کے اوپر پر و ازیں کر رہے ہیں ۔ کرم ایجنسی میں ما ر ٹر گولہ گرنے سے مقامی صحافی محمد شفیق کے وا لد ا و ر چچا جاں بحق ہوگئے۔ داد ا ا و ر دوسرے رشتہ دار شد ید زخمی ہوئے۔

Saturday, November 17, 2007

a column from saleem safi the great وہ وقت دور نہیں جب ہر پاکستانی قاضی حسین احمد بن جائے گ


وہ اب ہمہ وقت احتجاج میں مگن اور جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ احتجاج اب ان کی زندگی کا دوسرا نام قرار پایا ہے ۔ "مشرف ہٹاؤ ۔ ملک بچاؤ " کا نعرہ اب ان کا محبوب نعرہ ہے ۔ اس لئے ہم دوستوں نے اپنے اس عزیز اور پیارے دوست کا نام "یورپ کا قاضی حسین احمد" رکھ دیا ہے ۔
"یورپ کے قاضی حسین احمد" میرے قریب ترین دوستوں میں سے ایک ہیں ۔ ان کے ساتھ یہ دوستی دورطالب علمی سے استوار ہے لیکن قریبی دوست ہونے کے باوجود عموماً سیاست سے متعلق ہماری رائے اور اپروچ ایک دوسرے سے مختلف رہی ۔ میرا تعلق ایک دیہاتی اور کاشتکار خاندان سے تھا ، جب کہ وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے ۔ میں سکول کے دنوں سے طلبہ سیاست میں متحرک ہوگیا تھا ، لیکن وہ یونیورسٹی کے دور میں بھی طلبہ سیاست کے قریب نہیں آئے ۔ وہ انتہائی نیک ، دیندار اور محب وطن تھے ۔ پانچ وقتہ نماز پڑھتے تھے ۔ دین کے مطالعے اور اس پر غور و فکر کے لئے بھی وقت نکالتے تھے لیکن دین کے نام پر لڑنے جھگڑنے یا پھر تعلیم چھوڑ کر سیاست میں ملوث ہونے کے وہ قائل نہ تھے ۔ باادب ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کے بھی شوقین تھے ۔ انگریزی اور اردو ادب کی طرف ان کی رغبت بھی ہم سب پر عیاں تھی لیکن والد کی خواہش کے احترام میں وہ انجینئرنگ کی طرف چلے گئے ۔ نمایاں پوزیشن کے ساتھ سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی لیکن قبل اس کے وہ سول انجینئر کی حیثیت سے میدان عمل میں کودتے، ایک بار پھر والدین کی خواہش آڑے آگئی ۔ اب والدین کی خواہش یہ بن گئی تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ سرکاری افسر بن جائے ۔ چنانچہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ گئے اور چونکہ بلاکے ذہین اور پڑھائی کے شوقین تھے ، اسی لئے پہلی فرصت میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس ہو گئے ۔ چند سال سرکاری ملازمت کی لیکن یہاں کا کرپٹ کلچر انہیں پسند نہ آیا۔ لوگ ان کو سمجھاتے رہے کہ وہ آرام سے بیٹھ کر سرکار کی افسری انجوائے کرتے رہیں لیکن ان کی بے چین روح نے ان کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیا ۔ ایک طرف وہ سرکار کی نوکری سے تنگ تھے تو دوسری طرف قلم و کتاب انہیں اپنی طرف کھینچتا رہا چنانچہ اپنی اس بے چینی کو دور کرنے کی خاطر وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ چلے گئے ۔ یورپ جانے کے بعد قلم و کتاب کے ساتھ ان کا رشتہ اور مستحکم ہوگیا اور پڑھائی کے شوق کی تسکین کے لئے انہیں زیادہ سازگار ماحول میسر آیا۔
جذباتی ضرور ہیں اور کبھی کبھار چھوٹی موٹی باتوں پر بھی روٹھ جاتے ہیں لیکن ان کا خلوص شک وشبے سے بالاتر ہے ، چنانچہ یورپ جاکر بھی وہ ہم جیسے ان پڑھ قسم کے دوستوں کو نہیں بھولے ۔ ہر دوسرے تیسرے دن ان کا فون آجاتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یورپ جانے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست سے ان کی دلچسپی بڑھتی رہی اور پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد تو ان کی حالت غیر ہوگئی ۔ اب جب بھی ان کا فون آتا ہے ، تووہ گھر کاذکر کرنا گوارا کرتے ہیں ، نہ دیگر دوستوں کا ، بس ان کی گفتگو کا محور پاکستانی سیاست ہوا کرتا ہے ۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میرے یہ دوست جذباتی ضرور ہیں لیکن شاید زبانی حد تک ملکی سیاست میں ملوث ہورہے ہیں تاہم میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ گذشتہ روز انہوں نے اپنے ساتھ مقیم پاکستانیوں کو جمع کرکے پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ایک بھرپور احتجاجی جلوس نکالا۔ وہ تسلسل کے ساتھ لوگوں کو ایس ایم ایس اور ای میل بھیج رہے ہیں اور ہر ایک سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ جمہوریت کی بحالی کے لئے میدان میں نکل آئیں ۔ دو روز قبل ان سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ وہ سفر میں ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے میں شرکت کے لئے جرمنی کے شہر برلن جارہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ برلن کے بعد وہ دیگر یورپی شہروں میں بھی مظاہروں کا پروگرام بنارہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی اگر کہیں وکلاء یا کسی سیاسی جماعت کے مظاہرے کا پروگرام ہو، تو ہم سے پہلے ان کو اس کی خبر ہوجاتی ہے اور وہ اس میں شرکت کی تلقین کرنے کے لئے یہاں کے دوستوں کو ایس ایم ایس بھجواتے رہتے ہیں ۔ ہمارے یہ دوست جو ہمہ وقت کتاب پڑھتے رہتے تھے ، اب کتاب کو ایک طرف رکھ کر ہمہ وقت احتجاج میں مگن رہتے ہیں ۔ انہیں سیاست سے کوئی خاص سروکار نہ تھا ،لیکن اب وہ سراپا سیاست بن گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے دوستوں کے حلقے میں اب وہ "یورپ کے قاضی حسین احمد" کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے اس پیارے دوست کو کتاب سے لاتعلق بنا کر کس نے قاضی حسین احمد بننے پر مجبور کیا ؟۔ جواب صاف ظاہر ہے صدر محترم جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں اور اقدامات نے ۔لیکن یہ صرف ہمارے اس دوست کا معاملہ نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں مقیم پاکستانی ہمارے مقابلے میں کئی گنا زیادہ پریشان ہیں ۔ ہم نجی ٹی وی چینل نہیں دیکھ رہے ہیں ، اس لئے ہم زیادہ تشویش میں مبتلا نہیں لیکن باہر مقیم پاکستانی مختلف ذرائع سے باخبر بن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں جمہوری اور انسانی آزادیوں کا گلہ گھونٹا جارہا ہے ۔ ہم تو یہاں ایک دوسرے سے مل کر فریاد کرلیتے ہیں لیکن باہر کی دنیا میں مقیم پاکستانیوں کو دیگر ممالک کے لوگ طعنے دے رہے ہیں ۔باہر کی دنیا میں پاکستان کا امیج پہلے سے خراب تھا لیکن اب تو پاکستانیوں کو عجیب و غریب خفت کا سامنا کرنا پڑر ہاہے ۔ گذشتہ روز ایک یورپی ملک میں تعینات پاکستانی سفیر سے بات ہورہی تھی ۔ وہ بتارہے تھے کہ جس ملک میں وہ تعینات ہیں ، اس ملک کے حکام جب ان سے ملتے ہیں تو پاکستان کے حالات پر تعزیت کرنے لگ جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے باہر مقیم ہر پاکستانی، قاضی حسین احمد بن گیا ہے ۔طالب علم ہے تو پڑھ نہیں سکتا ، استاد ہے تو پڑھا نہیں سکتا ، تاجر ہے تو کمائی نہیں کرسکتا اور مزدور ہے تو مزدوری نہیں کرسکتا ۔ ہر ایک کو اپنے ملک کی فکر لاحق ہے ۔ ہر ایک دوسرے ملکوں سے اپنے ملک کی حالات کا موازنہ کرکے احساس کمتری کا شکار اور ذہنی مریض بن رہا ہے ۔ یقینا ابھی پاکستان کے اندر ایسی غیرمعمولی فضا نہیں بنی ہے اور حقیقی قاضی حسین احمد بھی اپنے گھر میں نظر بند ہیں لیکن اگر ہمارے حکمران اپنی ضد پر اڑے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہر پاکستانی قاضی حسین احمد بن جائے گا۔

ONCE AGAIN KURRAM VELLY UNDER FURIOUS WAR AND MUSHARAF BAN GEO


The beautiful Kurram velly once again under furious war,people freely use Rocket launcher and Marter shells i hair the news about 9 pm on nov 16 because the same day i talked to abu and family at 9 AM and then asleep,and after all day sleeping i awake 9 PM and switched on GEO watching the disturb view of Pakistan and suddenly i read the news of Kurram Ajency war in the strip bellow.I do not beleaf i said to the friends and i call home and confirm the war.So further more breaking news appear on GEO and Sania Mirza could'nt cast the news and they ask Shahid Masood to announce the news and we seriously mention that something happen very bad and sad and we aspect that Gen Musharraf has shot died and his military secretory shot him out or his wife open fire open him but Shahid Masood began that Musharaf has baned the GEO all over the world using his anonymous power.SOOOOOOOOOOOO it was the very sad news and Geo was my life and i was listening the Geo about 24 hours a day while i was in home or office.Since i could'nt eat and i came to office and hear news on net i began to eat and some pleased and i suggest to the Geo team to go to the UK and launch your channel from London and we request you the Geo and ARY both.now news from The News
Fierce sectarian clashes erupted in Parachinar, the headquarters of Kurram Agency, on Saturday killing at least 20 people including two doctors and injuring over 50, hospital sources told The News.Sources at the agency headquarters hospital confirmed that 34 injured had been brought there, where emergency had been declared.
Shia and Sunni groups started trading heavy gunfire late Thursday night, which continued unabated till our going to the press. The political administration has clamped curfew, an exercise in futility.
APP adds: Political Agent Kurram Agency Fakhre Alam Muhammadzai told APP on Friday that fighting erupted between Mengal and Turi tribe after two tribesmen of the former tribe were shot dead Thursday night by unknown killers at Parachinar city. The killing of Mengal tribesmen sparked the clashes Friday morning.
The firing started after Juma congregation when the rival tribes entrenched and pounded each other's positions with heavy weapons like rocket launchers and mortar shells.





Thursday, November 15, 2007

THE CARETAKER PM OF PAKISTAN


The pakistani Presedent Gen Parviz Musharaf has named the Mohmd Mian Somroo the caretaker Prime Minister of Pakistan.He is the current chairman of the upper house Senate.He will take oath of office of the PM tomorrow while the current assembly will be dissolved at midnight when its 5 years tenure come into an ends.

column from hamid mir posted by shafique bloggers taken from Jang Group Online

Jang Group Online
A very nice informative column from the columnist Hamid Mir the brilliant man.

Wednesday, November 14, 2007

shafiqueahmed110.com - Imran Khan arrested in Panjab University Campus


shafiqueahmed110.com - Imran Khan arrested in Panjab University Campus

I have just read the news that Imran Khan has been arrested in Panjab University Campus and the Isalami Jameat Talba have handed over the great Imran Khan to the Panjab Police.I realy feel very sadness on the news and the of Isalami Jameat tabla is very shameful and inhuman.Actually they are belonging into the Bloody Taliban and the are the Enemies of Pakistan the enemies of Democracy and enemies of humenbeings they slaughters the Hume's being with swords and doing jihad against Pak Army and most important thing is that they are the Suicide BOMBERS.Every can feel that imran looks like wounded Tiger , aggressively looking around.very good Isalami Jameat Talba may God send you all to the HILL.
JEO IMRAN HUM TUMHARE SATH HEN

a column from Naseem Zehra

خود مختار عدلیہ کے ذریعے قانون کی حکمرانی کا 9مارچ کو شروع ہونے والا سفر 3نومبر کے بحران سے ایک اہم موڑ پر آ گیا ہے ،مارشل لا ء ،ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت آئین اور عدلیہ کی بحالی کیلئے متحد ہو رہی ہے ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ بحران کے نازک دور میں قوم حقیقی خطرے کے خلاف متحد ہے ۔سیاسی وابستگی کے برعکس ملک کے ہر طبقہ فکر کا شہری جان چکا ہے کہ اصل مسئلہ ہمارے درمیان موجود ہے ،کسی قسم کا وعظ یا دلیل لوگوں کی توجہ ہٹانے میںمشکل ہی سے کامیاب ہو گی ۔
شاید عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہ آئے ہوں مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ مشرف کا 3نومبر کا فیصلہ درست تھا ۔وہ فریب نظر کا شکار ہیں ،ان کا اعتماد خود فریبی ہے ۔3نومبر کے فیصلے سے ہونے والا نقصان حقیقی ہے ۔ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے ۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری مشینری کا کام عوام کی خدمت ہے اور قانون اور آئین کی پاسداری ان کا فرض ہے مگر وہ صرف مشرف کی خوشنودی کیلئے سوسائٹی کو کرش کرنے میں لگے ہیں جو اس کی ایمر جنسی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔
ہزاروں وکلاء اور سماجی تنظیموں کے کارکن جیلوں میں بند ہیں ،تحریک زور پکڑ رہی ہے ،ایک ناراض سوسائٹی کے ساتھ حکومت کیلئے سوات اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کو ختم کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔سیاسی اتفاق رائے کے دہشت گردوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنا بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔جنرل مشرف کا یہ بیان کہ ایمر جنسی کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہے ،حقائق کے برعکس ہے ۔قلم کی جنبش سے عدلیہ کی بر طرفی جیسے وہ درست اقدام بھی برقرار دیتے ہیں ،ان کے دور حکومت کی سنگین ترین غلطی ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہر فورم پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔پاکستان کے کرتا دھرتاؤں نے پاکستان کے داخلی حالات پر دنیا بھر کی توجہ مرکوز کروا دی ہے ۔ملک کے عزت ووقا ر کو اس حد تک دھبہ لگ چکا ہے کہ بین الاقوامی براداری میں ہمارا شمار لا قانونیت کی شکار ریاستوں میں ہونا شروع ہو گیا ہے ۔یو این او ،ای یو ،کا من ویلتھ اور دنیاکے معزز عمائدین ،جن میں نیلسن منڈیلہ بھی شامل ہیں ،نے ایمر جنسی اور عدلیہ پر حملے کی سخت مذمت کی ہے ۔امریکی سینٹ ،بین الاقوامی وکلاء کنونشن ،صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کے خلاف قرار دادیں منظور کر رہی ہیں ۔جو چیز تشویش ناک ہے وہ یہ کہ پاکستان کے اٹیمی پروگرام کی مخالف لابی کیا کر رہی ہے۔
3نومبر کی نامناسب اور نارواء فیصلہ کا فائدہ اٹھاکر یہ لابی پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں اور دنیا کو قائل کرنے میں لگی ہیں کہ غیر مستحکم ملک میںجلد انتہا پسند ملک کے جوہری پروگرام پر قبضہ کر لیں گے ۔3نومبر کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے عدم استحکام نے انہیں موقع فراہم کر دیا ہے اور انہوں نے پروپیگنڈہ تیز تر کر دیا ہے ۔پاکستانی ملک میں عدلیہ کی بحالی اور آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں ،جب تک ریاستی مشینری کو آئین کی حدود میں نہیں لایا جاتا ،پاکستان کو بیرونی خطرات کا سامنا رہے گا ،سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو لا حق ہے جتنی جلدی ملک میں استحکام آئے گا ،پاکستان مخالف لابی کے پروپیگنڈے میں بھی کمی آ جائے گی ۔
جنرل مشرف کے اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم ہیں ۔پی پی پی کی طرف سے سیاسی تعاون کی توقعات دم توڑ چکی ہیں ،حالات سے بد دل ہو کرانہوں نے مشرف سے راہیں الگ کر لی ہیں ،جو ایجنڈا وہ امریکہ سے لے کر آئیں ۔یکے بعد دیگرے ہونے والے دو سانحے اس کی راہ میں حائل ہو ں گے ،پہلا سانحہ 18اکتوبر کو کراچی ہونے والا خود کش خملہ تھا ،جس کا ٹارگٹ بے نظیر تھیں ،دوسرا سانحہ 3نومبر کا مارشل لاء ہے ۔27جولائی کو ابو ظہبی میں مشرف کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے جاری رہنے کا امکان ختم ہو چکا ہے ۔مذاکرات کے ختم ہونے کا کوئی واضح اشارہ اگر ہے تو وہ چیف جسٹس کے گھر جا کر ان سے ملا قات کی بے نظیر کی کوشش کو قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ہر بحران کچھ نئے امکانات کو جنم دیتا ہے ،3نومبر کا بحران بھی مختلف نہیں ۔ساٹھ سالہ تاریخ میں پاکستان کو کئی غیر آئینی ،غیر منطقی اور غیر اخلاقی صدمات جھیلنے پڑے ،صرف حکمران کی وجہ سے ۔ان کے ارادے شاید نیک ہوں،وہ مخلص بھی ہوں ،مارشل لائی اور کرپٹ نا اہل سول حکمرانوں کے ساتھ بین الاقوامی جہاد کا کھیل بھی ہم نے کھیلا اور اسکی قیمت بھی ادا کی بلکہ کر رہے ہیں ۔80ء کی دہائی میں روس کے خلاف امریکہ کے مفادات کی جنگ لڑنے کی سب سے بھاری قیمت ہمیں ادا کرنا پڑی، ملک کے ادارے تباہ ہوئے، سیاسی فکر سے محروم ہوئے۔ جس کے ذمہ دارداخلی اور بیرونی عناصر دونوں تھے۔ مگر اب تلافی کا وقت آ گیا ہے۔ لوگ صرف ایک مطالبے پر متحد ہو چکے ہیں اور وہ آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کا مطالبہ ہے۔
عوام نے سفر کا آغاز کر دیا ہے ملٹری اور سول اداروں کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ وہ پر عزم اور پر اعتماد ہیں، ان کے سفر کی منزل قانون و آئین ہے۔ آئینی جمہوریت ان کا مطالبہ ہے۔ آغاز 9مارچ کو ہوا، محرک چیف جسٹس کی معطلی بنا۔ انہوں نے اس سفر میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں، یہ فرد یا ادارے کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی کسی فرد کے لئے تھا، بلکہ آزاد اور خود مختار عدلیہ کے لئے تھا، جس نے آئین کی پاسداری کے وعدہ کی لاج رکھی اور ریاستی اداروں سے جواب طلبی کی۔قوم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کی منزل کیا ہے اور کس خطرے سے وہ نبرد آزما ہیں۔ تشدد، لاقانونیت، دہشت گردی کوئی نئی چیز نہیں، اصل خطرہ کس سے ہے۔ دہشت گردی سے نبرد آزما ہونا مشکل نہیں، ایک متفقہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ قوم نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کو خطرہ صرف اور صرف آئین شکنوں سے ہے۔ آئین شکنی نے ہی مختلف مسائل اور بحرانوں کو جنم دیا، بلکہ عروج تک پہنچایا۔ کئی المیے بھی قانون شکنی نے ہی جنم دیئے۔ انفرادی فیصلے ہی ملک کو تباہی کی طرف لائے اور ملکی قوانین کی بے حرمتی کی۔ طویل المیعاد پالیسیوں میں رکاوٹ بنے رہے۔
ملک میں پرامن تحریک جاری ہے، جس کا مطالبہ اور منزل آئین کی بحالی اور حکمرانی ہے۔ خدشات کے برعکس ملک میں انارکی پھیلنے کا امکان نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ وہ بیرونی ایجنڈے پر عمل نہیں کررہے بلکہ ایجنڈا مقامی ہے۔ ہر پاکستانی اس ایجنڈے کا مصنف ہے۔ اس کو واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ آئین کی بالادستی سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں۔ صوبہ سرحد سے پیدا شدہ خانہ جنگی کے حالات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لئے ملک میں آئین کی بالادستی، آزاد عدلیہ کا قیام اور مؤثر جواب دیہی کا نظام ضروری ہے۔
3نومبر کے بحران کے بعد عالمی برادری مجبور ہے کہ پاکستان کیلئے ایسا پروگرام تشکیل دے، جس میں قانون اور آئین کو اولیت حاصل ہو۔ دہشت گردی کا خاتمہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔ ریاست کے بہترین مفاد کا فیصلہ اس کے عوام نے کرنا ہے۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں، یا کچھ اور۔ دنیا کے بحرانوں سے ہمارا تعلق نہیں۔عوام ہی اہم ہیںاور ان کا عزم ہی بہتر فیصلہ کرے گا۔
پاکستان کو لاحق چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مارشل لائی ایمرجنسی کا فی الفور خاتمہ ہو۔ اس کا آغاز آئین اور معزول ججوں کی بحالی سے ہو۔ یہ بحران سے نکلنے کا راستہ ہے، دوسرا کوئی حل تجویز کرنا بے سود ہو گا۔ تمام سیاسی قائدین کو بھی متحد ہو کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کرنا ہو گی۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی اس کے ساتھ ہی معاشرے سے دم توڑنا شروع کر دے گی۔

column from Dr sherin Mazari

عجب تماشے پاکستان کا ہی نصیب کیوں ؟ملک کے جمہوریت پسند ، اعتدال پسند ، سول سوسائٹی کے ارکان ، وکلاء کے ساتھ مل کر آئین کی بحالی ،خود مختار عدلیہ اور بنیادی حقوق کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں ۔پولیس بدترین تشدد اور گالی گلوچ کے ساتھ انہیں تھانوں اور جیلوں میں بند کر رہی ہے ۔ طلبا ء میں بھی سیاسی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے ۔سول سوسائٹی کے اعتماد میں اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے ۔اپوزیشن رہنما اپنے اختلافات کے باعث منظر عام سے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں ،اپنی موجودگی کا احساس کروانے میں ناکام ہیں ۔سوات اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندبغیر مزاحمت کے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں مگر حکومت کی تمام تر توجہ صرف اور صرف سول سوسائٹی کے اعتدال پسند مظاہرین کو دبانے پر مرکوز ہے ۔
پولیس گردی کی انتہا اسلام آباد پولیس کی طرف سے اس وقت دیکھنے کو ملی جب اسلام آباد کے سکولوں کے طلبہ ایمرجنسی کے خلاف پرامن مظاہرہ کر رہے تھے ۔پولیس کی درخواست پر منتشر ہونے جا رہے تھے کہ پولیس کے جیالوں نے ان کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور گرفتار کیا ،اپنی نسلوں کو ہم کیا سبق دے رہے ہیں ؟ ۔شاید ہم انہیں سکھانا چاہ رہے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام کرنا سیکھیں ۔
سکیورٹی ادارے جو عجب کھیل تماشے جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے فرائض اور کچھ فطرت کا بھی حصہ ہیں لیکن تماشہ ہماری محترمہ نے لگا رکھا ہے ،وہ نہ صرف عجب بلکہ ناقابل فہم حد تک واہیات ہے ۔ مغرب کی اس منظور نظر کو پہلے تو اسلام آباد میں نظر بند کیا گیا (ان کی اپنی درخواست پر ) اس کے بعد نورا کشتی شروع ہوئی ،انہیں صحافیوں کے احتجاجی کیمپ تک جانے کی اجازت دی گئی ، چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے جسٹس کالونی کی طرف جانے کی بھی اجازت دی گئی۔سرکاری میڈیا پر ان کی سرگرمیاں نشر کی گئیں ۔شام کو سینٹ کی عمارت میں سفارت کاروں کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے کی بھی اجازت دی گئی ۔سرکاری منظوری اور تائيد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ پی پی پی کی ترجمان جو بھی اس کی وضاحت پیش کریں سرکاری منظوری کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ۔
یقینا ًمحترمہ کا ڈرامہ ملک میں جاری سیاسی تماشے میں نئے اور عجیب کھیل کا آغاز ہے ۔ پارٹی کی تمام اعلیٰ قیادت آزاد ہے ان پر کوئی بندش نہیں صرف اعتزاز احسن سرکاری مہمان ہیں ۔پی پی پی کے بجائے وکلاء تحریک کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی محدود طاقت اور معمولی تعداد میں پی پی پی کے ورکروں کی حمایت کے ساتھ حکومت کے خلاف متحرک ہیں اور ریاستی نشانے پر ہیں ۔
محترم شفقت محمود نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ اگر بی بی کے لانگ مارچ کو روکا گیا تو پھر اُن کی سیاسی ساکھ بحال ہو جائے گی۔یہ ثبوت ہو گاکہ ڈیل اہمیت کھو چکی ہے ۔میرا خیال اس کے برعکس ہے،لانگ مارچ کو روکا جانا بھی ڈرامہ ہے ۔اصل ساکھ اُس وقت بحال ہو گی جب مفاہمتی آرڈیننس منسوخ ہوگا۔کرپشن کے کیس بحال کر دیئے جائیں گے اور عدالتیں اُن کے مقدر کا فیصلہ کریں گی۔
عجب سیاسی کھیل تماشے ہر سطح پر چلتے رہیں گے۔امریکہ کا استعماری کردار کئی قسم کے سوالات کو جنم دے رہا ہے،سابق استعماری قوت برطانیہ ہمارے لئے اس قدر اہم نہیں کہ ہم اُس کے دباؤ میں آجائیں مگر امریکہ کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں جو ہماری سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں ۔"واشنگٹن پوسٹ "میں چھپنے والی کہانی کے مطابق "اگر امریکہ کو محسوس ہوا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے "غلط ہاتھوں "میں جا سکتے ہیں تو وہ ان اثاثوں پر قبضہ کر لے گا"۔امریکہ کے جوہری اثاثے بنیاد پرست عیسائی قوتوں کے ہاتھ لگ جائیں ،جو یقیناًبش کی صدارت میں جا چکے ہیں ،اسرائیل کے جوہری اثاثے پہلے ہی بنیاد پرست یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں ،انڈیا کے جوہری اثاثے ہندو قوم پرست بی جے پی کے ہاتھ رہ چکے ہیں ،پاکستان کے جوہری اثاثے کس کے ہاتھ میں ہونے چاہیں بیان دینے کی ضرورت امریکہ کو کیوں پیش آئی؟اُسے پاکستان کے جوہری اثاثے غلط ہاتھوں میں جانے کی کیوں فکر ستا رہی ہے؟تجزیہ نگاروں کی رائے میں کافی وزن ہے کہ امریکہ کو یہ فکر اس لئے ستاتی ہے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے۔
پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کا نقاب امریکہ نے اتار دیا ہے۔لاہور میں امریکی قونصل جنرل مقامی اشرافیہ کو کہتے سنے گئے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کا ہٹایا جانا ضروری تھا۔اُ س کے اکثر فیصلے غلط تھے،داخلی معاملات میں اس قدر مداخلت کبھی نہیں کی گئی۔اُسے عاصمہ جہانگیر سے ملنے کی اجازت کس نے دی؟پھر اُن کا الیکشن کمیشن کے دفتر کا دورہ ،پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُس کا سفیر امریکی الیکشن کمیشن کے دفتر کا دورہ کرے۔
سب سے بڑا تماشا امریکہ کی طرف سے انتخابی نتائج کے آنے سے پہلے بے نظیر مشرف کے درمیان اشتراک اقتدار کا فارمولہ طے کرنے کا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں شفاف انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں ،حماس کی کامیابی کا صدمہ ابھی تازہ ہے،وہ کسی نہ کسی طرح بے نظیر کی سربراہی میں قومی حکومت کی تشکیل چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی جبری جلاوطنی پر امریکہ کی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا۔
آخری مگر بڑا تماشا نگران حکومت کے قیام کے موقع پر دیکھنے کو ملے گا۔کئی ریٹائرڈ ملٹری اور سول بیوروکریٹ ایک نئی سیاسی زندگی پائیں گے اور ٹی وی پر اپنی فصاحت اور بلاغت سے ناظرین کو یرغمال بنائے رکھیں گے۔ملک میں ویسے بھی نگران حکمرانوں کا کلب وجود میں آ چکا ہے اور وہی چہرے ہر نگران سیٹ اپ میں دکھائی دیتے ہیں ۔بار بار وہی بیمار روحیں ہمارے سر پرلا کر بٹھا دی جاتی ہیں ۔
دنیا بھر کا میڈیا اور حکومتیں پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہیں دوسرے ممالک کے برعکس جہاں صرف مخصوص نا پسندیدہ رہنماؤں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وینز ویلا کے صدر شاویز،ایران کے احمدی نثرادوغیرہ کے ملک کو مجموعی طور پر تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر پاکستان کامعاملہ برعکس ہے ۔وہ صرف پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادی ۔رہنماؤں کی وجہ سے ملک کا امیج ضرور خراب ہوتا ہے مگر ملک کی اشرافیہ کی غلطیوں کا مورد الزام ملک کو ٹھہرایا جائے ،یہ کچھ نا قابل فہم ہے ۔ریاستوں کا انحصار ایک شخص پر کبھی بھی نہیں ہوا ،کوئی بھی اس کیلئے نا گزیر نہیں ،فیصلہ پاکستانیوں نے کرنا ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے ۔ہم میں کسی کے بھی دبئی یورپ یا امریکہ میں گھر نہیں ،اپنے ملک کا دفاع ہم نے مل کر کرنا ہے ۔افراد کی بجائے ہم نے مل کر اداروں اور نظام کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ جو نیو کلئیر پاکستان کے ختم ہونے کے انتظار میں ہیں ،وہ طویل انتظار کریں ۔

you are welcome to visit my site and have a lot of information and fun is there by shafique ahmed

you are welcome to visit my site and have a lot of information and fun is there

Tuesday, November 13, 2007

BBCUrdu.com وسعت اللہ خان posted by shafique ahmed

BBCUrdu.com


چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے تین نومبر کی شام آئینِ پاکستان معطل کرنے کے بعد اپنی تقریر میں یہ وضاحت کر کے بہت اچھا کیا کہ پاکستان ابھی اس مرحلے تک نہیں پہنچا کہ یہاں کے لوگ مغربی انداز کی سیاسی و جمہوری آزادی یا بنیادی حقوق کے متحمل ہوسکیں۔ جس منزل تک پہنچنے میں مغرب کو صدیاں لگ گئیں وہاں پاکستان ساٹھ برس کی مختصر مدت میں کیسے پہنچ سکتا ہے۔

اس جرنیلی وضاحت کے بعد اب پاکستان اپنا جمہوری سفر باآسانی حمورابی، ، رعمیسس، اشوک، خسرو پرویزو اور جولیس سیزر کے دور سے شروع کر سکتا ہے۔ جب بادشاہ کی مخالفت کرنے والے کو مملکت کا غدار سمجھ کر ہاتھی کے پاؤں تلے دے دیا جاتا تھا۔ قلعے کی فصیل سے پھنکوا دیا جاتا تھا۔ کڑھاؤ میں تلوا دیا جاتا تھا، شہر پناہ کے دروازے سے لٹکوا دیا جاتا تھا۔ کھال میں بھوسہ بھروا دیا جاتا تھا یا آنکھوں میں گرم سلائی پھروا دی جاتی تھی۔

جب تک پاکستانی قوم ان تجربات کی بھٹی سے نہیں گذرے گی وہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی قدر کیسے پہچانے گی۔ جنرل پرویز مشرف کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ جمہوریت کے گرم گرم حلوے سے منہ جلانے کے بجائے پاکستانی قوم کو برداشت کی سان پر تیز کیا جائے۔

جس طرح جمہوریت کی جانب کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں جاتا اور اس کے لئے وقت اور تجربے کے پل صراط سے گذرنا پڑتا ہے۔ جنرل مشرف کو یہی فلسفہ معیشت پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔ ترقی کی قدر اسی وقت ہوگی جب جنرل مشرف کرنسی کے لین دین کی جگہ جنس کے بدلے جنس یعنی بارٹر سسٹم سے اس قوم کو گذاریں۔ کاروں اور بسوں کی جگہ اونٹ اور گھوڑے کی سواری سے ترقی


کا سفر شروع کروائیں۔اپنا پہیہ خود ایجاد کریں۔ ماچس پر پابندی لگوا کر چقماق سے چولہا جلانے کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں۔اس مشق کے بعد جب پاکستانی قوم جدیدیت کے دور میں داخل ہوگی تو پھر اس کی ترقی کبھی پٹڑی سے نہیں اترے گی۔

لیکن یہ سب کروانے کے لئے ایک ایسے جری حکمران کی ضرورت ہے جو ہرطرح کی مصلحت بالائے طاق رکھ کر قوم کے سرکش گھوڑے پر سواری کرسکے۔ مارشل لا، ایمرجنسی، عبوری آئین یا مرحلہ وار جمہوریت جیسی کنفیوژن بڑھانے والی اصطلاحات سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑوالے اور کب وردی پہنوں کب شیروانی اتاروں کے مخمصے سے آزاد ہو کر نظریہ ضرورت کو پاکستان کی بنیادی آئینی دستاویز قرار دے دے۔

اس تناضر میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف ہی اس قوم کی واحد امید اور سہارا نظر آتے ہیں۔ جن کا ہمیشہ سے نعرہ ہے سب سے پہلے پاکستان۔
جنرل مشرف کا پاکستان۔


Monday, November 12, 2007

BBCUrdu.com راجہ ذوالفقار علیKA COLUMN

BBCUrdu.com: "

Monday, 12 November, 2007, 18:10 GMT 23:10 PST

راجہ ذوالفقار علی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

سیّد بادشاہ کا کارڈ

اپنے پاکستانیوں کے سیّد پرویز مشرف نے دستور سے ہٹ کر اتوار چھٹی کے دن ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کیا جس کے بعد سیکریٹری انفارمیشن سیّد انور محمود نے بڑے سیّد کی خواہش کے عین مطابق سوال پوچھنے کا حق پہلے غیر پاکستانی صحافیوں کو دیا۔

جنرل صاحب نے اس پریس کانفرنس کے دوران بظاہر مغربی سماعتوں کی راحت کے لیے انتخابات فروری کی بجائے نو جنوری سے قبل کرانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے نسیان کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو یاد دلایا کہ وہ وعدہ کہ ’اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی‘ پورا کردیاگیا ہے ۔

لیکن کس کی مجال ہے جو سید صاحب کو یاد دلائے کہ جناب سنہ دو ہزار چار میں آپ کا وعدہ یہ تھا کہ آپ وردی اتار دیں گے لیکن ’قوم کے وسیع تر مفاد‘ میں آپ نے اسے پورا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

بظاہر جنرل پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں اپنے مغربی سامعین کو انتخابات کا مژدہ سنا کر خوش کر دیا لیکن فوجی دانش کے غلاف میں لپٹے ہوئے اس اعلان سے خود پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے۔

اپوزیشن پہلے ہی بٹی ہوئی تھی، رہی سہی کسر جنرل صاحب نے نکال کر رکھ دی ہے۔ اور اب عالم یہ ہے کہ اسے اپنا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔

اپوزیشن کے پاس اس وقت بظاہر تین راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دے اور اِس مطالبے پر ڈٹ جائے کہ تین نومبر سے پہلے والی عدالت بحال کی جائے۔

دوسرا یہ کہ ایمرجنسی کے نفاذ اور جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی والی عدلیہ کو بھول کر بھر پور انداز میں الیکشن کی تیاری کی جائے۔

اپوزیشن کے پاس تیسرا راستہ یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے ایسے کہ مستقبل کی پارلیمان کی طرف جانے والی راہیں بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہوں اور ہنگامی حالت کے خاتمے اور عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ بھی ہوتا رہے۔

ماضی میں اپوزیشن نےانتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے افسوس کی بازگشت مختلف سیاستدانوں کے بیانات میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔یوں بھی مستقبل میں سیاست کا جو بازار لگے گا اس میں لین دین کا حق صرف انہیں مل سکے گا جو اس کاروبار کا حصہ ہوں گے۔ وہ جو باہر بیٹھے ہوں گے ان کی صدائیں اس بازار کے شور میں کسی کو کم ہی سنائی دیں گی۔

اگر اپوزیشن یہ طے کر لے کہ اسے الیکشن لڑنا ہے تو پہلے تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کرنا ہوگا کہ عدلیہ بحال ہو یا نہ ہو، ایمرجنسی ہٹے، نہ ہٹے، وہ سیّد مشرف کی تازہ بچھائی گئی سیاسی بساط پر کھیلے گی۔ اس صورت کو اختیار کرنے پر اسے زیادہ سے زیادہ نشستیں لینے کے لیے کم سے کم وقت میں بھرپور زور لگانا پڑے گا۔

لیکن اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کی چند ہم خیال جماعتیں جن میں قوم پرست بھی شامل ہیں کہہ رہی ہیں کہ ایمرجنسی کا خاتمہ اور عدلیہ کی بحالی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ایمرجنسی میں انتخابات بے معنی ہیں اور ان میں دھاندلی کی جائے گی۔ یہ باتیں وہ بیانات کے ذریعے کہہ رہے ہیں چہ جائیکہ ان کے وفادار سڑکوں پر اس مسئلے پر آواز اٹھاتے۔

مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلسِ عمل اپنی شکست و ریخت کو بچانے میں ناکام رہا ہے۔ اس اتحاد کے ایک اہم رہنما مولانا فضل الرحمان کا طرزِ عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کیونکہ

جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

اے آر ڈی بکھری پڑی ہے اور اس کی سب سے اہم جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن نے بے نظیر سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل مشرف سے مراعات کی یقین دہانی بھی کرا لی ہے، کچھ مراعات حاصل بھی کر لی ہیں اور قوم کو دکھانے کے لیے وقتاً فوقتاً جنرل مشرف کو آنکھیں بھی دکھاتی رہتی ہیں۔

اتفاق کہیئے کہ مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو ہی دو ایسے رہنما ہیں جنہوں نے لانگ مارچ کی کال دی ہے۔ بے نظیر کا لانگ مارچ تیرہ نومبر کو ہونا ہے جبکہ فضل الرحمان کے لانگ مارچ کی کال سولہ نومبر کی ہے۔ جماعتِ اسلامی جس بے چاری پر مارشل لاء کے دوران آمریت کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، لانگ مارچ کا کال دینے کی بہت شوقین ہے، مگر تا حال خاموش ہے۔

وہ جنہوں نے جنرل آصف نواز کے دور میں ہونے والا بے نظیر لانگ مارچ دیکھا ہے، گواہ ہیں کہ نواز شریف حکومت نے اس احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے پورے ملک کی انتظامی مشینری متحرک کر دی تھی لیکن بے نظیر اپنے جیالوں کے جلو میں اشک آور گیس کے بادلوں، پولیس کی لاٹھیوں اور انتظامی رکاوٹوں کو پیروں تلے روندھتے ہوئے راولپنڈی کے لیاقت باغ تک پہنچ ہی گئی تھیں۔

کیا بینظیر کا لانگ مارچ ایسا ہی ہوگا۔ بظاہر نہیں۔ لاہور کے چودھری اسے روک لیں گے اور بے نظیر بھٹو شاید حفاظتی حصار میں گھر واپس چلی جائیں اگرچہ پنجاب کے گلی محلوں میں جیالے پولیس کے ساتھ وہ آنکھ مچولی کھیلتے رہیں گے جس کا شوق انہیں اکثر ستاتا رہتا ہے۔

یہ ہے وہ اپوزیشن جس کے سامنے جنرل سیّد پرویز مشرف نے انتخابات کا پتّا پھینکا ہے۔

ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی سیّد پرویز مشرف کے پھینکے ہوئے اس کارڈ کو ضرور اٹھائیں گے کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں۔ اے پی ڈی ایم، خصوصاً نواز شریف کی جماعت کے لیے یہ کارڈ اٹھانا بہت وزنی ہوگا لیکن اسے اٹھائے بغیر ان کی پہلے سے بگڑی ہوئی بات مزید بگڑ جائے گی۔

لہذا آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتیں پھر فوجی دانش کا شکار بنتی نظر آ رہی ہیں۔ سیّد پرویز مشرف نے ایک بار پھر دوہری چال چلی ہے اور دوہری چالیں چلنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔وہ دوہرے معیار نہ رکھتے ہوں لیکن’ملکی مفاد‘ کے تحت ہر معیار کو دوہرا کرنا جانتے ہیں۔ وہ اصولوں پر تو سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن جب چاہیں ’ملکی مفاد‘ میں سمجھوتے کے لیے نئے اصول بنا لیتے ہیں۔


کاش اپوزیشن سمجھ سکتی کہ سیّد صاحب ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ اگر دربار لگائیں تو پرویز، ایوانِ صدارت سجائیں تو مشرف، مسلم لیگ قاف (کنگز پارٹی) بنائیں تو بادشاہ اور دوہرے عہدے کی طاقت سے آئین اور قانون کی بساط الٹ دیں تو شہنشاہ۔

اور شہنشاہ، شہنشاہ ہوتا ہے۔ اگر شہنشاہ کی گجرات کے چودھریوں سے بنتی ہے تو حیرت کیا، اگر وہ کوئٹہ کے چودھری کا افتخار توڑ ڈالے تو افسوس کیوں؟ اور اگر ملکی میڈیا کی زبان کاٹ دے تو شور کس لیے؟

شہنشاہ نے ہنگامی طور پر نیا فرمان جاری کیا ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ججوں کو بُھول جائیں تو سیاسی جماعتیں ججوں کو بُھول جائیں گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اگلے برس ایک معلق پارلیمان وجود میں آئے، تو ایسا ہی ہوگا۔ انہیں اگر اپنے کیے پہ نادم ہونے کی بجائے اپنے کیے کا آئینی جواز چاہیے ہوگا تو اگلی پارلیمان سے یہ بھی مل جائے گا۔ تو کیا اگر شہنشاہ کے پاس سپہ سالار کا عہدہ نہیں ہوگا۔اگر کوئی تبدیلی ہوگی تو سیّد مشرف اور اشفاق کیانی کی ہوگی۔ جنرل پرویز آرمی چیف نہیں ہوں گے نہ سہی، آرمی چیف تو جنرل پرویز ہی ہوں گے۔

Sunni, Shia and US Middle East politics

There is a widespread belief amongst political theorists that democracies do not go to war with one another. Indeed, this political paradigm acted as a prime justification for the Bush administration’s call to “democratise” the Middle East.
Since the invasion of Iraq in 2003, this theme of "democratisation" has become a major topic in American political discourse and in fact accompanies nearly all discussions of the Arab-Muslim world and America’s so-called role in it.
The Bush administration’s response to the current conflict in southern Lebanon, reveals the hypocrisy and true ideology of this administration in aiming at provoking sectarian tension in the region.
Western analysts continue to discuss an alleged "historic" hostility between Sunni and Shia in the region. Dexter Filkins, an Iraq based New York Times journalist claimed in a recent radio interview that the Sunni in Iraq have now “realised that the Shia are their true enemy, not the Americans.”

But the fact is that this statement contradicts history, Iraq Sunni and Shia have been living together for centuries. Modern history books are free from any reference to war between them, but not until the US-led invasion of
Iraq.
Martin Peretz claims that the most virulent social conflict in Middle Eastern history "is the Sunni hatred of the Shia, and vice versa," another groundless claim seems to suggest that Muslims somehow cause more harm to one another than the illegal occupations of their land. Western analysts and journalists newfound enthusiasm for sectarian history in the Muslim world needs to be contextualised.

The danger in baseless claims made by western journalists, become even greater when policy makers and American voters begin to rely on them to assess appropriate action in the Muslim and Arab regions.
It is remarkable that unpopular and unelected rulers, kings and occupiers are the only ones obsessed by alleged sectarian tensions in the region. King Abdullah II of Jordan, a close US ally had warned the west of the supposedly dangerous "Shia crescent" stretching from Iran, moving through Iraq, Syria and ending in Southern Lebanon.
Many in the west, including influential pro-Zionist journalists like Thomas Friedman, are praising Egypt, Jordan and Saudi Arabia—states that Nicholas Blanford described as "western friendly Sunni-led Arab states."

George Bush has always been keen to invite the Saudis to the White House for a smile laden photo session with a president who is a frequent user of the term "free world".
This insistence on sectarianism revolves around a dangerous twist. Western journalists have continued to suggest that the US presence in Iraq is needed in order to prevent civil war, an idea that many Americans believe in.
Needless to say, the American presence has done nothing other than perpetuate civil tensions in the country. Arab kings are freighting their peoples with a false sectarian threat, further consolidating their forceful hold on power.
While regimes like the Saudis are now ordering huge quantities of weapons from the west in order to protect themselves from an assumed sectarian threat posed by Iran.

Western journalists and analysts repeating and confirming the existence of sectarian tension in the
Middle East are actually justifying an American occupation of great parts of the region, instigate a local arms race where the west is the prime benefactor and protect tyrants' grip on power and monarchies who rule by fear.
The fact that the west is arming the un-elected regime in Saudi Arabia against the elected regime in Iran serves as an emphatic indicator of American wishes in the region.
It seems that the mounting tensions of Iraq, Palestine and Lebanon, have placed too much stress on the American façade of freedom and democracy and have revealed the true nature of American policy behind it.
American policy in the Middle East has two major components: First, the Bush administration has an absolute disdain for true democracy in the Middle East and, secondly, this administration is in great need for civil war throughout the entire region.
These observations may appear bold to western reader—it is a common perception amongst Arab and Muslim readers­—when we examine US behaviour, however, it becomes difficult to conclude otherwise.
Firstly, the major targets of US criticism and Israeli aggression in the current crises—Hamas and Hezbollah are widely popular resistance groups who have democratically elected representative.
President Ahmednijad of Iran, who came to office elected by Iranian people himself, is a target of international criticism because of his hard stance against Israel.
Yet Mr. Bush who often says he is a leader of a state belongs to the "free world" supports unelected rulers in Saudi Arabia, Jordan, and Egypt. The Bush administration’s cosy relationship with those rulers should serve as fair warning to green eared reformers in the Arab and Muslim world who seek out this administration’s alliance in the hope for political change.
Furthermore, analyzing US policy in this regard should shed some light on the recent political history of Iraq and help explain why events have taken that turn in that country.
These Arab leaders have justified their unpopular alliance with the United States by invoking sectarianism, while the US has justified its alliance with kings and dictators in the name of "protecting" the mainly Sunni Muslim world against alleged sectarian threat posed by Iran and Hezbollah who are Shia Muslims.
Let us be clear—this threat cannot be detected amongst the Arab public, it exists largely as an abstract idea that conveniently serves those in power.

When one takes a step back and looks at the broad picture of the current conflict it becomes apparently and ironically clear that the elected officials and regimes of the Muslim world are the targets of American and Israeli hostility.
On one hand we have Iranians, Hamas, and Hezbollah, all of whom were brought to power through an electoral process to greater or lesser degrees. In the case of Hamas and the regime of Ahmadinejad in Iran, we have majority elected governments, in the case of Hezbollah we have a popular organisation elected as a part of a government.

On the other hand we have
Egypt, Jordan and Saudi Arabia, a couple of un-elected kings and an unelected ruler standing side by side with the United States, the supposed champion of democracy in the region, acquiescing in Israeli aggression.
Condoleezza Rice, the US secretary of state, has described the current conflict as the "birth pangs" of a new Middle East, but it seems this is a Middle East that does not represent the wishes of the people.
As I have mentioned, if anyone is curious about Rice’s vision of a new Middle East, you need look no further than Iraq, where the US encouraged a sectarian election and Iraqi citizens have become obsessed by Sunni and Shia affairs to the extent they have forgotten that their land remains illegally occupied.
While western analysts are describing Hezbollah as merely an extension of Iran, and therefore "Shia interests," the people of Cairo and Amman, predominantly "Sunni cities" took to the streets carrying pictures of Hasan Nasrallah the Shia Arab leader, defying the "Sunni-Shia rift," described by Peretz.

Most western observers have conveniently ignored widespread Sunni support for Hezbollah throughout the Arab and Muslim world. In
Iraq the US employed a formula of sectarianism in order to entrench itself all the more deeply into Iraqi politics; we now find this formula being extrapolated across the greater Muslim world.

Sunni in the Arab world are to forget the constant aggression of Israel against the Arab peoples and rely on the United States to "protect" them from the Shia, while the Shia in Iraq are being convinced they need the US to protect them from the Sunni.
Palestinian Prime Minister Ismail Haniya has perhaps put it all in perspective by commenting on the issue of a "new" Middle East. He observes that what the Americans mean by "change" in the Middle East is an end to legitimate resistance against illegal and immoral occupation and Muslim subordination to American and Israeli domination.

His observations seem well justified since the NYT has recently reported that the
US is rushing arms to Israel. We must remember, these missiles are meant to bomb Lebanon, a nation with a democratically elected government (of which members of Hezbollah are represented). So much for the theory that democracies do not go to war with one another

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...