Sunday, November 25, 2007

جان بچاؤ تحریک سے ملک بچاؤ تحریک تک حسن مجتٰبی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارکposted by shafique ahmed blog

نواز شریف
’سعودی بادشاہ سے لے کر سعودی انٹیلیجنس تک سے نواز شریف خاندان کے مراسم کے کہانی بہت پرانی ہے‘

ابھی کل ہی کی بات ہے جب پاکستان کے سابق وزیراعظم تخت لاہور سے تختے کے قریب پہنچ کر اٹک قلعے کے قیدی تھے اور ان کی آزادی کیلیے متحدہ حزب مخالف کی تحریک کے دوران ان کی بيگم کلثوم نواز اور لاہور پولیس کے درمیاں ’سٹینڈ آف‘ میں انہیں ان کی کار سمیت فورک لفٹر میں کئي گھنٹے تک معلق رکھا گیا تھا۔

اور ابھی مسلم لیگ (ن) کے فیصل آباد سے رکن پنجاب اسمبلی رانا ثناءاللہ لاہور کی فوجی چھاؤنی میں اپنی ننگی پشت پر لگے بیس کوڑوں کے زخم ہی سہلا نہ پائے تھے کہ راتوں رات نواز شریف اپنے خاندان، ملازمین اور پسندیدہ باورچیوں اور بڑھیا غالیچوں اور سامان سے بھرے دو ٹرکوں سمیت چکلالہ ائرپورٹ سے جدہ اڑان بھر کے پوری حزب مخالف کو ہوا میں معلق چھوڑ کر چلتے بنے تھے۔

بہرحال مشہور ہے کہ جان بچانا سنت ہے اور نواز شریف بھی بھٹو نہیں تھے سو انہوں نے یہی کیا۔ بات یہ نہیں کہ یہ معافی نامہ یا عہد نامہ دس یا پانچ برسوں کا تھا، بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کی نام نہاد خود مختاری مطلق العنانیت، روشن خیالی، عرب اور پاکستانی حکمران ٹولوں کی ملی بھگت اور محلاتی سازشوں کی ملی جلی عجیب طوطا کہانی ہے۔

پاکستان کا عام آدمی سوچ رہا ہے کہ سیاسی طور پر قرون وسطی میں رہنے والے وہ عرب مسلمان مطلق العنان حکمران جو ڈھائي درہم یا دینار تک چوری کرنے والے آدمی کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں وہ پاکستان پر’ڈاکہ‘ ڈالنے والوں کو چالیس صندوقوں سمیت اڑن غالیچے پر سرور محل پہنچا دیتے ہیں۔

کاش ایسا اسلامی بردارانہ پن یا غیرت بھٹو کی جان بخشوانے پر بھی کام آتی جسے ساری دنیا سے اپیلوں کے باوجود جرنیلوں اور ججوں نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔پاکستان کے اس جلاوطن بادشاہ نے سعودی عرب میں بھی سٹیل مل لگوائی اور جدہ میں اپنے قیام کے دوران زیادہ تر وقت سابق صدر رفیق تارڑ کے لطیفوں، پاکستانی پرنٹ میڈیا میں فوجی حکممران جنرل پرویز مشرف کے خلاف اور ان کے حق میں شائع ہونے والے کالموں کو پڑھنے اور اپنے پسندیدہ کھانے کھانے اور کھلانے میں وقت گزارا۔

نواز شریف سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کے ہمراہ

سعودی بادشاہ سے لے کر سعودی انٹیلیجنس تک سے نواز شریف خاندان کے مراسم کی کہانی بہت پرانی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب انیس سو ترانوے میں بینظیر بھٹو حکومت نے سیاسی انتقام کے طور پر شریف خاندان کی کاروباری ناکہ بندی کر رکھی تھی تب بھی ان کے بزنس کو قرضے سعودی عرب کے الفیصل بنک سے ہی جاری کیے گئے۔

جدہ سے بظاہر اپنے بیٹے حسین نواز کی بیماری کے علاج کی غرض سے لندن جانے والے نواز شریف اور اس نواز شریف میں فرق تھا جو جان بچانا سنت ہے والے فارمولے اور اپنے ابا جی کے مشورے پر عمل کرتے اٹک جیل سے جدہ جا پہنچے تھے۔

اس پورے کیس میں نواز شریف جو اب ایک فریادی تھے کے آخر کار وہ منتخب وزیراعظم تھے اور ان کی حکومت ان ہی کے چیف آف آرمی سٹاف اور فوجی ٹولے نے اپنی نوکری جانے پر ان کا تختہ الٹ کر ختم کی تھی۔

پاکستانی عدلیہ کی آزادی کا کیا کہنا کہ ملک کی منتخب وزیراعظم کی حکومت کو ختم کر کے ملکی آئین کو ہائي جیک کرنے والے آرمی چیف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کو تو بغاوت کرنے پر کوئی سزا نہیں ہوئی پر معزول وزیراعظم نواز شریف کو سزا ہوگئي۔

جہاں جی ایچ کیو کا معاملہ ہوتا ہے وہاں لاہور اور لاڑکانہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔

جدہ اور لندن میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف، ان کی مسلم لیگ ن اور بینظیر بھٹو کے درمیاں قربت بڑھی اور میثاق جمہوریت معاہدہ بھی ہوا لیکن معافی سے مشروط کرسی کی دوڑ دھوپ میں بینظیر بھٹو اتنی آگے نکل گئيں کہ ان کے مشرف فوجی سرکار سے مذاکرات و معاملات تب بھی جاری تھے جب وہ میثاق جمہوریت پر دستخط کر رہی تھیں۔

اسی میثاق جمہوریت میں اس آئي ایس آئی میں سیاسی سیل ختم کرنے کا نکتہ بھی شامل تھا جس کے چیف سے بینظیر بھٹو نے ابوظہبی میں ملاقاتیں کی ہیں۔

یہ سبق بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائي میں، بقول انکے، مارگریٹ تھیچر سے سیکھا ہوا ہے کہ دو فریقوں کی لڑائي میں وہ ایک کے زخمی یا بےسدھ ہو کر گرنے تک خاموشی اور مزے سے تماشا دیکھتی رہا کریں اور پھر آ کر ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھائيں۔ بینظیر بھٹو مارگریٹ تھیچر کے اس سبق پر نواز شریف اور صدر اسحاق کے درمیان ہونے والی محاذ آرائي سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم بن گئي تھیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے وکلاء، متوسط طبقات، نوازشریف اور ان کا آبائي صوبہ پنجاب فوجی اسٹبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لاہور جیسے پنجاب کے بڑے شہروں میں فوجیوں کو وردی پہن کر چھاؤنی سے باہر بازاروں میں جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ اب لاہوری ان کے لیے’لچي سی لفنگی سی گنجے، کولوں چنگی سی‘ والا نعرہ نہیں لگاتے اور اب پھر وہاں’ڈھاکے جناں بم چلائے۔۔۔۔‘ والے نعروں کا موسم آیا ہوا ہے۔

یہ پت جھڑ شاید مشرف فوجی راج کی پت جھڑ ہو۔ ایسے سمے میں نواز شریف نے پاکستان میں لوہا تپتا دیکھ کر ضرب لگانے کی ٹھانی ہے۔ پورا ملک اس وقت ان کے لیے’تو لنگھ آ جا پتن چناں دے‘ بنا ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان میں بھی ان سولہ کروڑ دکھی عوام کیلیے سوہنی جیسا دل ہے یا اب بھی وہ کچھ کٹھ ملاؤں، چند پنجابی کور کمانڈروں اور ’ زندگی کے ہاتھ میں آدمی کھلونا ہے‘ بنے ہوئے ہیں!

کیا اس بار یہ پت جھڑ پاکستان میں فوجی راج کی پت جھڑ ثابت ہوگی!

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...