Saturday, January 5, 2008

بے نظیر بھٹو کا قاتل کون




کوئی مذہبی انتہاپسندوں کا نام لے رہا ہے ، کوئی بیت اللہ محسود کو ملزم قرار دے رہا ہے ، کوئی حکومت اور ایجنسیوں کو ماسٹر مائنڈ قرار دے رہا ہے ، حتیٰ کہ بعض بے وقوف آصف زرداری کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل ذمہ دار کا نام کسی کی زبان پر نہیں آرہا ۔وہ قاتل جو صرف بے نظیر بھٹو کے قتل کا ہی نہیں بلکہ آفتاب شیرپاؤ پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کا بھی ذمہ دار ہے ۔ صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر ہونے والے خودکش حملوں کے پیچھے بھی وہی ہے ۔ افغانستان میں قتل عام کا بھی اس کے سوا کوئی اور ذمہ دار نہیں ۔ پیر محمد خان ، اسفندیار امیرزیب اور اسی نوع کی دیگر شخصیات بھی اس کی وجہ سے قتل ہوئیں ۔ وزیرستان اور سوات میں جو خون بہہ رہا ہے ، اس کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مقتولین کے خون کا حساب بھی اسی سے لینا چاہئیے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے خودکش حملوں میں شہید ہونے والے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا بھی وہی قاتل ہے اور اب سانحہ لیاقت باغ جیسے سانحہ سے پاکستانی قوم کو دوچار کرنے والا بھی وہی ہے ۔ اس قاتل کا نام ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، لیکن افسوس کہ اس اصل قاتل کا نام نہ آصف زرداری لے رہے ہیں ، نہ شیری رحمان اس طرف اشارہ کررہی ہیں ، نہ فرحت اللہ بابر اس طرف توجہ دلارہے ہیں ، نہ کوئی سیاسی اور مذہبی رہنما اس قاتل کی نشاندہی کررہا ہے اور نہ کوئی صحافی یا تجزیہ نگار ، اس کی طرف توجہ مبذول کرارہا ہے ۔سیاستدانوں کا معاملہ الگ ہے ، وہ ہمیشہ ہر ایشو کے بارے میں وہی موقف اپناتے ہیں ، جس سے وہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھاسکیں ۔ حق بات انہوں نے پہلے کی ہے اور نہ اب ان سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے ،اس لئے وہ اب بھی آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے قتل کے معمہ کو مزید الجھانے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہی نہیں بلکہ وطن عزیز میں ہونے والے تمام خودکش حملے اس کلچر کاشاخسانہ ہیں جس کلچر کو یہاں گذشتہ تیس سالوں میں امریکہ کے زیرپرستی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان اور خطے کے اندر جہادی کلچر کوفروغ دیا۔ امریکہ ہی نے پاکستانی حکومت کو مجاہدین کی سپورٹ پر آمادہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکہ ہی کے حکم سے پاکستان میں مجاہدین کے لئے ٹریننگ کیمپ بنائے ، پاکستانی عوام کو جہادی کلچر کی طرف راغب کیا، مولویوں کو اس کی سپورٹ میں صف آراء بنایا اور پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ڈالروں کے عوض اس گیم میں حصہ دار بنادیا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے افغان مجاہد لیڈروں کو دنیا کے سامنے مسیحاؤں کے طور پر پیش کیا ، ان پر کتابیں لکھوائیں ، فلمیں بنوائیں اور دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں کے لئے ان مجاہد رہنماؤں کو رول ماڈل بنوادیا۔ پھر یہ امریکہ ہی تھا جس نے اسامہ بن لادن ، ایمن الظواہری اور ان جیسے دیگر عرب اور غیرعرب مسلمان نوجوانوں کو دنیا بھر سے جمع کر کے پاکستان اور افغانستان بھجوادیا۔ ان مجاہدین کے لئے سٹینگر میزائلوں سمیت ہر قسم کی ہتھیاروں کی فراہمی کا فریضہ امریکی سی آئی اے نے ہی انجام دیا ۔ اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے اس نے افغانستان سے ہیروئن کی سمگلنگ تک کی اور اس سے ملنے والے کروڑوں ڈالر بھی اس مقدس مشن پر خرچ ہوتے رہے ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سوویت افواج کی واپسی اور افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مجاہد لیڈروں کو آپس میں لڑوایا اور کئی سال تک افغانستان کی خانہ جنگی سے حظ اٹھاتا رہا ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ابتداء میں طالبان کو سپورٹ کیا اور یہ امریکی کمپنی یونیکال ہی تھی ، جس نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر میجر جنرل(ر) نصیراللہ بابر کو طالبان کا سرپرست بناڈالا۔ پھر یہ امریکہ ہی تھا جس نے گیس کی پائپ لائن کا ٹھیکہ امریکی کمپنی یونیکال کو نہ دینے کے جرم میں طالبان کو اپنا دشمن بناڈالا اور پھر نائن الیون کی آڑ لے کر طالبان کی حکومت کو ختم اور ہزاروں افغانوں کو قتل کروایا۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے افغانستان میں بے گناہ انسانوں کو بمباریوں کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے طالبان کی سپورٹ بڑھتی چلی گئی ۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے ابوغریب اور گوئنتاناموبے جیسے عقوبت خانے بنائے ، جن کے مظالم کے روداد دیکھ اور سن کر افغانستان اور پاکستان کے نوجوان اسامہ بن لادن کے پیغام کی طرف متوجہ ہوتے رہے ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے افغانستان کو مستحکم کئے بغیر عراق پر فوج کشی کی، جس کی وجہ سے خودکش حملوں کا کلچر افغانستان اور پھر وہاں سے پاکستان تک منتقل ہوا۔ یہ امریکہ ہی ہے جس کے ارادے وسط ایشیاء ، ایران اور چین کے بارے میں ٹھیک نہیں ہیں اور ان ارادوں کو بھانپ کر آج روس ، چین اور ایران ، افغانستان اور پاکستان کے اندر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو للکارنے والے لوگوں کو سپورٹ فراہم کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو فلسطین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو مسلمان ممالک میں ڈکٹیٹروں کو سپورٹ کررہا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو افغانستان اور عراق پر قابض ہوچکا ہے اور ایران پر قبضے کے لئے پر تول رہا ہے ، یوں اسامہ بن لادن اور ان کے ہمدردوں کے پیغام کو مسلم دنیا اور بالخصوص افغانستان اور پاکستان میں پذیرائی مل رہی ہے ۔ اس خطے میں جب مسلمان، مسلمان سے لڑنے لگا تو بجا طور پر مسلمان سوال اٹھانے لگے کہ مسلمان کے لئے مسلمان کا قتل کیسے جائز ہوجاتا ہے تو اس وقت امریکہ اور اس کی زیرنگرانی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قائدین جواب دیتے رہے کہ سوویت یونین جیسے جارح کی حمایت کرنے والے مسلمان افغانوں اور پاکستانیوں کا قتل بھی جائز ہے ۔ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ تو پختون بھی ہیں اور مسلمان بھی ، تو پھر ان کا قتل کیسے جائز ہوسکتا ہے تو امریکہ کے زیرسرپرستی "جہاد" میں مصروف لوگ جواب دیتے رہے کہ چونکہ ڈاکٹر نجیب اللہ روس کا ساتھی ہے ، اس کے لئے اس کو قتل کرنا روسیوں کے قتل سے زیادہ ثواب کا کام ہے ۔ آج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہی فلسفہ کام کررہا ہے ۔ طالبان اور ان کے حامی بتارہے ہیں کہ جس طرح سوویت یونین جارح تھا ، اسی طرح امریکہ بھی جارح ہے اور جس طرح سوویت یونین کے خلاف جہاد فرض تھا اسی طرح امریکہ کے خلاف بھی جہاد فرض ہے ۔ پھر جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کیوں لڑرہے ہیں تو وہ وہی پرانا فلسفہ یاد کروادیتے ہیں کہ چونکہ حامد کرزئی اور پرویز مشرف ، امریکیوں کے اتحادی ہیں ، اس لئے ان کا قتل بھی جائز ہے اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ ہیں ، ان کو مارنا بھی تقاضائے ایمان ہے ۔گویا یہاں بھی وہی امریکیوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا پڑھایا ہوا فلسفہ کارفرما ہے ۔آفتاب شیرپاؤ اس لئے نشانہ بنے کہ امریکہ کے مخالف انہیں امریکہ کے اتحادی جنرل پرویز مشرف کا اتحادی سمجھ رہے ہیں ۔ امیر مقام بھی اس لئے نشانہ بنے ، اسفندیار امیرزیب بھی اس لئے نشانہ بنے اور کئی دیگر بھی اسی ہی وجہ سے نشانہ بن رہے ہیں ۔ سیکورٹی فورسز کو اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انہیں امریکہ کے اتحادی پرویز مشرف کا دست و بازو سمجھا جارہا ہے اور اب بے نظیر بھٹو کو بھی اس لئے نشانہ بنایاگیا کہ وہ لوگ اسے امریکہ کا اثاثہ سمجھ رہے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو حالیہ جنگ میں امریکہ کی حامی تھیں ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ امریکی افواج کو قبائلی علاقوں میں براہ راست کاروائی کی اجازت دیں گی ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ امریکہ کے لئے وہ پرویز مشرف سے زیادہ موثر ثابت ہوں گی ۔ خود امریکیوں نے بھی یہ تاثر دیا کہ بے نظیر بھٹو ان کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پاکستان آئی ہیں اور اقتدار میں آکر انہی کے مقاصد کو آگے بڑھائیں گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی امیج اور تاثر بے نظیر بھٹو کے خلاف حملوں کا محرک بنا ہے اور یوں دیکھا جائے تو ان کے قتل کا ذمہ دار امریکہ ہی ٹھہرتا ہے ۔کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار مذہبی جنگجو جو کررہے ہیں ، وہ درست ہیں ، بلکہ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس خطے میں فساد کی جڑ امریکہ ہی ہے ۔امریکہ ہی کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان بدامنی کے شکار ہیں اور امریکہ کی وجہ سے مسلمان ، مسلمان کو مار رہا ہے ۔ یوں اگر ہم اس خطے میں امن کا قیام یا خودکش حملوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ اس خطے سے امریکہ کو رخصت کرنے یا پھر کم از کم اس کے ساتھ تعاون ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نہیں تو ہمیں خدانخواستہ سانحہ لیاقت باغ جیسی کئی سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بے نظیر بھٹو کا قاتل کون



کوئی مذہبی انتہاپسندوں کا نام لے رہا ہے ، کوئی بیت اللہ محسود کو ملزم قرار دے رہا ہے ، کوئی حکومت اور ایجنسیوں کو ماسٹر مائنڈ قرار دے رہا ہے ، حتیٰ کہ بعض بے وقوف آصف زرداری کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل ذمہ دار کا نام کسی کی زبان پر نہیں آرہا ۔وہ قاتل جو صرف بے نظیر بھٹو کے قتل کا ہی نہیں بلکہ آفتاب شیرپاؤ پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کا بھی ذمہ دار ہے ۔ صدر پرویز مشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر ہونے والے خودکش حملوں کے پیچھے بھی وہی ہے ۔ افغانستان میں قتل عام کا بھی اس کے سوا کوئی اور ذمہ دار نہیں ۔ پیر محمد خان ، اسفندیار امیرزیب اور اسی نوع کی دیگر شخصیات بھی اس کی وجہ سے قتل ہوئیں ۔ وزیرستان اور سوات میں جو خون بہہ رہا ہے ، اس کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مقتولین کے خون کا حساب بھی اسی سے لینا چاہئیے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے خودکش حملوں میں شہید ہونے والے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا بھی وہی قاتل ہے اور اب سانحہ لیاقت باغ جیسے سانحہ سے پاکستانی قوم کو دوچار کرنے والا بھی وہی ہے ۔ اس قاتل کا نام ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، لیکن افسوس کہ اس اصل قاتل کا نام نہ آصف زرداری لے رہے ہیں ، نہ شیری رحمان اس طرف اشارہ کررہی ہیں ، نہ فرحت اللہ بابر اس طرف توجہ دلارہے ہیں ، نہ کوئی سیاسی اور مذہبی رہنما اس قاتل کی نشاندہی کررہا ہے اور نہ کوئی صحافی یا تجزیہ نگار ، اس کی طرف توجہ مبذول کرارہا ہے ۔سیاستدانوں کا معاملہ الگ ہے ، وہ ہمیشہ ہر ایشو کے بارے میں وہی موقف اپناتے ہیں ، جس سے وہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھاسکیں ۔ حق بات انہوں نے پہلے کی ہے اور نہ اب ان سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے ،اس لئے وہ اب بھی آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے قتل کے معمہ کو مزید الجھانے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہی نہیں بلکہ وطن عزیز میں ہونے والے تمام خودکش حملے اس کلچر کاشاخسانہ ہیں جس کلچر کو یہاں گذشتہ تیس سالوں میں امریکہ کے زیرپرستی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان اور خطے کے اندر جہادی کلچر کوفروغ دیا۔ امریکہ ہی نے پاکستانی حکومت کو مجاہدین کی سپورٹ پر آمادہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکہ ہی کے حکم سے پاکستان میں مجاہدین کے لئے ٹریننگ کیمپ بنائے ، پاکستانی عوام کو جہادی کلچر کی طرف راغب کیا، مولویوں کو اس کی سپورٹ میں صف آراء بنایا اور پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ڈالروں کے عوض اس گیم میں حصہ دار بنادیا۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے افغان مجاہد لیڈروں کو دنیا کے سامنے مسیحاؤں کے طور پر پیش کیا ، ان پر کتابیں لکھوائیں ، فلمیں بنوائیں اور دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں کے لئے ان مجاہد رہنماؤں کو رول ماڈل بنوادیا۔ پھر یہ امریکہ ہی تھا جس نے اسامہ بن لادن ، ایمن الظواہری اور ان جیسے دیگر عرب اور غیرعرب مسلمان نوجوانوں کو دنیا بھر سے جمع کر کے پاکستان اور افغانستان بھجوادیا۔ ان مجاہدین کے لئے سٹینگر میزائلوں سمیت ہر قسم کی ہتھیاروں کی فراہمی کا فریضہ امریکی سی آئی اے نے ہی انجام دیا ۔ اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے اس نے افغانستان سے ہیروئن کی سمگلنگ تک کی اور اس سے ملنے والے کروڑوں ڈالر بھی اس مقدس مشن پر خرچ ہوتے رہے ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے سوویت افواج کی واپسی اور افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مجاہد لیڈروں کو آپس میں لڑوایا اور کئی سال تک افغانستان کی خانہ جنگی سے حظ اٹھاتا رہا ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ابتداء میں طالبان کو سپورٹ کیا اور یہ امریکی کمپنی یونیکال ہی تھی ، جس نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر میجر جنرل(ر) نصیراللہ بابر کو طالبان کا سرپرست بناڈالا۔ پھر یہ امریکہ ہی تھا جس نے گیس کی پائپ لائن کا ٹھیکہ امریکی کمپنی یونیکال کو نہ دینے کے جرم میں طالبان کو اپنا دشمن بناڈالا اور پھر نائن الیون کی آڑ لے کر طالبان کی حکومت کو ختم اور ہزاروں افغانوں کو قتل کروایا۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے افغانستان میں بے گناہ انسانوں کو بمباریوں کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے طالبان کی سپورٹ بڑھتی چلی گئی ۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے ابوغریب اور گوئنتاناموبے جیسے عقوبت خانے بنائے ، جن کے مظالم کے روداد دیکھ اور سن کر افغانستان اور پاکستان کے نوجوان اسامہ بن لادن کے پیغام کی طرف متوجہ ہوتے رہے ۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے افغانستان کو مستحکم کئے بغیر عراق پر فوج کشی کی، جس کی وجہ سے خودکش حملوں کا کلچر افغانستان اور پھر وہاں سے پاکستان تک منتقل ہوا۔ یہ امریکہ ہی ہے جس کے ارادے وسط ایشیاء ، ایران اور چین کے بارے میں ٹھیک نہیں ہیں اور ان ارادوں کو بھانپ کر آج روس ، چین اور ایران ، افغانستان اور پاکستان کے اندر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو للکارنے والے لوگوں کو سپورٹ فراہم کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو فلسطین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو مسلمان ممالک میں ڈکٹیٹروں کو سپورٹ کررہا ہے ۔ یہ امریکہ ہی ہے جو افغانستان اور عراق پر قابض ہوچکا ہے اور ایران پر قبضے کے لئے پر تول رہا ہے ، یوں اسامہ بن لادن اور ان کے ہمدردوں کے پیغام کو مسلم دنیا اور بالخصوص افغانستان اور پاکستان میں پذیرائی مل رہی ہے ۔ اس خطے میں جب مسلمان، مسلمان سے لڑنے لگا تو بجا طور پر مسلمان سوال اٹھانے لگے کہ مسلمان کے لئے مسلمان کا قتل کیسے جائز ہوجاتا ہے تو اس وقت امریکہ اور اس کی زیرنگرانی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قائدین جواب دیتے رہے کہ سوویت یونین جیسے جارح کی حمایت کرنے والے مسلمان افغانوں اور پاکستانیوں کا قتل بھی جائز ہے ۔ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ تو پختون بھی ہیں اور مسلمان بھی ، تو پھر ان کا قتل کیسے جائز ہوسکتا ہے تو امریکہ کے زیرسرپرستی "جہاد" میں مصروف لوگ جواب دیتے رہے کہ چونکہ ڈاکٹر نجیب اللہ روس کا ساتھی ہے ، اس کے لئے اس کو قتل کرنا روسیوں کے قتل سے زیادہ ثواب کا کام ہے ۔ آج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہی فلسفہ کام کررہا ہے ۔ طالبان اور ان کے حامی بتارہے ہیں کہ جس طرح سوویت یونین جارح تھا ، اسی طرح امریکہ بھی جارح ہے اور جس طرح سوویت یونین کے خلاف جہاد فرض تھا اسی طرح امریکہ کے خلاف بھی جہاد فرض ہے ۔ پھر جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کیوں لڑرہے ہیں تو وہ وہی پرانا فلسفہ یاد کروادیتے ہیں کہ چونکہ حامد کرزئی اور پرویز مشرف ، امریکیوں کے اتحادی ہیں ، اس لئے ان کا قتل بھی جائز ہے اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ ہیں ، ان کو مارنا بھی تقاضائے ایمان ہے ۔گویا یہاں بھی وہی امریکیوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا پڑھایا ہوا فلسفہ کارفرما ہے ۔آفتاب شیرپاؤ اس لئے نشانہ بنے کہ امریکہ کے مخالف انہیں امریکہ کے اتحادی جنرل پرویز مشرف کا اتحادی سمجھ رہے ہیں ۔ امیر مقام بھی اس لئے نشانہ بنے ، اسفندیار امیرزیب بھی اس لئے نشانہ بنے اور کئی دیگر بھی اسی ہی وجہ سے نشانہ بن رہے ہیں ۔ سیکورٹی فورسز کو اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انہیں امریکہ کے اتحادی پرویز مشرف کا دست و بازو سمجھا جارہا ہے اور اب بے نظیر بھٹو کو بھی اس لئے نشانہ بنایاگیا کہ وہ لوگ اسے امریکہ کا اثاثہ سمجھ رہے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو حالیہ جنگ میں امریکہ کی حامی تھیں ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ امریکی افواج کو قبائلی علاقوں میں براہ راست کاروائی کی اجازت دیں گی ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ امریکہ کے لئے وہ پرویز مشرف سے زیادہ موثر ثابت ہوں گی ۔ خود امریکیوں نے بھی یہ تاثر دیا کہ بے نظیر بھٹو ان کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت پاکستان آئی ہیں اور اقتدار میں آکر انہی کے مقاصد کو آگے بڑھائیں گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی امیج اور تاثر بے نظیر بھٹو کے خلاف حملوں کا محرک بنا ہے اور یوں دیکھا جائے تو ان کے قتل کا ذمہ دار امریکہ ہی ٹھہرتا ہے ۔کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار مذہبی جنگجو جو کررہے ہیں ، وہ درست ہیں ، بلکہ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس خطے میں فساد کی جڑ امریکہ ہی ہے ۔امریکہ ہی کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان بدامنی کے شکار ہیں اور امریکہ کی وجہ سے مسلمان ، مسلمان کو مار رہا ہے ۔ یوں اگر ہم اس خطے میں امن کا قیام یا خودکش حملوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ اس خطے سے امریکہ کو رخصت کرنے یا پھر کم از کم اس کے ساتھ تعاون ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نہیں تو ہمیں خدانخواستہ سانحہ لیاقت باغ جیسی کئی سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...