Monday, March 22, 2021

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھدفن کردی گئی مگر شہید جمیل حسین کی بیوہ اور والدہ بچوں کی کفالت اور سکول کے لئے کافی پریشان ہیں۔ جمیل حسین کا تعلق گاؤں جالندھر سے تھا جبکہ گوساڑ گاؤں میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پزیر تھے۔ جمیل حسین طوری کے والد منظر علی طوری غربینہ میں ۱۹۸۷ جنگ میں افغان جہادیوں سمیت مقامی لشکر کے خلافلڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ ضلع مہمند میں پاک افغان بارڈر پر تین چیک پوسٹ نہایت خطرناک علاقے میں بنائے گئے ہیں جہاں افغان آرمی اورمقامی قبائل جس میں طالبان کا عنصر شامل ہے وقتاً فوقتاً ان چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ بتایا جار رہا ہےجہاں پانچ منٹ کیلئے کوئی اہلکار نظر آئے تو سنائپر سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایف سی کے دو درجن کے لگ بھگ اہلکارہر چیک پوسٹ پر تعینات رہتے ہیں جو جدید اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے لیس ہوتے ہیں۔ جمیل حسین کے ایک قریبی دوست سید حسن نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتے ان تین چیک پوسٹوں میں سے ایک چیکپوسٹ پر حملہ ہوا تو پاک افواج کے جوانوں نے بھرپور جواب دیا اور سرحد پار سے حملہ آوروں میں سے درجن بھرافراد ہلاک و زخمی ہوئے اور حملہ پسپا کردیا گیا، ایف سی کے بھی کئی اہلکار زخمی ہوئے تھے، اس بہادری پر پر ایفسی کے ان اہلکار ہیڈ کوارٹر وارسک بلائے گئے جہاں ان کو نقد انعامات اور ترقی دے دی گئیں اور ان میں سےایک جوان جمیل حسین طوری بھی تھے جن کو مبلغ دس ہزار نقد انعام لانس نائک سے نائیک رینک میں ترقی دے دیگئی۔ وارسک میں انعام اور ترقی دینے کے بعد جمیل حسین کو وننگ کمانڈر نے واپس اپنی چیک پوسٹ پر بلایا جہاںدہشتگردوں سے مقابلہ ہوا تھا اور وہاں بطور نائیک کمانڈر تعینات ہوئے اور تیسرے روز چیک پوسٹ میں ہی سنائپر سےنشانہ بنایا گیا اور زخمی ہوگئے، زخمی ہونے کے بعد مہمند ضلعی ہسپتال پہنچانے میں کافی دیر ہوئی اور کافی خون بہنے کیوجہ سے حالت بگڑ گئی تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمیلحسین راستے میں ہی رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ جمیل حسین کے چار چھوٹے بچے ہیں اور اکمل حسین سب سے بڑے بیٹے ہیں جنہوں شہید والد کا سامان اور کیپوصول کیا۔ جمیل حسین کے کوئی بھائی نہیں گھر میں ایک ماں اور ایک بہن رہ گئے ہیں، بچوں کے سکول اور اوروالدہ کے لئے ایف سی نے فیصلہ کیا ہے کہ شہید کی تنخواہ جاری رہے گی۔ اب ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس پر پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان میںپشتون (پختون) قبائل کا ضلع کرم کے طوری بنگش قبائل کے ساتھ قبائلی اور مذہبی (مسلکی) مخاصمت کسی سے ڈھکیچھپی نہیں۔ چونکہ ضلع کرم کے طوری قبیلہ مکمل طور پر اور بنگش و کچھ دیگر قبائل کا تعلق اہل تشیع مکتبہ فکر سے لہذاان قبائل کے جوانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاتا رہا ہے جس کی مثالیں وزیرستان میں لائق حسین کو ذبح کرنا ہےجبکہ باقی سارے ایف اہلکاروں کو چھوڑ دیاگیا تھا۔ اور ضلع مہمند کے مہمند رائفلز کے سپاہی نور حسین کی ٹارگٹکلنگ ہے جس کو کچھ مہینوں پہلے اپنے ساتھیوں نے فائرنگ کرکے قتل کیا ہے۔ لہذا جمیل حسین کے رشتہ داروں نے (جمیل حسین کے دوست کے مطابق جنہوں مجھ سے بات کی ہے) اس خدشےکا اظہار بھی اظہار کیا ہے کہ جمیل حسین کے شہادت کے تحقیات میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے۔ جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھدفن کردی گئی مگر شہید جمیل حسین کی بیوہ اور والدہ بچوں کی کفالت اور سکول کے لئے کافی پریشان ہیں۔ پاک افواج اور ایف سی کے اعلی حکام خاندان کی مدد کے کئے فی الحال تو تیار ہیں لیکن ماضی اتنا شاندار نہیں ہے۔کیونکہ وزیرستان میں طالبان کے ہاتھوں ذبح شدہ لائق حسین کے والدین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور سوشلمیڈیا پر بیماری کے لئے عوام سے چندے کی اپیل کرتے نظر آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاک افواج اور ایف سیکی اعلی قیادت اس کمزوری کا نوٹس لے گی اور شہداء کے خاندانوں کا سہارا بنے گی۔ احمدطورى#

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...