Monday, April 28, 2008

حامد میر کا کالم چودھری افتخاراور آصف علی زرداری کا کیس؟

زرداری کا ہنسن؟ا
چودھری افتخاراور آصف علی زرداری کا کیس؟
گیلانی کی پوپ میوزک اور مشرف صاحب کیساتھ فوٹو؟
نوازشریف زرداری کا بڑا بھایی؟
مزاق نہیں حامد میر کا کالم ہےکلک کیجیے اور پڑھیے
Jang Group Online

آصف علی زرداری کی سچویشن میں جو کوئی بھی ہوتا وہ اس کے سوا کیا کرتا

زرداری کی چھ گیندیں

وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


انیسویں صدی کے آسٹریائی مدبر اور چانسلر میٹرنخ کا نام تاریخِ یورپ میں اس لیے رہے گا کیونکہ اس نے اس براعظم میں قیامِ امن کے لیے متحارب بادشاہتوں کو ایک معاہدے میں پرو دیا اور یوں میٹرنخ یورپی سیاست و سفارت کا وہ جادوگر کہلایا جو مورخ کے بقول بیک وقت مختلف سائز کی پانچ گیندیں ہوا میں اچھالنے پر قادر تھا۔ لیکن میٹرنخ کی یہ کرتب بازی بھی اس کے بعد یورپ کو ٹکراؤ سے نہ بچا سکی جس کا نتیجہ پہلی عالمگیر جنگ کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
مجھے یقین ہے کہ دل اور کمر کی تکلیف میں مبتلا پاکستانی سیاست کے میٹرنخ آصف علی زرداری کو گیندیں ہوا میں اچھالنے کا تھکا دینے والا کرتب دکھانے کا بالکل شوق نہیں لیکن کیا کیا جائے کہ حالات نے انکے ہاتھ میں پانچ کے بجائے چھ گیندیں تھما دی ہیں۔
پہلی گیند پر امریکی جھنڈا بنا ہوا ہے۔ یہ گیند اس شرط پر اچھالنے کے لیے دی گئی ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ خداوندِ کریم کی وہ امانت ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے توسط سے امریکی مشاورت کے ساتھ استعمال کریں گے۔
دوسری گیند صدر پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے چمڑے سے سی کر ملک محمد قیوم اور سید شریف الدین پیرزادہ کے ہاتھوں قومی مصالحتی آرڈیننس کے لفافے میں کرتب باز کے لیے بھجوائی ہے۔
تیسری گیند پر ورثے میں ملی پیپلز پارٹی کا نام لکھا ہوا ہے جسے بارہ برس کی صحرا نوردی کے بعد اقتدار کی چھاؤں نصیب ہوئی ہے اور پارٹی میں اوپر سے نیچے تک کسی کو شوق نہیں کہ اتنی محنت سے حاصل ہونے والے پھل دار درخت کی چھاؤں تھوڑے ہی عرصے میں اصول پسندی کی تیز دھوپ کی نذر ہو جائے۔
چوتھی گیند میاں نواز شریف کے نام کی ہے۔جسے فی الحال کسی صورت زمین پر نہیں گرنا چاہیے ورنہ کرتب دکھانے والے کا نہ صرف توازن بگڑ سکتا ہے بلکہ تماشائیوں میں ممکنہ ہلچل کے سبب شو بھی خراب ہو سکتا ہے۔
پانچویں گیند ایم کیو ایم کی ہے جسے سنبھالنا اگرچہ ایک کٹھن مرحلہ ہے لیکن اگر یہ ہاتھ سے چھوٹتی ہے تو سیدھی پاکستان کے اقتصادی پھیپھڑے یعنی کراچی پر گرے گی۔
اور چھٹی گیند عدلیہ کی ہے، جو سائز میں تو چھوٹی ہے لیکن گرم آلو کی طرح ہے۔ بھلے ہتھیلیاں جل جائیں لیکن کرتب باز کے مسکراتے چہرے کا رنگ تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
کرتب باز کا فن یہ ہے کہ وہ کتنی دیر تک ان چھ گیندوں کو ہوا میں رکھ کر بھوکے پیٹ تماشائیوں کو سکتے میں رکھ سکتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ آصف علی زرداری کی سچویشن میں جو کوئی بھی ہوتا وہ اس کے سوا کیا کرتا جو زرداری صاحب کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفرکعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
BBCUrdu.com قلم اور کالم زرداری کی چھ گیندیں

Wednesday, April 23, 2008

BBCUrdu.com | آپ کی آواز | : my views on bbc :

فورم:
ججوں کی بحالی کا مسئلہ کیسے حل ہو؟
قوم کے بہترین مفاد میں صدر مملکت اور چیف جسٹس چودھری دونوں کو مستعفی ہونے چاہیے اسے پہلے کہ جنرل وحید کاکڑ کیطرح دونوں کو گھر بھیج دیا جایے- کیونکہ دونوں متنازعہ ہیں- گو کہ افتخار صاب ابھی سدھر گیے ہیں لیکن انہیں قربانی دینی چاہیے- اور مشرف صا حب کو بھی چاہیے کہ قوم کو معاف کریں اسے پہلے کہ قوم کو افغان صدر کیطرح کھلے عام سنگساری کرنا پڑے گو کہ وہ بیچارہ اتنا گنہگار بھی نھیں تھا جتنا کہ آپ- قوم کے بہترین مفاد میں صدر مملکت اور چیف جسٹس چودھری دونوں کو مستعفی ہونے چاہیے اسے پہلے کہ جنرل وحید کاکڑ کیطرح دونوں کو گھر بھیج دیا جایے- کیونکہ دونوں متنازعہ ہیں- گو کہ افتخار صاب ابھی سدھر گیے ہیں لیکن انہیں قربانی دینی چاہیے- اور مشرف صا حب کو بھی چاہیے کہ قوم کو معاف کریں اسے پہلے کہ قوم کو افغان صدر کیطرح کھلے عام سنگساری کرنا پڑے گو کہ وہ بیچارہ اتنا گنہگار بھی نھیں تھا جتنا کہ آپ-
فورم:
شمالی وزیرستان، آخر ہو کیا رہا ہے؟
میرے مطابق اس میں پاک فوج اور طالبان کے علاوہ تیسری اور چھوتہی کارفرما آقاؤں کیطرف کسی کا بہی دیھیان نھیں ھے جنکے یہ آلہ کارھیں نہ طالبان کو اسلام سے اور نہ ھی آپریشن کرنے والے فوجی قیادت کو پاکستان سے لینا دینا ھے اور درمیان میں غریب عوام کا خون بھایا جاتا ھے لیکن میں آپ لوگوں کو ایک راز کی بات بتاؤں کہ بےروزگاری ،بھوک، بیماریوں سے بھی یہ لوگ مر رھے ھیں اور ایجوکیشن، ھیلتھ ،اوربےروزگاری کی فنڈزگولہ بارود پر خرچ ھو رھے ھیں-
فورم:
وزیرستان، فوجیوں کی بازیابی میں ناکامی
بھیج دیا گیا:
03-Sep-2007 13:14
تبصرہ :
لگتا ہے اب پاک فوج کے جوان بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں کیونکہ پاک فوج کے300 جوانوں کو قابو کرنا معمولی کام نہیں اور ویسے بھی پاک فوج میں دینی جذبہ کی فراوانی ہے۔اگر یہی صورت حال رہی تو بہت سے جرنیل بھی ہتھیار پھینک کر نواز شریف کے بیٹھک پر دستک دینگے جیسے کہ بہت سے ریٹائرڈ فوجی حضرات نے کر دکھایا۔ آج نہیں تو کل، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ارباب اختیار GHQ میں رچرڈ باؤچر اور ڈک چینی کے بنائے گئے خارجہ اور داخلی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں وضع کریں۔ تبصرے دیکھنے کے لیے کلک کریں
BBCUrdu.com آپ کی آواز : [shafique]یوزر کا شخصی خاکہ:

Jang Group Online

اشتیاق بیگ صاحب کا ایک بہترین کا کالم جسے پڑھتے ہویے کم ازکم میں تو بہت رویا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو بندہ اسے پڑھ کر رویے نہیں وہ بندہ انسان نہیں ہوسکتا کیونکہ اسکا تعلق احساس سے ہے اور جو دوسرے انسان کا دکھ درد محسوس نہیں کرتا وہ ایک چلتا پھرتا لاش ہوتا ہے وہ انسان کہنے کے لایق نہیں
Jang Group Online

Monday, April 21, 2008

Jang Group Online

بقول شخصے امریکہ ، انڈیا اور پاکستان کیا کیچڑی پک رہی ہے؟ طالبان کا گرم مصالحہ تو بلوچ قوم پرست نمک لیکن پرویزمشرف انگریزی مرچی آگے آگے دیکھ‏‏ئے ہوتا ہے کیا؟ فی الحال حامد میر کا تجزیہ پڑھیں تشکر شما

Jang Group Online

Wednesday, April 9, 2008

Tuesday, April 8, 2008

شاہ عبداللطیف بھٹائی اور یاد شہید کر بلا

شاہ عبداللطیف بھٹائی اور یاد شہید کر بلا


پیر سید علی عباس شاہ

(مضمون نگار سجادہ نشین آستانہ عالیہ کندھانوالہ شریف،ضلع منڈی بہاؤالدین ہیں)
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام دین اسلام کی تعلیمات کے حقیقی مبلغ اور ذات قدرت کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں تیرگئی دوراں میں اجالوں کے چراغ روشن فرماتی رہی ہیں ۔ ہندالولی ہوںیا لال شہباز قلندر، گنج بخش ہوں یا گنج البحر ، جملے شاہ ہوں یا بلھے شاہ، بری امام ہوں یا شاہ نظام ہر نمائندہ الٰہی عصری تقاضوں کے مطابق قلوبِ انسانی کی آبیاری کرتا آیا ہے۔ انہی نورانی شخصیات میں ایک درخشاں ستارہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ذات بابرکات ہے ۔ آپ بھی دیگر اہل اللہ کی مانند سانحہ کربلا اور شہادت اما م عالیمقام کو اسلام کی بقاوسربلندی کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔
ولادت ونسب نامہ:
آپ سندھ کے ضلع حیدر آباد کے علاقے ہالہ تالوکہ کے گاوں کٹھیاں میں 1689ء بمطابق 1102ھ میں تشریف لائے۔ آپ کے آباء و اجداد افغانستان کے علاقے ہرات سے تشریف لائے تھے ۔ آپ موسوی الکاظمی سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب ستائیس ( 27) پشتوں بعد ساتویں امام اہلبیت حضرت سیدنا امام موسٰی بن جعفر الکاظم سے ہوتا ہوا سرکار ختمی مرتبت سے جا ملتا ہے ۔ آپ کا نورانی نسب نامہ اسطرح ہے۔
حضرت سید عبداللطیف شاہ بھٹائی بن سید حبیب شاہ بن سید عبدالقدوس شاہ بن سید جمال شاہ بن سید عبدالکریم شاہ بن سید لال محمد شاہ بن سید عبدالمومن شاہ بن سید میر علی شاہ بن سید حیدر شاہ بن سید میر علی شاہ بن سید محمد شاہ بن سید حسین شاہ بن سید علی شاہبن سید یوسف شاہ بن سید حسین شاہ بن سید ابراہیم شاہ بن سید علی شاہ بن سید حسین علی اکبری بن امامزادہ جعفر ثانی بن سیدنا حضرت امام کاظم بن سیدنا حضرت امام جعفر صادق بن سیدنا حضرت امام محمد باقربن سید نا حضرت امام زین العابدین بن سیدنا امام حسین شہید کربلا بن سیدناامام علی المرتضٰی شیر خدا۔
ابتدائی حالات:
آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت انتہائی شاندار ماحول میں ہوئی اور آپ کو اسلامی و روحانی ماحول میسر آیا۔ آپ قرآن مجید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی شریف کے بھی جید عالمِ دین تھے۔ سندھی زبان وادب کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سنسکرت، سرائیکی، اردو اور بلوچی زبانوں کا بھی وسیع علم تھا۔ آپ نہ صرف سندھ بلکہ عالمی ادباء و صوفیاء میں ایک قدآور شخصیت ہیں۔
سیرو سیاحت:
سیر و سیاحت صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کی سیرت کا اہم جزو رہی ہے۔ آپ کو بھی ہنگلاج ، جوناگڑھ، لاہوت، لکھپت ، جیلسلمیرکے علاوہ تھرپارکر کے صحراوں میں سیاحت کا موقع ملا۔
آپ عملی علم پر یقین رکھتے تھے اور مشاہدات و مکاشفات کے ذریعے علمی خزائن اکھٹے کئے۔
ازدواج:
1713ء میں آپ نے کوٹری کے رئیس مغل بیگ کی صاحبزادی حضرت سعیدہ بیگم سے عقد فرمایا۔ آپ کی زوجہ محترمہ آپ کی حیات میں ہی انتقال فرما گئیں۔
تعلیمات:
آپ نے اپنی تعلیمات میں اتباع رسول اکرم اور محبت اہلبیت اطہار کا بکثرت ذکر فرمایا ہے اور جابجا اپنے اجدادِ طاہرین کی مدح سرائی کی ہے۔ آپ کی تعلیمات مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
1۔نسل انسانی کی وحدت اور باہمی ربط کی بنیاد
2۔سماجی مراتب سے قطع نظر تمام عالمِ انسانیت کی برابری
3۔عظمتِ کار و کسب اور ارتقائے مراتبِ مادہ و روحانیت
4۔معاشرے کے مختلف طبقات میں یکجہتی۔
سماع سے رغبت:
حضرت شاہ صاحب محفل سماع کا شوق رکھتے تھے اور خود بھی قوالی کیا کرتے تھے۔ آپ آلات موسیقی و راگ وغیرہ سے بخوبی آشنا تھے اور فن قوالی کو روحانی بلندی کا اہم ذریعہ قرار دیتے تھے۔ آپ کے زیر استعمال طنبورہ بھٹ شاہ کے میوزیم کی زینت ہے۔
آخری لمحات و انتقال:
ُُآپ نے 14صفرالمظفر 1165ہجری بمطابق 1752ء کو مریدین و اراد تمندان کو قوالی کا حکم دیا اور خود ایک کپڑے کی چادر اوڑ ھ کر اپنے مخصوص طریقہ نشست سے بیٹھ گئے قوال قوالی کرتے رہے اور شاہ صاحب بلاجنبش سماعت فرماتے رہے تین روز گزرنے کے بعد جب قوال تھک گئے تو انہوں نے شاہ صاحب کی جانب نظر کی مگر شاہ صاحب نہ جانے کس لمحے واصل بحق ہو چکے تھے۔

تدفین و تعمیرِمزار:
آپ کو آپ کی جائے قیام ۔۔"بھٹ"یعنی " ریت کا ٹیلہ" میں دفن کیا گیا جہاں آپ 1742ء کو مستقل طور پر رہائش پذیر ہو گئے تھے اور دس سال متواتر وہیں قیام فرمایا۔ آپ نے اپنے اور اپنے مریدین کے لئے چند کمرے اس ٹیلے پر تعمیر کئے تھے مگر آپ خود اس ٹیلے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ریگزار کربلا اور تکالیف امام عالیمقام کو یاد کرتے اور اس یاد میں زاروقطار روتے ، گریہ زاری کرتے، آہیں بھرتے اور سسکیاں لیتے تھے۔ غمِ شہید کربلامیں آپ نے ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن فرمایا۔
آپ کا مزار اقدس آپ کے عقیدت مند اور سندھ کے فرمانروا میاں غلام رسول شاہ کلہوڑو نے تعمیر کرایا اور میر ناصر خان ٹالپرنے اس کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی روائیتی سندھی طرز تعمیر اور فن معماری کے باعث آپ کا روضہ اقدس سندھ کا خوبصورت ترین مزار ہے۔
سالانہ عرس:
آپ کا سالانہ عرسِ وصالِ 14 صفر کو نہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے جس میں نہ صرف ملک کے طول و عرض بلکہ بیرون ملک سے بھی آپ کے کروڑ وں عقیدت مند جبینِ نیاز خم کئے حاضری دیتے ہیں۔
آپ کے علمی آثار:
شاہ صاحب نے متعدد علمی یادگاریں اخلاف کے سپرد کی ہیں جن میں سب سے اہم علمی اثاثہ " شاہ جو رسالو " کے نام سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہے۔ اس سے قبل آپ کے جداعلیٰ شاہ عبدالکریم بلڑی کا رسالہ اہلِ سندھ کا علمی اثاثہ تھا جو شاہ صاحب کے پاس محفوظ رہا۔
شاہ جورسالو:
حضرت شاہ صاحب کے اشعار و افکار آپ کے مرید تیمر فقیر نے قلمبند کئے اور انہیں "گنج" یعنی خزانے کا نام دیا ۔ آپ کی خادمہ مائی نعمت نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی۔ یہ نسخہ تیمر فقیر کے ورثاء کے پاس محفوظ رہا بعدازاں اس نسخے کی نقول تیار کی گہیں۔ شاہ صاحب کے انتقال کے 114سال بعد 1866ء میں ایک جرمن دانشور جناب ارنسٹ ٹرمپ نے سب سے پہلے" شاہ جو رسالو" کو جرمنی سے شائع کرایا جس کے بعد متعدد دانشوران نے ۔"شاہ جو رسالو" کی طباعت پر توجہ دی اور شاہ صاحب کے افکار و اشعار نے عالمگیر شہرت حاصل کی۔
"شاہ جو رسالو" 30 ابواب پر مشتمل ہے جنہیں " سُر" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ابواب درج ذیل ہیں:
1 ۔ سُر کلیان 2۔ سُر یمن کلیان 3۔ سُر پربھتی 4۔ سُر عصا 5 ۔ سُر برووسندھی
6۔ سُر کپائتی 7۔ سُر دھر 8۔ سُر رِپ 9۔ سُر کریال 10۔ سُر بلاول
11۔ سُر سارنگ 12۔ سُر کھمبٹ 13۔ سُر سُری رگ 14۔ سُر سموندھی 15۔سُرکھمبٹ 16 سُررام کالی 17۔ سُر پورب 18۔ سُر کیڈارو 19۔ سُر ماروی 20۔ سُر ساسوی 21۔ سُرماوزوری 22۔ سُردیسی 23۔ سُر کوہیاری 24۔ سُرحسینی 25۔ سُر کمود
26۔ سُر مومل ر انو 27۔ سُرلیلاچنیسہ 28۔ سُرسورتھ 29۔ سُرسوہنی 30۔ سُر گھاتو
شاہ جو رسالو اور ذکر حسین:
شاہ جو رسالو میں اہلبیت اطہار کی عظیم ہستیوں کو متعدد مقامات پر خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اہلِ عشق کے کارواں سالار، فرزند رسول ، سیدالشہداء ، تاجدارِ کربلا سیدنا امام عالیمقام حضرت امام حسین کی لازوال قربانی شاہ صاحب کے اشعار میں واضح طور سے بیان کی گئی ہے جو شاہ صاحب کی اہلِ بیتِ اطہار سے مؤدت و محبت کی عکاس ہے۔ اکثر اشعار "سُر کیڈارو جو کربلا" یعنی کربلا کا میدان جنگ میں رقم کئے گئے ہیں۔
اردو ادب کے قارئین کے لئے ان اشعار کی نثری تلخیص اور اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
۔۔باب اول۔۔
1۔ ہلال محرم نظر آگیا جو اپنے ساتھ ایک شہزادے کی ناقابلِ فراموش یادیں لے کر آیا ہے۔ صرف خدا راز شہادت سے آگاہ ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
2۔ ہلالِ ماہِ محرم شہزادے کی تلخ یادیں لے کر آیا ہے۔ اہلِ مکہ و مدینہ نے کیسا المیہ دیکھا۔ بے شک خدا لائقِ حمد ہے جو ایسے احکامات جاری کرتا ہے۔
3۔ ماہِ محرم تو آگیا مگر امام تشریف نہیں لائے۔ اے والی مد ینہ، اے میرے آقا!برائے مہربانی مجھے اپنے پاک امام سے ملنے دیجئے۔
4۔ ماہِ محرم آگیا مگر میرے آقا نہیں آئے۔ اے امیر مدینہ! میرے پیارے سردار، زراہِ لطف مجھے میرے امام کی زیارت عطا کریں۔
5۔ تاجدارِ مدینہ نے اپنے جانثاروں کے ہمراہ مدینہ چھوڑا اور ضروری سازوسامان کے ساتھ ایک طویل معرکے کا رخت باندھا۔
6۔ امام اور ان کے تابعین نے سفر کیا اور سب اپنے راہواروں پر سوار تھے۔ طویل اور تھکا دینے والی مسافرت نے ان بہادروں کے بدن جھلسا دیئے۔
7۔ شہزادے نے مدینہ چھوڑا مگر پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ اے رنگساز! میرا لباس سیاہ کر دے۔ میں ان مقدس مسافروں کا سوگوارہوں جنہوں نے خیر کے لئے سب کچھ قربان کیا۔
8۔ میری بات غور سے سنو! تمہیں جاننا چائیے کہ عام طور سے جو مظلومانہ شہادت بیان کی جاتی ہے
وہ درحقیقت امام اور ان کے ساتھیوں کے لئے عرس وصال ہے ۔ یہ عشق کی داستان ہے جس سے یزیدمحروم تھا۔ حقیقت میں شہادت اولادِ علی کے لیے خدا سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔
9۔ المیئہ شہادت لطفِ الٰہی تھا۔ یہ عشق الٰہی کا ثبوت ہے جس سے یزید محروم تھا۔ حقیقت میں نبی اکرم،امام اور امام کے والدین منشائے ایزدی پر آنے والے واقعات شہادت میں راضی تھے کیونکہ امت نے اس سے استفادہ کرنا تھا۔
10۔ امام کی المناک شہادت خالصتاً عطیہ خداوندی ہے۔یہ محبت کا اشارہ ہے جس سے یزید محروم تھا۔ یہ امام اور بقا کا باہمی رشتہ ہے۔
11۔ شہادت کی سختیاں امتحان قدرت ہے جسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے علمِ لدنی حاصل ہو۔ صرف وہی مضمرات شہادت اور قضیہ کربلا کو جان سکتا ہے۔
آج امیر المومنین! مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ صرف جا نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مدینہ کو خیرباد کر رہے ہیں افسوس صد افسوس، وہ مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ سورج اور چاند اکٹھے ہو کر پیغمبر اکرم کی بارگاہ میں تعزیت کو حاضر ہوئے ۔ افسوس صد افسوس طلوع شہادت تک د نیا تاریکیوں میں کھو چکی تھی۔
۔۔باب دوئم۔۔
1۔ تاجدارِ مدینہ نے مدینہ چھوڑا اور وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کے پاس خنجر، نیزے، باز، کلہاڑے موجود تھے۔ مولا علی کی اولاد اپنی لڑائیوں میں یہ فولادی ہتھیار استعمال کرتی تھی۔
2۔ چاند نظر آیا اور مدینے کا خوبصورت جو ان نیزے، خنجر، باز و طبل کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوا۔ حضرت علی کی اولاد ناقابلِ شکست تھی اور دشمنوں کے ساتھ ان ہتھیاروں سے نبرد آزما ہوتی تھی۔
3۔ مدینہ کے نوجوان آقا مدینہ چھوڑ کر روانہ ہوئے اور ان کے پاس طبل ، باز ، نیزے، علم موجود تھے۔ علی کی اولاد ان ہتھیاروں کے ساتھ دشمن کی صفوں میں تباہی کر دیتی تھی۔
4۔ انہوں نے میدانِ کربلا میں اپنے خیمے گاڑے اور بے خوفی کے ساتھ یزیدی طاقتوں سے پنجہ فگن ہوئے۔ جنگ کی ہولناکی جب کہ تلواریں ٹکرا رہی تھیں وہ ڈٹے رہے۔
5۔ ذریت پیغمبر اسلام کے جانباز کربلا میں خیمہ نشین ہوئے اور اپنی مصری تلواروں کے ساتھ جھوٹے دشمنوں کی صفوں میں ہیبت پھیلا دی۔
6۔ شیر سید، انسان کامل کربلامیں دشمنوں کے مدمقابل آئے اور بہادری کے ساتھ اپنی مصری تلواروں سے کشتوں کے پشتے لگا دئیے ۔ میر حسین کے جارحانہ حملوں کے باعث ان کے بہادر دشمنوں کے دل بھی دہل گئے۔
7۔ جو ان بہادر کربلا پہنچے۔ زمین اس ماجرے کو دیکھ کر لرز اٹھی اور آسمان میں تھر تھلی پھیل گئی۔ یہ کربلا والوں کا ذات الٰہی سے عشق اور اعتماد کا مظاہرہ تھا۔
8۔ انسان کامل کربلا میں تشریف لے آئے اور نتیجہ جانتے ہوئے بھی قیام پذیر ہوئے اور اکٹھے بیٹھ کر کہا کہ امام حسین کے لئے یہ کیا قضیہ پیش آگیا۔
9۔ انسان کامل! امیر المومنین کربلا تشریف لے آئے ۔ انہوں نے حکم تقدیرپہ دشمنوں پہ تیر برسائے جو کہ حکم الٰہی تھا۔
10۔ یہ اللہ کا دستور ہے کہ اپنے پیاروں اور منتخب بندوں کی موت آزمائش اور تکالیف کے ذریعے اپنا قرب عطا کرتا ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس المئے میں ایک گہرا راز محسوس ہوتا ہے۔
افسوس! افسوس! فرشتوں نے شہادت حسین کا اعلان کرتے ہوئے شدت غم سے ماتم کیا۔ کربلا کے میدان میں انہوں نے خیمے نصب کیے اورحکم الٰہی کے تحت تمام تکالیف برداشت کیں۔ آج امیرالمومنین کربلا کے میدان میں تشریف لائے ۔ ان کی تقدیر انہیں گھیرے تھی اور وہ انہیں شہادت تک لے گئی ۔ امام حسین کی شہادت دیکھتے ہوئے تمام انبیاء زارو قطار روئے ۔ زمین و آسمان تھر تھرا اٹھے فرشتے اور ساکنان عرش بھی شریک گریہ ہوئے ۔
۔۔باب سوئم۔۔
یا علی ! یاعلی! یتیموں پر کیا گزری ۔ یا امام یہ حکم الٰہی تھا جو تسلیم کیا گیا۔ موت نے یہ جدائی ڈال دی۔ بی بی (سیدہ فاطمہ زھرا ) نے ایک دفعہ کنکر اور پتھر ایک برتن میں ڈال کر آگ پر رکھ دیئے مگر جن کے لئے یہ کیا گیا وہ آج ایک خونریز معرکے میں برسرپیکار ہیں۔
۔۔باب چہارم۔۔
1۔ خاک کربلا ایک غیر معمولی فضا کے ساتھ شبنم آلود ہو گئی۔ اولادِ اسد اللہ حضرت علی کو اسی جگہ شب بسر کرنا تھا ۔
2۔ اے یزید اولاد علی کے ساتھ بُغض ختم کر دے تو وہ مقام و مرتبہ حا صل نہیں کر سکتا جو امام حسین کا مقدر ہے۔
3۔ افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے ذریتِ علی سے بغض رکھا تھا اور یزید کے ساتھی بنے۔
4۔ اے بھائی لشکرِ یزید سے دور رہ جو اولادِ علی سے بغض رکھتے ہیں۔
5۔ کوفیوں نے یزید کا ساتھ دے کر اچھا نہیں کیا۔ ان پلید لوگوں نے میدان میں امام عالیمقام کا محاصرہ کر لیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہو گئی۔
6۔ کوفیوں نے آپ کو خط لکھے اور خدا کی قسمیں دیں۔ اپنا آقا نامزد کرتے ہوئے ایک دفعہ تشریف لانے کو کہا۔
7۔ اب یہی کوفی کربلا میں آپ کو پانی دینے سے روک رہے تھے اور امام کے شہزادے مولا علی مشکلکشاکو خیام سے باہر آکر یاد کر رہے تھے۔یارسول عربی ان مشکل حالات میں ہماری مدد فرمائیے۔
8۔ صبح ایک پرندہ کربلا سے مدینہ آیا اور روضہ رسول پر فریاد کی کہ میں نے آہنی ہتھیار دیکھے ہیں۔ اے میرے آقا محمد عربی ،امام کی مدد فرمائیے۔
9۔ صبح ایک پرندہ کربلا سے روضہ رسول پر آیا اور کہا؛ " بہادر امام دشمنوں کے نرغے میں ہیں۔ محمد عربی ان کی مدد کیجیے۔
10۔ آج صبح ایک پرندہ مدینہ آیا جس نے کل کربلا سے رختِ سفر باندھا تھا۔ جس نے کہا،
" امام حسین خون میں لت پت انتہائی افسوسناک حالت میں ہیں اور آپ کے تمام ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔؛؛۔
11۔ کربلا میں شہزادے کے خطبات گونج چکے تھے جن کے بعد سلطانِ کائنات کے سب جانثار بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔
امام تمام دن میدان میں رہے۔ آپ نے تمام دن شختیاں برداشت کیں۔ افسوس آپ کو اس ویران بیابان میںرہنا پڑا۔
اے کونج! صد افسوس کے ساتھ جب تو مدینہ جائے تو میرے نانا کو میرا سلام کہنا اور کہنا میرے تمام ساتھی ساتھ چھوڑ گئے۔ میں اکیلا رہ گیا۔ مولا رحمت کی بارش برسا۔
صد افسوس ! امام سارادن دشتِ بلا میں رہے۔(روضتہ الشہداء کی ایک روایت کے مطابق امام عالیمقام کے خون اطہر کو ایک پرندے نے اپنے پروں سے مس کیا اور روضہ رسول اکرم جا کر اس افسوسناک سانحہ کی خبر سنائی ۔ وہ پرندہ متعدد جگہوں پر اُڑا اور جہاں جہاں اس خون اطہر کے قطرے گرے وہاں وہاں یادِ شہید کربلا میں محافل و مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
شاہ صاحب نے ان اشعار میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۔۔باب پنجم۔۔
1۔ امام حسین کے ساتھ نہ ان کے بڑے بھائی امام حسن تھے اور نہ کوئی اور جانثار ساتھی ان کا آبائی وطن بھی ان سے دور تھا۔اے یزید کیا ان حالات میں بھی تیرا امام پر حملہ کرنا ضروری تھا؟
2۔ افسوس ! اگر لشکر امام حسین میں امام حسین میں امام حسن بھی ہوتے تو اپنے برادر صغیر کے گرد اسطرح رہتے جیسے شمع کے گرد پروانے رہتے ہیں۔ دشمنوں کے حملوں کا کامیابی سے دفاع کرنے کے لئے امام عالیمقام کا مدد گار اب کون رہ گیا ہے۔
3۔ میدان جنگ میں تمام جنگجو بہادر نہیں ہوتے۔ صرف وہی شہادت پاتے ہیں جن کے نزدیک شکست شکست باعث خفت ہے۔
4۔ صرف وہی اپنے آپ کو آلات حرب سے مزین کرتے ہیں جنہیں دنیا میں رہنے کی ہوس ہوتی ہے۔ درحقیقت وہی بہادر ہے جو ان کے بغیر جنگ میں حصہ لیتا ہے۔
5۔ اے بہادر انسان! اگر تو فتح کا اتنا ہی خواہشمند ہے تو دین سے تمام شکوک و شبہات نکال دے۔ اپنے دشمن کو دوبدو لڑائی میں مصروف رکھ۔ اس پر تلوار سے حملہ کر اور اپنا دفاع بھی مت چھوڑ ۔ اگر تمہاری تلوار تمہارے دشمن سے ٹکرا گئی تو تم ایک بہادر آدمی گردانے جاؤ گے۔
6 حر امام کے پاس آیا ۔ وہ ایک بہادر اور جانباز انسان تھا۔ اس نے کہا کہ میں پروانے کی مانند شمع کا عاشق ہوں۔ اے بہادر آقا آپ کے جدپیغمبراسلام کی رضا کی خاطر میں آپ پر اپنا سر قربان کرنا چاہتا ہوں جو کہ باعث عظمت ہے۔
7۔ حر کی ہدایت اس کا مقدر تھی ۔ وہ ظالم فوج چھوڑ کر امام کے لئے لڑنے آیا۔ اس نے امام کی دست بوسی کی اور کہا کہ میں خود کو آپ پر قربان کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کی وسعت سے ذیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ میں آپ کے لئے ہر ممکن کام کروں گا۔ امام اور یہ شیر دل حُر دونوں ہی دوران جنگ شہید ہو گئے۔
8۔ بہادر امام ایک بہت قیمتی خود پہنے میدان جنگ میں واضع کھڑے رہے۔ مقدس امام کے خود میں جواہر جڑے تھے۔ ان کی دستار مبارک عنقریب خون آلود ہونے والی تھی۔
9۔ امام کے دندان و ریش مبارک خون سے تر ہو کر ایک پھول کا منظر پیش کر رہے تھے۔ آپ کی دستار مبارک میدان جنگ میں چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی تھی۔ بروز حشر امت محمدیہ کے درمیان امام کی والدہ محترمہ آپ پر فخر کریں گی۔ امام مٹی میں ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔
10۔ امام کی ریش اطہر خون سے سرخ ہو گئی۔ آپ کے دندان مبارک موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ آپ کی پیشانی ماہِ کامل کی طرح روشن تھی۔ اللہ آسمانوں کا نور ہے اور اس نور کی زمین پر جھلک امام کی پیشانی میں نمایاں تھی۔ امام کے چہرہ اقدس پر سجدوں کے نشان نمایاں تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ آپ کے جسم اقدس سے کربلا کے کنکر دور کر رہی تھیں اور آپکے والد علی مرتضیٰ آپ کے زخموں سے خون صاف کر رہے تھے۔ خالقِ حقیقی نے شہادت امام کے باعث امت محمدیہ کو بخش دیا۔
11۔ میدان کربلا خون سے بھر گیا۔ امام کے گھوڑے کے قدم بھی خون میں ڈوبے تھے۔ سورج مغرب کی جانب ہو گیا تو بھی امام حملہ فرما رہے تھے۔
12۔ امامؑ نے کمر کے گرد تلواریں سر پر دستار باندھی تھی۔ امام نے میدان جنگ میں اپنے آبائے کرام کی بہادرانہ روایت کو برقرار رکھا۔

آج امام میدان جنگ سے نہیں لوٹے۔ اے مومنو! رو ، پیٹو، آپ کے پاس نہ خوراک تھی نہ پانی اور نہ ہی وہاں بارش ہوئی۔ وہ نوراتیں اور دس دن ایک سخت لڑائی میں مصروف رہے۔ امام کا گھوڑا خون سے سرخ زین باندھے تھا۔ شیر شہزادہ(حضرت قاسم) بھی شہید ہو گئے۔مومنو! رو، پیٹو۔
۔۔باب ششم۔۔
1۔ سید نا امام حسین کی جنگ تمام جہاں کے ساتھ امام حسن نے بھی سنی دوران جنگ سیاہ پروں والے پرندے قطار اندر قطار اڑتے رہے۔ یقینا امام نے اس کارعظیم سے خود کو اپنے والدین کو اور اپنے آباؤ اجداد کو ایک عظیم الشان منصب عطا کیا۔
2۔ مخلوق الٰہی کی تین اقسام نے مقدس امام پر گریہ کیا۔ انسان آبادیوں میں، ملاٹک جنتوں میں اور حیوانات جنگلوں میں مقدس امام کو روئے۔ پرندوں نے پیارے امام کے دنیا سے تشریف لے جانے کی خبر سن کر خود کو زمین پر گرا دیا۔
3۔ اے شہزادے! آپ جہاد کے شیدائی ہیں۔ جب تک آپ زندہ ہیں، خود کو دشمنوں کی تلواروں کی دھار سے جام شہادت نوش کرنے کے لئے آمادہ رکھیں۔ یہ چیلیں صدیوں سے انسانی گوشت کی بھو کی ہیں۔
4۔ ان مقدس ہستیوں نے اپنے قدم کبھی زمین پر نہ لگائے تھے۔ دشمنوں کی تلوار نے ان گھوڑوں کی زین کاٹ ڈالی جس کے باعث شہزادے زمین پر گر پڑے۔ ان چیلوں نے آپ کے تشریف لاتے ہی آپ کے ٹکڑے کرنے شروع کر دیئے۔
5۔ جیساکہ پہاڑوں پر بکریوں کے ریوڑ ہوتے ہیں ویسے ہی صحرائے کربلا ان چیلوں سے بھراتھا۔ یہ اِدھر ُادھر جارہے تھے اور لڑائی کر رہے تھے۔ شہداء کی ازواج اپنے شوہروں کے گہرے غم میں مبتلا تھیں۔ وہ سیاہ لباس پہنیں گی۔
6۔ چیلوں کا کوئی ضابطہ حیات نہیں ہوتا۔ یہ جنگوں کی پیاسی ہیں۔ میدان کربلا میں یہ امام حسین اور امام حسن کے صاحبزادے اور ان کے جانثار ساتھیوں پر اڑتی رہیں۔ یہ بہت خوش تھیں۔
7۔ چیلیں خوراک کی تلاش میں وسیع علاقے میں گھومتی ہیں۔ یہ سرگو شیوں میں ایک دوسرے سے میدان جنگ کی مسافت اور جگہ پوچھتی ہیں۔ انہوں نے بہادروں کے لشکر کا معائنہ کیا اور بزدلوں کو قطع نظر کیا۔
8۔ چیل گائے کا گوشت نہیں کھاتی۔ وہ خود والے بہادر سروں کی تلاش میں رہتی ہے۔
9۔ اے چیل! شہزادے کی آنکھیں نہ نکال نہ ہی ان کا گوشت کھا جب کہ تو ان کے لشکر پر آئے جو کہ میدان کربلا میں ریت میں دیا تھا۔ امام عالیمقامؑ کو قبل ازشہادت 909 زخم آئے۔ گزشتہ رات آپ کو آپ کی والدہ معظمہ نے روتے ہوئے خدا کے سپرد کیا تھا۔
10۔ اے چیل! تیرے پر گر جائیں اور تجھ پر رعشہ طاری ہو جائے کہ تو نے شہزادے پر پھول نہیں برسائے۔
11۔ چیلوں نے کافی فاقہ کشی کی ہے۔ جب سے بہادر لوگ جوان ہوئے اور ان کا پسندیدہ فعل جہاد ہے۔ ان چیلوں کو اب فکر خوراک نہیں رہی۔
12۔ جہاد کے شوقین بہادر جنگجونہیں رہے۔ امام کے سامنے کربلامیں سب نے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا مقصد ہمیشہ راہ خدامیں جدوجہد کرنا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد حور ان جنت نے ان کی سہرابندی کی اور ہار پہنائے۔
13۔ یہ سب لوگ مسلح جنگجو تھے۔ ایک بھائی، دو بھتیجے ان کے اعزا اور مخلص دوست، اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنے دشمنوں کو مبارزے میں شکست دے دی۔ ان شہدا کو حوروں نے ہار پہنائے اور سہرا بندی کی۔
14۔ شہدا کا مقام جنت ہے۔ ان مقدس نفوس کو فردوس بریں میں خوش آمدید کہا گیا۔ فنا فی اللہ مقام کے بعد یہ اس مرتبہ اعلیٰ میں داخل ہوئے۔ اے پروردگار! اپنے احسان سے مجھے ان دمکتے چہروں کی زیارت عطا فرما۔
15۔ جو سیدنا امام حسن اور امام حسین سے عقیدت ہمدردی نہیں رکھتے وہ خالق وربّ جبّار کے قہر سے نہیں بچ سکیں گے۔
امامؑ کا ماتم کرو۔ شہدا کا ماتم کرو۔ تمہاری آنکھیں ان کے غم میں خون کے آنسو کیوں نہیں بہاتیں۔ جو امام کی سرداری کے قائل ہیں وہ اشکبار آنکھوں سے امام کا ماتم کریں۔ امام کاماتم کرو۔
اشعار شاہ بھٹائی سے درس حیات:
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اشعار میں حقائق و معارف کے جو قلزم بند کئے ہیں وہ سب کے سامنے عیاں ہیں۔ فلسفہ شہادت حسین کے متعلق گفتگو کرنا امر محال ہے۔اسلام کی بقاء شہادت حسین سے ہے۔ جوہر پیغام الٰہیٰ امام عالیمقام ہیں۔ امام عالیمقام نے فرمایا:
ان کانَ دینَ ُمحمد اً لَم یَستَقِیم اِلا بِقَتَلِی یا سُیوفُ خُذِینی
اگر کبھی بھی دین محمدمیرے قتل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا تو اے تلوارو آؤ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔
امام عالیمقام نے اس شہادت عظمیٰ سے دین محمد کو قائم کیا ہے۔ اسوہ شبیری سنت نبوی ہے۔ تمام اولیائے کرام نے اسوہ حسینی کا درس دیا ہے اور اپنے اپنے الفاظ میں آپ کو بے انتہا خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

سانحہ کربلا اور اس کے نتائج کے متعلق کہے گئے اشعار کھربوں سے بھی بڑھ کرہیں اورہنوز شعرائے کرام و عارفین عظام نواسۂ رسول کی بارگاہ میں اپنے اپنے انداز سے، اپنے اپنے الفاظ میں سرخروئی حاصل کر رہے ہیں۔
شہادت حسین اور اس کے نتائج کے متعلق بتاتے ہوئے مخبر صادق نے فرمایا،
ان لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لاتبردابدا
بے شک حسین کے قتل سے مومنوں کے دلوں میں ایک حرارت پیدا ہو گی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔
قتل حسین کی یہی حرارت اسلام کی بقا کا باعث ہے اور دین محمدی اسی حرارت سے توانائی لے رہا ہے۔ یہی حرارت جب قال سے حال میں آتی ہے تو کنکر کوگہر بنا دیتی ہے۔ بندئہ خاکی کو ہمسایہ جبریل امیں بنا دیتی ہے۔ انسان کو ولایت اور سلوک الی اللہ سے روشناس کراتی ہے۔
حضرت شاہ صاحب نے اپنے دیوان ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں متعدد مقامات پر اہل بیت اطہار کا تذکرہ کیا ہے۔ اسوہ شبیری کو مرکزی تخیل بناتے ہوئے سندھ کی لوک داستانوں کو نہایت موثر اور دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ جس کے باعث آپ کا دیوان نہ صرف علم و ادب کا انمول خزینہ ہے بلکہ سندھ کی تہذیب و ثقافت اور روایت و تاریخ کا بھی مستند ذریعہ ہے۔
عمر سومرو اور ماروی کی داستان ہو یا سوہنی مہینوال کا قصہ، خیرو شر کا ٹکراؤ ،حسینیت اور یزیدیت کا مبارزہ ہمیشہ عصری داستانوں میں باطنی طور مضمر ہے۔
شاہ صاحب کے کلام کے بغور مطالعے سے نہ صرف آپ کے قادر الکلام شاعر ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ کے ایک مستند مؤرخ ، باعمل مسلمان اور متبحرو جید عالم دین ہونے کا ثبوت بھی سامنے آتا ہے۔ آپ نے اپنے اشعار میں بکثرت آیات قرآنی، احادیث نبوی کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی کے
ادبی الفاظ استعمال کئے ہیں، جو آپ کے وسیع مطالعہ کے آئینہ دار ہیں۔
حضرت شاہ صاحب نے بنی نوع انسان کو فنا و بقا کا مؤثر درس دیاہے۔ خود آپ نے اپنے کلام میں حقیقی فنافی اللہ، سید الشہداء امام حسین کو بے مثال خراج عقیدت پیش کیا اور حسینی فلسفئہ حیات کو اسلام کی نشاط ثانیہ کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے، جس نے نہ صرف آپ کے نام بلکہ آپ کے کلام کو بھی لازوال عالمگیر شہرت عطا فرمائی ہے جو رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کو چراغ ہدایت ہے۔
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا لوح مزار:
شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعر ہفت زبان تھے۔ آپ نے نہ صرف سندھی بلکہ عربی اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اشعار کہے ہیں۔ آپ کی فارسی کی ایک رباعی آپ کا لوح مزار ہے جس میں آپ نے ائمہ اہل بیت کی مدح سرائی کی ہے۔
گل محمد، گل علی، گل فاطمہ خیرالنسائ
گل حسن ، گل حسین، گل بود زین العبا
گل باقر و گل جعفر و گل موسیٰ کاظم، رضا
گل تقی ، گل نقی، گل عسکری مہدی، خدا
اس رباعی میں آپ نے چہار دہ معصومین کو گلستان وحدت کے مہکتے پھول بتایا ہے اور حضورنبی کریم سے لے کر امام محمد مہدی آخر الزمان تک گلدستۂ عصمت و طہارت کا انتہائی خوبصورت تعارف کرایا ہے۔


شاہ عبداللطیف بھٹائی اور یاد شہید کر بلا

الذولفقار کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کے لاڈلا شاہنواز بھٹو �

الذولفقار کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کے لاڈلا �

الذولفقار کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کے لاڈلا بیٹے ، شاہنواز بھٹو



شاہنواز بھٹو کی برسی کے موقع پر زندگی سے متعلق رپورٹ
سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے شاہنواز بھٹو کی بائیسویں برسی امسال بھی لاڑکانہ میں اٹھارہ جولائی کو منائی جارہی ہے یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والا شاہنواز بھٹو پراسرار حالات میں انتقال کر گیا اور اس کی موت کی حقائق کاعوام کو پتہ نہ چل سکا-
ذوالفقار بھٹو اور نصرت بھٹو کے چار بچوں میں انتہائی ذہین شاہنواز بھٹو تھے اس کا نام بھی ذوالفقار بھٹو نے اپنے والد شاہ نواز بھٹو کے نام پر رکھا تھا جو ریاست جوناگڑھ کے دیوان ( وزیراعظم ) تھے اور اسی شاہ نواز خان کے کہنے پر جوناگڑھ کی حکمران نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا لیکن یہ الحاق نہ ہوسکا اور بھارت نے وہاں پر اپنے افواج بھجوا کر جوناگڑھ ریاست پر قابض ہوگئے شاہ نواز بھٹو نے سندھ کے متنازعہ رہنما جی ایم سید کے ساتھ مل کر پہلی مرتبہ سندھ پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی رکھی تھی -
بے نظیر بھٹو کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی تھی بعد میں اعلی تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے اور آکسفورڈ میں ہی زیر تعلیم تھے کہ اس وقت کے ملٹری چیف ضیاء الحق نے ان کے والد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت سے برطرف کرکے ایک مقدمے میں پھنسا دیا اس وقت دونوں بھائیوں مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے والد کی رہائی کیلئے بین الاقوامی طور پر مہم چلائی اور کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے ذوالفقار بھٹو کی رہائی کیلئے کوششیں کرنے پر زور دیاذوالفقار بھٹو کی رہائی کیلئے لیبیا اور فلسطین کے یاسر عرفات نے ضیاء الحق سے رابطہ بھی کیا اس دوران شاہنواز بھٹو اور مرتضی بھٹو نے والد کی بچائو کے مہم میں افغانستان کا دورہ کیا جہاں پر اس وقت روسی نواز کمیونسٹ حکومت قائم تھی اور انہی کی مدد سے انہوں نے الذوالفقار نامی تنظیم بنائی جنہوں نے ضیاء دور حکومت میںحکومت مختلف مختلف کارروائیاں بھی کیںتاہم دونوں بھائیوں کی والد کو بچانے کی کوششیں ناکام ہوئی اور ان کے والد کو 1979 میں پھانسی ہوئی -
ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے بعد الذوالفقار تنظیم کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی اور 1980 ء میں اسی تنظیم نے کراچی میں عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ کے دورہ پاکستان کے موقع پر بم دھماکہ بھی کرایا اس وقت بے نظیر بھٹو گھر پر نظر بند تھی جنہوں نے اس کی مذمت بھی کی 1981ء میں پی آئی اے کے جہاز کے اغواء میں بھی الذوالفقار کا ہاتھ تھا جہاز کے اغواء کے دوران ہائی جیکرز نے پاک فوج کے آفیسر لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر قتل کردیا ہائی جیکرز کو شبہ تھا کہ وہ جنرل رحیم الدین جو اس وقت ضیاء الحق کے قریبی ساتھی تھے کے بیٹے ہے ہائی جیکرز نے اپنے مطالبات میں پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جو اس وقت پورا کرلیا گیا - اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الذوالفقار کا نام مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا رہا -
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تقریبا چھ سال بعد بھٹو فیملی کو ایک اور صدمے کا سامنا کرنا پڑا 18 جولائی 1985 ء کو شاہنواز بھٹو فرانس کے شہر نائیس میں مردہ حالت میں پائے گئے اس وقت ان کے ساتھ ان کے روسی طرز پر بنے گئے فلیٹ میں ان کی افغان نژاد بیگم ریحانہ بھی موجود تھی - 27 سالہ شاہنواز بھٹو کی موت کو ابتداء میں منشیات کے زیادہ استعمال بتایا گیا لیکن بھٹو فیملی نے اسے قتل قرار دیتے ہوئے اس کی پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شاہنواز بھٹو کو زہر دیا گیا اور اس میں ان کی بیگم ریحانہ کو مورد الزام ٹھہرایا - بھٹو فیملی کااس وقت یہ موقف تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس قتل میں ملوث ہے اور ریحانہ نے بطور ایجنٹ ان کیلئے کام کرتے ہوئے اپنے شوہر کو قتل کیا- شاہنواز بھٹو کی موت کی طرح اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی پراسرار رہی اور اس کی موت کی حقائق کا پتہ نہیں چل سکا -
شاہنواز بھٹو کی بیوی ریحانہ شاہنواز کی موت کے سلسلے میں فرانسیسی حکام کو مشکوک تھی اور کچھ عرصے کیلئے اسے کسٹڈی میں بھی رکھا گیالیکن بعد میں اسے امریکہ جانے کی اجازت مل گئی شاہنواز بھٹو کی موت کے بعد مرتضی بھٹو شام چلے گئے اور الذوالفقار تنظیم بھی سائیڈ لائن ہوگئی کچھ عرصے بعدفرانسیسی حکام نے ریحانہ کو تفتیش کیلئے بلانا چاہا لیکن اس کی طرف سے مسلسل خاموشی کے بعد حکام نے ان کی غیر موجودگی میںسزا سنا ئی -

حامد میر کا کالم پڑھیے ذوالفقار علی بھٹو کے کارہایے نمایاں اور پرویزمشرف

حامد میر کا کالم پڑھیے ذوالفقار علی بھٹو کے کارہایے نمایاں اور پرویزمشرف
Jang Group Online

Sunday, April 6, 2008

بھٹوتو ہمارا پیرومرشد ہے اور ہمارا تو سیاسی قبلہ بھی یہی ہے

’ہم جیے بھٹو کہے جائیں گے‘

بھٹو کا مزار
کیچڑ سے لتھڑے پیروں اور کپڑوں اور مٹی سے اٹے چہروں کے ساتھ لوگ بھٹو کے مزار پر حاضری دے رہے تھے۔
پاکستان میں سیاست کو عوام تک لانے والے ذوالفقار علی بھٹو آج بھی ایک نظریے کے طور پر زندہ ہیں اور بینظیر بھٹو کے قتل نے اس نظریے کو اب ایک عقیدے میں بدل دیا ہے۔اس کا مظاہرہ ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے ان تمام نمائندوں نے دیکھا جو چار اپریل کو لاڑکانہ کے ایک پسماندہ دیہی علاقےگڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتیسویں برسی کی تقریبات کی کوریج کےلیے جمع تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی یہ پہلی برسی تھی جو بے نظیر بھٹو کے قتل بعد منائی گئی۔
اگرچہ تین اپریل کی شب ہونے والی برسی کی باقاعدہ تقریبات بارش کی نذر ہوگئیں جن سے پارٹی کے قائدین اور حکومتی عہدیداروں کو خطاب کرنا تھا اور ہر سال کی طرح بھٹو کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم دہرانے کی ریت بھی نبھانی تھی۔ لیکن اس سے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑا جو برسی کے لیے ملک کے طول و عرض سے وہاں پہنچے تھے۔


بہت سے لوگوں نے طوفان بادوباراں کے بعد گڑھی خدا بخش سے لاڑکانہ جانے والی سڑکوں پر تمام رات بدترین ٹریفک جام کے باعث اپنی گاڑیوں میں ہی بسر کی لیکن سرد رات ڈھلنے کے بعد اگلی صبح جب دن چڑھا اور ٹریفک کھلا تو لوگ مزار کے گرد دوبارہ جمع ہوگئے اور جیے بھٹو، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، زندہ ہے بی بی زندہ ہے کے نعروں سے فضاء گرماتے رہے۔

آندھی اور بارش کے بعد مزار کے اطراف کچی مٹی کیچڑ بن گئی تھی اور اسی کیچڑ سے لتھڑے پیروں اور کپڑوں اور مٹی سے اٹے چہروں کے ساتھ لوگ بھٹو کے مزار پر حاضری دے رہے تھے۔

حاضرین میں ہر عمر، جنس اور نسل کے لوگ شامل تھے۔ مرد، عورتیں، بچے، خواجہ سرا، سندھی، مہاجر، بلوچی، پنجابی، سرائیکی، پختون، قبائلی، بلتستانی اور کشمیری لیکن سب میں ایک شے مشترک تھی اور وہ تھی بھٹو خاندان سے محبت اور عقیدت۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق تو لاڑکانہ اور سندھ کے دوسرے حِصّوں سے تھا لیکن کئی افراد ایسے بھی تھے جو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ صوبہ سرحد، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔

میں نے ان میں سے کئی ایک سے بات کی اور یہی پوچھا کہ بھٹو سے ان کا ایسا کیا تعلق اور لگاؤ ہے کہ وہ دور دور سےگڑھی خدا بخش پہنچے ہیں۔ صوبہ سرحد کے علاقے لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مشعل خان آزاد نے مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’یہ تو ہمارا پیرومرشد ہے اور ہمارا تو سیاسی قبلہ بھی یہی ہے تو ہر سال ہم اس کا طواف ضرور کرتے ہیں‘۔



’اگر بھٹو نہیں ہوگا تو پاکستان نہیں ہوگا، چاہے وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اگر آپ بھٹو فیکٹر کو پاکستان سے نکال دیں تو پھر کوئی صوبہ کوئی ضلع پھر ایک پاکستان نہیں کہلائے گا۔‘

پنجاب کے علاقے خان پور سے آئے ہوئے غلام غوث نے کہا ’پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ایک مسلک بن چکا ہے، جیسے کوئی مذہب ہوتا ہے۔ ہمارا وہ (بھٹو) پیر ہے، ہمارا وہ مرشد ہے اور ہم بھٹو مسلک کے لوگ بن گئے ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اسی پر چلیں گی‘۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی تین سالہ بیٹی کا نام ثناء بے نظیر رکھ دیا ہے اور دونوں بیٹوں عثمان اور حسیب کے نام عثمان بھٹو اور حسیب بھٹو رکھ دیے ہیں۔

لاڑکانہ کے پڑوسی ضلع شکارپور کے نوجوان نے بھٹو خاندان سے محبت کی وجہ پیش کی کہ ’ہمارے بڑے تھے وہ بھی بھٹو صاحب سے محبت کرتے تھے اور ان کی موت کے بعد یہاں آتے تھے، ہم بھی ان کی طرح یہاں آتے ہیں اور جب تک زندہ ہیں جیے بھٹو کہتے رہیں گے‘۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس رتو ڈیرو کے ایک ستر سالہ بزرگ شخص کا کہنا تھا کہ ’ہم جو بھی ہیں سید، فقیر یعنی عوام، بھٹو صاحب ہم سب کی خوشحالی چاہتے تھے‘۔

بلوچستان کے علاقے خاران سے آئے ہوئے تیس سالہ شیر باز ساسولی کا کہنا تھا کہ ’بھٹو نے پوری قوم کو ایک راہ دی، اس کے بغیر یہ ایک اندھی قوم تھا، کوئی راہ ان کو نہیں مل رہا تھا یہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت تھا جس نے اس قوم کو اس ملک کو جتنے بھی قبائل تھا انہیں متحد کیا بھٹو نے‘۔



پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آئے ہوئے پینتیس سالہ شخص نے کہا ’بھٹو نے ہم کشمیریوں کو جینا سکھایا، ہم مرتے دم تک اسکے پیروکار رہیں گے اور اس مزار پر حاضری بھرتے رہیں گے‘۔

پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فرہاد شباب آفریدی نے کہا ’بی بی اور ان کے خاندان کی اتنی قربانیاں ہیں کہ آنے والا نسل بھی پاکستان کو قائم اور آباد رکھے گا‘۔

گلشن حدید کراچی سے آنے والے پینتالیس سالہ بدرالدین نے جب بات شروع کی تو وہ رو پڑے۔ ’بھٹو صاحب کے ساتھ جو لوگ والہانہ محبت کرتے ہیں، یہ جواب ہے بھٹو کا غریبوں کے ساتھ، مظلوموں کے ساتھ محکموں کے ساتھ والہانہ محبت کا۔ بھٹو صاحب نے اس سے بڑھ کر محبت کی اور جو محبت کا تسلسل ہے وہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا‘۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی باگ ڈور اب بھٹو خاندان کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ آصف علی زرداری کے پاس ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران نئی قیادت کے فیصلوں کو پارٹی سے وابستہ لوگ گہری نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً خان پور کے غلام غوث نے کہا کہ ’آصف زرداری صاحب کے آنے کے بعد ہمیں خدشات تھے کہ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا، لیکن الحمد للہ جس طریقے سے انہوں نے پارٹی کو چلایا ہے اور جتنی دانشمندی کے ساتھ فیصلے کئے ہیں وہ قابل تحسین ہیں‘۔

لیکن لاڑکانہ کے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ’زرداری صاحب سے امیدیں اچھی ہیں مگر وہ ایم کیو ایم سے مل گیا ہے یہ بات اس کی اچھی نہیں ہے اگر وہ سندھ میں خود حکومت چلاتے تو اچھا ہوتا‘۔

وہاں موجود کراچی کے چھیالیس سالہ شمس الدین سومرو نے فوری مداخلت کی۔ ’میں نے ایم آر ڈی کی تحریک میں جیل کاٹی ہے، جیسے بھائی نے کہا کہ آصف زرداری ایم کیو ایم سے مل گئے ہیں تو یہ چیز نہیں ہے وہ تو محترمہ کی پیروی کر رہے ہیں، ایم کیو ایم سے مفاہمت ہماری پارٹی کے مفاد میں بھی بہت اچھا قدم ہے اور صوبے اور ملک کے مفاد میں بھی ہے‘۔

پارٹی کی نئی قیادت کے بارے میں لکی مروت کے مشعل خان آزاد کی دلیل بالکل الگ تھی۔ ’جب تک بھٹو صاحب کا مزار ہے اس مزار سے انوار اٹھتے رہیں گے، ہمارا ایک نعرہ ہوتا ہے جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا، پارٹی کی قیادت چلتی رہے گی چاہے وہ جس کے پاس بھی ہو، یہ تو پھر آصف زرداری ہیں جو محترمہ کے شریک حیات رہے ہیں‘۔



BBCUrdu.com

Saturday, April 5, 2008

بینظیر بھٹو:منفرد سیاسی شخصیت کی مالک

بینظیر بھٹو:منفرد سیاسی شخصیت کی مالک

بینظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں
پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔

وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور جمعرات کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔

اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔

بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔

بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔

تاہم 1988ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماؤں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔

لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔

بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔

جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔

علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔

بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔

بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور اس سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔

بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔

بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔

خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔

بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔

مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔

اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔



BBCUrdu.com

ذوالفقار علی بھٹو پر دستاویزی ف

ذوالفقار علی بھٹو پر دستاویزی فلم

ذوالفقارعلی بھٹو
ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی چار اپریل کو منائی جائے گی
اسلام آباد کے نیشنل لائبریری آڈیٹوریم میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بنائی گئی دستاویزی فلم کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔

فلم کی افتتاحی تقریب ذوالفقار علی بھٹو کی اٹھائیسویں برسی کی ہفت روزہ تقریبات کا حصہ ہے، جو چار اپریل کو منائی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے بارے میں یہ فلم صحافی جاوید ملک نے پارٹی کی مرحوم سربراہ بینظیر بھٹو کی ہدایت پر تیار کی ہے۔

دستاویزی فلم میں ذوالفقار علی بھٹو کے اہل خانہ کے علاوہ ان کے رفقاء کار اور ان لوگوں کے انٹرویوز ریکارڈ کیےگئے ہیں جو انکی اسیری سے لے کر پھانسی کے دنوں تک مختلف حوالوں سے ان کے قریب رہے۔ان میں سابق جیل حکام، وکلاء اور فوجی افسران بھی شامل ہیں۔

فلم کی افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ’ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اور موت کا مقصد نظام کی تبدیلی ہے اور یہی مقصد لیکر ہم حکومت میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک کےلیےذوالفقار علی بھٹو نے قربانی دی اسے ہم کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور ملک مضبوط اس وقت ہوگا جب ادارے مضبوط ہوں گے۔ انہوں نےکہا کہ ان کی جماعت انیس سو تہتر کے آئین کو اسکی روح کے مطابق بحال کرے گی‘۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سرکاری حکام سے کہا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ’مخدوم‘ کا خاندانی لقب استعمال نہ کیا جائے اور انہیں صرف سید یوسف رضا گیلانی کہہ کر پکارا جائے۔

اسلام آباد کے نیشنل لائبریری آڈیٹوریم میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بنائی گئی دستاویزی فلم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ انکے جد امجد کو مخدوم کا خطاب ان کی دین کے لیے خدمت کے عوض دیا گیا تھا جبکہ وہ خود سیاستدان ہونے کے ناطے ایک عوامی خدمت گار ہیں لٰہذہ وہ ’مخدوم‘ کا خطاب اپنے نام کے ساتھ لگانا نہیں چاہتے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’وہ اوران کی جماعت بینظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور حکومت کے ذریعے لوگوں کو سہولیات پہنچائیں گے۔‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے وزراء سے کہا ہے کہ وہ تمام وزارتوں اور محکموں کی موجودہ صورتحال سےعوام کو فوری طور پر آگاہ کرنے کا بندوبست کریں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ حکومت ہمیں کن حالات میں ملی ہے

BBCUrdu.com

بھٹو زندہ ہے:’پرانے حقائق، نیا انداز‘وسعت اللہ خان

بھٹو زندہ ہے:’پرانے حقائق، نیا انداز‘

ذوالفقار علی بھٹو
دستاویزی فلم میں بھٹو صاحب کے بچپن سے وفات تک کی زندگی کو ایک سرسری مگر مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے
ذوالفقار علی بھٹو کی انتیسویں برسی کے موقع پر ان کی زندگی اور کامیابیوں اور ناکامیوں پر مبنی جو دستاویزی فلم ریلیز کی گئی ہے اس کی اچھی بات یہ ہے کہ سوا دوگھنٹے کی اس فلم میں بھٹو صاحب کی جھلکیاں دس منٹ کے لگ بھگ ہیں جبکہ باقی وقت ان کی زندگی کے مختلف ادوار اور پہلوؤں پر دوسروں کی زبانی روشنی ڈالی گئی ہے۔

ْبھٹو صاحب کی کہانی کو بے نظیر بھٹو، بھٹو صاحب کے بھانجے طارق اسلام ، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر، جہانگیر بدر، قیوم نظامی، الٰہی بخش سومرو، پروفیسر غفور احمد، منو بھائی، حمید اختر، جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی، جنرل ریٹائرڈ حمید گل، جسٹس ریٹائرڈ صمدانی ( فلم میں ان کا پورا نام نہیں دیا گیا) ، جسٹس ریٹائرڈ ظفر مرزا، مؤرخ ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی اور اے جے بھرگری کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔

لیکن بطور ناظر فلم میں کئی ایسے لوگوں کی کمی محسوس ہوتی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے مختلف ذاتی، نفسیاتی اور عوامی پہلوؤں کو اور بہتر طریقے سے بیان کرسکتے تھے۔ مثلاً ڈاکٹر مبشر حسن جن کے گھر پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، معراج محمد خان جنہیں بھٹو صاحب ایک عرصے تک اپنا جانشین کہتے رہے، ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو جو بیرسٹری کے زمانے میں بھٹو صاحب کے ساتھ لندن میں بھی رہے، سندھ میں بھٹو کے دستِ راست غلام مصطفی جتوئی ، بھٹو صاحب کے معروف سوانح نگار سٹینلے وولپرٹ وغیرہ وغیرہ۔

دستاویزی فلم کا ایک بڑا حصہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں بیان و مباحثے پر مشتمل ہے جس سے پرانے حقائق نئے انداز میں تازہ ہوتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ یہ دستاویزی فلم خالص پروپیگنڈہ نہیں بلکہ اسے دیکھنے سے چالیس برس قبل کے پاکستان کے بارے میں کئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں اور کچھ تازہ سوالات بھی اٹھتے ہیں۔

تاریخی کمزوریاں
سکرپٹ میں بعض تاریخی کمزوریاں بھی ہیں مثلاً ایک جگہ کہا گیا ہے کہ بطور وزیرِ خارجہ بھٹو صاحب کی کوششوں سے چین نے پاکستان کو ساڑھے سات سو مربع گز علاقہ دے دیا۔حالانکہ یہ رقبہ ساڑھے سات سو مربع میل کے لگ بھگ تھا۔اسی طرح ایک جگہ کہا گیا کہ معاہدہ تاشقند پر پاکستان نے امریکی دباؤ میں دستخط کئے۔حالانکہ یہ معاہدہ سوویت یونین کی کوششوں سے اس زمانے میں ہوا جب امریکہ روس سرد جنگ عروج پر تھی چنانچہ امریکہ کس طرح ایک ایسے معاہدے پر دستخط کے لئے دباؤ ڈال سکتا تھا جو سوویت یونین کی کوششوں سے ہو رہا ہو۔

تاہم ممتاز صداکار طلعت حسین کی طاقتور آواز کے باوجود سکرپٹ کمزور ہے اور اکثر جگہ گفتگو اور مناظر آگے نکل جاتے ہیں اور سکرپٹ پیچھے رہ جاتا ہے۔ جو باتیں مختلف کردار کرچکے ہوں انہیں سکرپٹ میں دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن فلم میں ایسا بارہا ہوا ہے۔

ایڈیٹنگ اور آڈیو کے بھی مسائل ہیں بالخصوص بھٹو صاحب کی تقاریر کی آڈیو اکثر جگہ تکلیف دہ حد تک خراب ہے۔ حالانکہ ان دنوں تکنیکی اعتبار سے آواز بہتر بنانا کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

سکرپٹ میں بعض تاریخی کمزوریاں بھی ہیں مثلاً ایک جگہ کہا گیا ہے کہ بطور وزیرِ خارجہ بھٹو صاحب کی کوششوں سے چین نے پاکستان کو ساڑھے سات سو مربع گز علاقہ دے دیا۔حالانکہ یہ رقبہ ساڑھے سات سو مربع میل کے لگ بھگ تھا۔ اسی طرح ایک جگہ کہا گیا کہ معاہدہ تاشقند پر پاکستان نے امریکی دباؤ میں دستخط کیے حالانکہ یہ معاہدہ سوویت یونین کی کوششوں سے اس زمانے میں ہوا جب امریکہ روس سرد جنگ عروج پر تھی چنانچہ امریکہ کس طرح ایک ایسے معاہدے پر دستخط کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا جو سوویت یونین کی کوششوں سے ہو رہا ہو۔

تاہم یہ اس اعتبار سے ایک اچھی کوشش ہے کہ پہلی مرتبہ بھٹو صاحب کے بچپن سے وفات تک کی زندگی کو ایک سرسری مگر مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ورنہ اب تک بھٹو صاحب کی تقاریر کی وہی آڈیو اور وڈیوز موجود تھیں جو بھٹو کے پرستار اپنے اپنے طور پر اکھٹے کرتے رہے ہیں۔

یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ قائدِ عوام آرکائیوز کے نام سے یہ دستاویزی فلم کیا پیپلز پارٹی کا پروجیکٹ ہے یا کوئی پرائیویٹ کوشش۔



BBCUrdu.com

بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کر دیا گ

’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے۔۔۔‘

  ذوالفقار علی بھٹو
جب قتل کی ایف آئی آر انکے خلاف درج ہوئی توانہوں نے کہا تھا: ’پولیس نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔‘
’’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے
مگر وہ ابھی جاگتا تھا
کھبی ایک کاغذ پہ کچھ لکھ کر پرزے اڑاتا
کبھی مسکراتا
کبھی آسماں کی طرف دیکھتا
آسماں دو پہاڑوں کی میخوں پر اترا ہوا
اسکی چکی کے روزن سے ہنستا رہا
اور وہ دیر تک شیو کرتا رہا‘‘

’رات کے دو بجے‘ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر شاعر مسعود منور نے لکھی تھی۔

ایوان صدر کے غالباً پانچویں فلور پر دس گيارہ سال بعد جب تخت طاؤس نما صوفوں پر نشستہ بڑی بڑی وردیوں اور بڑے بیش بہا سوٹوں والوں کی موجودگي میں نہ جانے کہاں سے کوئی جیالا ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ لگاتا ہے تو نہ فقط پہلی قطار میں براجماں وی وی آئی پیز کے سوٹوں اور وردیوں میں سلوٹیں اور تیوریوں میں بل بھی پڑ جاتے ہونگے۔

یہی گذشتہ دنوں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں یوسف رضا گیلانی کے وزرات اعظمی کا حلف اٹھانے کے دن بھی ہوا، اور اس سے قبل قومی اسبملی میں ، اور یہی کچھ دو دسمبر انیس سو اٹھاسی کو بینظیر بھٹو کے تب کے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں حلف اٹھانے کے دن بھی ہوا تھا جب جیکب آباد کے ایک جیالے نے یہی نعرہ لگایا تھا۔ جس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے وقت صدر علام اسحاق خان نے اپنی ٹیلیویژن تقریر میں کچھ یوں اظہار کیا تھا ’شرپسند اور سماج دشمن عناصر ایوان صدر میں دندناتے پھر تے تھے‘۔

انیس سو سترہ کے روس میں زار کے محل میں بولشویکوں کے قبضے کے وقت شور شرابہ میکسم گورکی کو اچھا نہیں لگا تھا تھا اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں جیالوں کے ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کے نعرے بظاہر کسی جنرل کو نہیں مخدوم امین فہیم کو ناگوار گزرے۔ شاید ان کی شاعرانہ طبعیت یا کسی اور وجہ سے۔

تاریخ اگر دنیا کے کسی اور حصے میں خود کو دہراتی یا نہ دہراتی ہو لیکن پیارے پاکستان میں ’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘ بنی ہوئی ہے۔ ہر دس گیارہ سال کے بعد ایک بھٹو ختم کیا جاتا ہے، پھر اس کے نام پر حکومت آجاتی ہے، پھر حکومت ختم ہوتی ہے، پھر ایک دہائي کے جبر کے بعد پھر بھٹو کے نام پر حکومت۔ پھر وہی جبر پھر وہی کہانی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں عظیم قومی مفاہمت میں ضیاء اور بھٹو دونوں ہی اب ساتھ ساتھ زندہ ہیں۔

سنہ انیس سو چوہتر میں جب تب کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انکے ملتان کے دورے کے دوران پنجاب کے سابق آئی جی پولیس راؤ رشید احمد نے اطلاع دی تھی کہ احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کا لاہور میں قتل ہوگیا ہے اور احمد رضا قصوری اپنے والد کے قتل کی ایف ائی آر ان کے ( ذوالفقار علی بھٹو کے) خلاف درج کروانا چاہتے ہیں تو بھٹونے کہا تھا جس طرح وہ بحيثیت فریادی کہتے ہیں اس طرح ہی انکی آیف آئی آر درج ہونی چاہیے۔ جب نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر ان کے خلاف درج ہو چکی تو انہوں نے کہا تھا: ’پولیس نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔‘

بھٹو خود لنکنز اِن کے بیرسٹر ایٹ لاء اور کرمنل قانون کے ایک منجھے ہوئے وکیل تھے۔ انہوں نے کراچي میں مشہور ڈنگو مل فرم سے اپنی پریکٹس کا آغاز کیا تھا اس دوران اور اس کے بعد آزادانہ طور پر بھی قتل کے کیسوں میں تب کی سندھ چیفس کورٹ (بعد میں سندھ بلوچستان ہائیکورٹ) سے کئي اپیلیں جیت چکے تھے۔ انکے موّکلوں میں جیکب آباد کا ایک غریب نوجوان بھی شامل تھا جسے قتل کے ایک مقدمے میں ذاتی دشمنی کی بنا پر پھنسایاگیا تھا۔ جس کی سزا کیخلاف اپیل بغیر کسی فیس لیے بھٹو نے سندھ چیفس کورٹ میں لڑ کر جیتی تھی اور اپنے بیٹے کی بریت پر اس نوجوان کی غریب ماں نے بھٹو کو بہت دعائيں دی تھی۔ بھٹو کچھ عصرے تک ایس ایم لاء کالج میں پڑھاتے بھی رہے تھے جہاں حسن علی عبد الرحمان اور طفیل علی عبد الرحمان جیسے ممتاز وکلاء بھی اساتذہ اور پرنسپلز رہے تھے۔ حسن علی عبدالرحماں شیری رحمان کے والد اور طفیل علی عبد الرحمان چچا تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو جس وقت آئی جی پنجاب کو اپنے سیاسی مخالف نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر ان کے اپنے ہی خلاف کاٹے جانے کا مشورہ بڑے اطمینان سے دے رہے ہونگے تب بھی بحیثیت ایک فوجداری وکیل کے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا میرٹ کیا ہوتا ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی (تصویر بشکریہ جنرل خالد محمود عارف)

جو بات ذوالفقار علی بھٹو نہیں جان سکے تھے وہ یہ تھی کہ اسی ایف آئی آر میں محسن کش جنرل ان کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر کے چیف جسٹسز انوار الحق اور مولوی مشتاق جیسے ججوں کے ذریعے ان کا ’عدالتی قتل‘ کروائيں گے، جس سے باقی ماندہ پاکستان اور اس کی عدلیہ مہذب دنیا کی نظروں میں خوار و رسوا ہوجائيں گے۔ جیسے حبیب جالب نے ان دنوں کہا تھا:
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں
دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے
رسوا ہے وطن دنیا بھر میں۔‘

بھٹو کی راولپنڈی جیل میں سکیورٹی کے انچارج کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری تین سو تئيس دن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’آدھ گھنٹہ پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اور جیل ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ پر کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے ۔ بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کر دیا گیا۔ ان کی میت کو غسل دیا گیا جس کا بندوبست وہیں کرلیاگیا تھا۔ ایک فوٹوگرافر نے جسے ایک انٹیلیجنس ایجنسی نے بھیجا تھا ضرورت کے مطابق بھٹو صاحب کے چند فوٹو اتارے۔ ان تصویروں سےحکام کا یہ شک دور ہوگیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے‘۔

کرنل رفیع کے اس مشاہدے سے پاکستانی ایجنسیوں کی بیہودگی کا اندازہ خود ہی لگا لیجیے کہ وہ وہیں کھڑے ہیں جب ہرمرد کی شلوار اتار کر اس کی ’مسلمانی‘ دیکھا کیے۔ جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کی مسلمانی کا کھلی عدالت میں مذاق اڑایا اور ان کی ہر وقت ہزیمت کرتے رہے۔

بھٹو کی پھانسی سے ثابت ہو چکا ہے کہ ایک عدالتی قتل ہی تھا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے نو منتخب وزیر اعظم یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ پارلیمان سے ایک قرارداد کے ذریعے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر پاکستان کے عوام سے معافی مانگی جائے گي۔ لیکن بھٹو کا یہ عدالتی قتل پارلیمان نے تو نہیں کیا تھا (اور نہ ہی پارلیمان وجود رکھتی تھی سوائے سینیٹ کے )! بھٹو کے عدالتی قتل میں پاکستانی ریاست اور اس کے دو اہم ترین ستون فوج اور عدلیہ ملوث تھے۔ کیا وزیر اعظم پاکستانی ریاست کے سربراہ کی حییثیت میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف یا آنیوالے صدر، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے یہ معافی منگوا سکتے ہیں۔ کیا وہ بھٹو کے مقدمہء قتل کو پھر سے کھلوا سکتے ہیں؟



BBCUrdu.com

کرّم: دھماکے کے بعد فرقہ وارانہ جھڑپیں عبدالحئی کاکڑ

کرّم: دھماکے کے بعد فرقہ وارانہ جھڑپیں

کرم ایجنسی(فائل فوٹو)
کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں اب تک 250 افراد مارے گئےہیں
فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ قبائلی علاقہ کرم ایجنسی میں ہونے والے ایک بم دھماکے اور اس کے بعد شروع ہونے والی فرقہ وارانہ لڑائی میں دو افراد ہلاک اور اٹھارہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سنیچر کی صبح گیارہ بجےفوج کی نگرانی میں مسافر گاڑیوں کا ایک قافلہ صدر مقام پاڑہ چنار سے پشاور جا رہا تھا کہ لوئر کرم ایجنسی کے علاقے خار کلے کے قریب سڑک پر نصب بم ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ ان کے بقول دھماکہ میں ایک شخص ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔

عینی شاہدین کےمطابق اس واقعہ کے فوراً بعد خار کلے اور بلیش خیل گاؤں کے رہنے والوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپیں شروع ہوگئیں اور فریقین کے درمیان ہونے والی فائرنگ میں مزیدایک شخص ہلاک جبکہ تین دیگر زخمی ہوگئے۔

لوئر کرم ایجنسی کے اسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ مجیب خان نے رابطہ کرنے پر اس سلسلے میں کچھ بتانے سے انکار کردیا۔تاہم پاڑہ چنار ہسپتال کے ڈاکٹر اصغر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں اب تک دو لاشیں اور اٹھارہ زخمی لائے گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین زخمیوں کی حالت نازک ہے۔

دوسری طرف لڑائی رکوانے کے لیے جمعہ کو ضلع ہنگو سے پاڑہ چنار پہنچنے والے شیعہ اور سنی عمائدین پر مشتمل سولہ رکنی جرگے نے فریقین سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ جرگہ کے ایک رکن شاہ حسین خان نے بتایا کہ جرگہ میں شامل سنی رہنماؤں نے پاڑہ چنار میں جرگہ کے شیعہ ممبران سے رابطہ کر کے انہیں مقامی شیعہ رہنماؤں سے لڑائی روکنے کو کہا ہے جبکہ انہوں نے صدہ کے علاقہ میں موجود سنی عمائدین کیساتھ رابطہ قائم کرلیا ہے۔

کرم ایجنسی کا علاقہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز رہا ہے اور اس دوران فریقین کے درمیان تین دفعہ ہونے والی لڑائی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دو سو پچاس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں جبکہ مقامی افراد مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زیادہ بتا رہے ہیں۔


BBCUrdu.com

حاملہ امریکی مرد: ایک ’معجزہ‘

حاملہ امریکی مرد: ایک ’معجزہ‘
تھامس بیٹیی
’میں ایک مستحکم مردانہ شناخت بھی رکھتا ہوں۔‘
امریکہ میں ایک مرد جس نے دس برس قبل اپنی جنس تبدیل کروائی تھی، اب حاملہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا یہ بچہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

دس برس قبل جب تھامس بیٹیی ایک آپریشن کے ذریعے عورت سے مرد بنے تھے تو انہوں نے اپنے تولیدی نظام کو تبدیل نہیں کروایا تھا۔ اب تھامس، جو چونتیس برس کے ہیں، کا کہنا ہے کہ بچہ پیدا کرنا ان کا حق ہے۔

مسٹر تھامس کی بیوی نے ایک سپرم بینک سے حاصل کئے گئے سپرمز کو ایک سرنج کی مدد سے مسٹر تھامس کے جسم میں داخل کیا جس سے حمل ٹہرا۔
ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان کا حمل بالکل نارمل ہے۔

تھامس کا کہنا ہے کہ بچہ پیدا کرنے کی خواہش زنانہ یا مردانہ نہیں بلکہ ایک انسانی خواہش ہے اور ’میں ایک مستحکم مردانہ شناخت بھی رکھتا ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دس برس قبل جب انہوں نے جنس تبدیل کروانے کا آپریشن کروایا تھا تو اس وقت اپنے تولیدی نظام کو برقرار رکھا تھا کیونکہ وہ ایک دن بچہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔

مسٹر تھامس جو پچھلے پانچ برس سے اپنی بیوی نینسی کے ساتھ رہتے ہیں، کا کہنا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد گھر میں ماں اور باپ کا کردار تبدیل نہیں ہوگا اور وہ باپ ہی کا کردار ادا کریں گے۔



BBCUrdu.com

’صفدر ھمٰدانی۔۔ لندن : سابق وزیسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔�

’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘



اپریل کو موسم بہار کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن اسی اپریل میں خون رنگ پھول بھی شاخوں پر جھول جاتے ہیں۔فیض احمد فیض نے بھی جب یہ کہا تھا کہ، ’پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں‘۔ تو نہ جانے انکے ذہن میں یہ پھول بھی تھا کہ نہیں کہ جسے ایک آمر مطلق جنرل نے اپنی انا کی شاخ پر ایسے کھلا دیا تھا کہ آج اسکی خوشبو جمہوریت اور آمریت دشمن بستیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو سے ہماری عمر کے لوگوں کی محبت اور عقیدت ان کے اس نظریے کی وجہ سے تھی کہ جس کا مقصد حکومت عوام کی اور عوام کے لیئے قائم کرنا اور ان کے منہہ میں زبان دینا تھی۔

جنرل محمد ایوب خان ملک کے دوسرے صدر تھے جو 11سال اس منصب پرفائز رہے ۔انہوں نے 27 جنوری 1958کو صدر کا عہدہ سنبھالااور 25 مارچ 1969کو اقتدار جنرل یحیْ خان کے سپرد کردیا.صدر جنرل یحیْ خان نے سقوط ڈھاکہ کے 4 روز بعد20 دسمبر 1971 کو اقتدار چھوڑ دیا اور اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین اور سابق وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے چوتھے صدر بنے۔

1968اور1969میں جب ایوب خان اور یحیٰ خان کے خلاف بھٹو صاحب کی تحریک چل رہی تھی تو میں اسوقت لاہور کے ایف سی کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور یہ وہ کالج تھا جس کے طلبانے کبھی کسی تحریک یا ہڑتال یا مظاہرے میں حصہ نہیں لیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ایف سی کالج لاہور کے طلبا نے ہڑتالوں اور مظاہروں میں بہت بھر پور طریقے سےحصہ لیا اور صورت حال اس درجہ خراب ہوئی کہ جنرل شیر علی نے ایف سی کالج سے ملحقہ نہر پر باقاعدہ توپیں لگوا دیں کہ طلبا کالج سے نکل نہ سکیں۔

کالج کی انتظامیہ بھی یہی چاہتی تھی کی طلبا باہر نہ جائیں لیکن ہم سب دوست جن میں سید زادہ انجم انور،جمیل الدین راٹھور،طارق چوہدری،راجہ اعجاز اللہ،ندیم افضل اور دیگر ساتھی شامل تھے ہم نے ہیلی کالج آف کامرس کے طالب علم رہنما جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج کے ثمر خان سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم جلوس لیکر ہر طرح مال روڈ تک پہنچیں گے اور پھر یونہی ہوا کہ ہم نے طے کیا کہ نہر کے راستے جانے کی بجائے گلبرگ کی طرف سے جایا جائے۔

اسی دوران نیو کیمپس سے نکلنے والا جلوس بھی ایف سی کالج کے قریب پہنچ گیا لیکن پولیس نے سخت لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینک کر جلوس کو منتشر کر دیا تا ہم نیو کیمپس کے طلبا بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کسی نہ کسی طرح مال روڈ پر پہنچ گئے اور اسی طرح ہم سب ایف سی کالج سے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر کر مال روڈ پہنچے اور ایم اے او کالج سے افتخار فتنہ کی قیادت میں طلبا یہاں پہنچے جہاں جہانگیر بدر کی قیادت میں زبردست جلوس نکلا جس نے انتظامیہ کی نیندیں اڑا دیں اور پولیس نے ہر طرح سے مظاہرین کومنتشر کرنے کا تہیہ کر لیا۔

اسی دوران ثمر خان اور چند دیگر ساتھیوں نے مال روڈ پر واقع ‘‘راجہ وائن‘‘ کی دوکان کو آگ لگا دی تو پولیس نے بیدردی سے طلبا پر لاٹھی چارج کیا۔ مجھے اسوقت خدائی امداد کے طور پر معروف صحافی صالح ظافر نے اپنے ویسپا سکوٹر پر بٹھا کر وہاں سے نکالا اور اس طرح سے اس دن ہماری جان بچ گئی لیکن اگلے روز ہم میں سے بیشتر ساتھی مال روڈ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیئے گئے۔

ایف سی کالج کے ساتھیوں میں میرے علاوہ،جمیل الدین راٹھور،راجہ اعجاز اللہ اور کچھ دوسرے طلبا اور اسی طرح ہیلی کالج سے جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج سے ثمر خان اور کچھ اور طلبا کو شمع سینماکے سامنے کیمپ جیل میں رکھا گیا لیکن جلدہی ذاتی مچلکوں پر رہائی مل گئی۔

میں نے کالج کے بعد صحافت میں ایم کرنے کے لیئے جب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسوقت تک شعبہ صحافت پر جماعت اسلامی کی گرفت تھی اور شعبے کی صدر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے علاوہ مرحوم وارث میر اور مسکین علی حجازی کے نظریات و خیالات بھی جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتے تھے۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر تھے اور شعبہ صحافت کے ترقی پسند استاد مہدی حسن کی نوکری اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے معطل تھی۔ جامعہ پنجاب میں بائیں بازو کے طلبا کی قیادت اس وقت راجہ انور کر رہے تھے۔لہٰذا ہم سب نے مل کر مہدی حسن صاحب کو بحال کروانے کی تحریک چلائی اوربالآخر انکی بحالی پر جب تقریب منعقد کرنے کے لیئے مرحوم حنیف رامے کو مدعو کیا تو صدرشعبہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے رخصت لے لی تا ہم طلبا کے مشیر ہونے کے ناطے وارث میر صاحب نے اس تقریب میں شرکت کی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب پاک ٹی ہاؤس میں ہم نوجوان لکھاریوں کا گروپ خوب ابھرا تھا جن میں میرے علاوہ زاہد کامران،باصر کاظمی،حسن سلطان کاظمی،اختر کاظمی،شعیب بن عزیز،جاوید سید،راجہ اعجاز،محسن نقوی،اظہر سہیل،افضال سید،سلیم طاہر،ارشاد عرشی وغیرہ شامل تھے۔

پھر جب میں 1974میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوا تو اپنے ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کی وجہ سے ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا۔ یہاں بھی ایسے قلم کار ساتھی میسر آئے جنہوں نے اس آتش کو اور بھڑکایا جن میں اقبال فہیم جوزی،مرحومہ شائستہ حبیب،نسرین انجم بھٹی،ستار سید،افضال بیلا خاص طور پر نمایاں تھے۔

اسوقت کے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی یوں تو اپنے نظریات میں دائیں بازو کے فرد تھے لیکن ابن الوقتی کے فارمولے سے خوب آشنا ہونے کے باعث انہوں نے مزدور اور کسانوں کے لیے نغمات لکھ کر خود کو بائیں بازو اور ترقی پسند حلقوں میں بھی متعارف کروا لیا تھا لیکن جب آمر مطلق جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تو اس رات ذوالفقار علی بھٹو کی آخری پریس کانفرنس اور جنرل ضیاالحق کی پہلی کانفرنس میں نے خود ریکارڈ کی تھی اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے مجھے رات دفتر میں ہی رکنا پڑا اور مارشل لا کا سرکاری اعلان لاہور ریڈیو سے نشر کرنا پڑا۔

لاہور ریڈیو پر بیرونی تقریبات کی ریکارڈنگ کی ٹیم میں میرے علاوہ مرحوم عتیق اللہ شیخ، افضالبیلا،اقبال جوزی تھے اور ہمیں لوگ بھٹو صاحب کی تقاریر ریکارڈ کر کے نشر کیا کرتے تھے۔ ایسے میں جب بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا تو لاہور ریڈیو کے اسوقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے صدر دفتر اور مارشل لا انتظامیہ کو یہ کہہ کر کہ ہم پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں ہمیں لاہور سے ٹرانسفر کروا دیا۔ میرا اور عتیق اللہ کا تبادلہ حیدر آباد ہوا اور اقبال جوزی شاید کراچی بھیجا گیا۔

میں نے طے کر لیا کہ حیدر آباد نہیں جاؤں گا اب جو تگ و دو شروع کی تو میری اہلیہ ماہ پارہ کے ایک رشتے کے چچا بریگیڈئر جرار حیدر اسوقت چیف انسپکٹر آف آرمامنٹ تھے اور مارشل لا ڈیوٹی پر تھے،

لہٰذا انکی مدد سے تبادلہ حیدر آباد کی بجائے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن راولپنڈی تھری پر ہو گیاجو ریڈیو تراڑ کھل تھا جہاں اسوقت ہمارے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد عمر،پروگرام مینجر بشیر زیدی اسیر اور ترقی پنسد دوستوں میں طاؤس بانہالی،بشیر صرفی ،احمد ظفر اور فقیر حیسن ساحر شامل تھے۔

یہ ریڈیو تراڑ کھل پشاور روڈ پر سپریم کورٹ کی اس عمارت کے قریب تھا جہاں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ یہاں بھی ایک عجیب واقعہ ہوا جو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی کی ایک سچی کہانی ہے۔

ہوا یوں کے قائد اعظم یونیورسٹی کے میرے ایک ہمنام سٹوڈنٹ لیڈر بھی اسوقت راولپنڈی میں تھے اور فلش مین ہوٹل میں بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار سے ملا بھی کرتے تھے اور مقدمے کی سماعت سننے سپریم کورٹ بھی جایا کرتے تھے لیکن خفیہ والے ساری رپورٹ تو انکی لکھتے لیکن گاڑی کا نمبر میرا لکھ دیتے تھے۔
میرے ایک کالج فیلو اور بہت اچھے دوست سید زادہ انجم انور ان دنوں ‘‘دلائی کیمپ‘‘ سے تبدیل ہو کر راولپنڈی تعینات ہوئے تو انکے خفیہ محکمے نے انہیں پہلا کام یہ سونپا کہ ‘‘صفدر ھمدانی ‘‘ کو اٹھایا جائے۔

سید زادہ نے جب فائل دیکھی تو وہ میرے پاس تراڑکھل ریڈیو آئے اور باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ کیا اور وہ فائل بھی دکھائی جو انہیں کے محکمے کے ‘‘فدویوں‘‘ نے تیار کی تھی۔ وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ میں اس ایک غلطی پر بچ گیاکہ فدوی نے ہر بار فائل میں لکھا تھا‘‘صفدر ھمدانی،سٹوڈنٹ لیڈر ریڈیو پاکستان‘‘

میرا قیام لالہ زار میں تھا جہاں میرے قریب ہی پی ٹی وی کے شعبہ خبر کے ایڈیٹر مرحوم خالد محمود ربانی بھی رہتے تھے جو اکثر رات کو ٹی وی سے واپسی پر میرے ہاں آ جاتےتھے اور ہم دیر تک حالات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے۔

میری اہلیہ ماہ پارہ ان دنوں پی ٹی وی راولپنڈی ،اسلام آباد میں نیوز کاسٹر تھیں اور اسلام آباد ہی کے ‘‘لوک ورثہ‘‘ میں محقق کے طور پر کام کر ہی تھیں اور 3 اور 4 اپریل 1979کو اپنی تحقیق کے سلسلے میں ایبٹ آباد میں تھیں۔ اسی 3 اور 4 اپریل 1979کی درمیانی رات جب خالد محمود ربانی کوئی رات دس بجے میرے ہاں آئے تو انہوں نے بتایا کہ آج علی الصبح بھٹو صاحب کو پھانسی ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا آپ کا قیافہ ہے یا کوئی یقینی بات۔ وہ بولے کہ نہیں ،دراصل آج دفتر میں کچھ احکامات ایسے ہیں جن سے یہی لگتا ہے کیونکہ اسلم کیمرہ مین کو بھی فوج نے بلوایا ہے۔(یہ وہی اسلم کیمرہ مین ہے جس نے بھٹو صاحب کے تمام آخری لمحات کی فلم بنائی تھی جسے بعد میں آئی ایس پی آر میں ضائع کر دیا گیا تھا)

چار اپریل کی صبح کوئی چار بجے کے قریب میں اور خالد محمود ربانی جب راولپنڈی جیل کی طرف گئے تو فضا یوم عاشور کی طرح سوگوار تھی لیکن مردہ مردہ سی فضا کسی کے قتل کی خبر دے رہی تھی تا ہم بظاہر جیل اور اسکے اطراف میں کسی قسم کی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں تھی۔

مجھے خالد محمود ربانی کی اطلاع پر یقین نہیں تھا لیکن وہ خود اس خبر پر مصر تھے۔ گھر واپس آکر ہم دونوں سو نہ سکے تا آنکہ ریڈیو پاکستان کی صبح 6 بجے کی خبروں میں یہ خبر حمید اختر نے پڑھی۔خبروں کے پورے بلیٹن کے آخر میں مختصر سی خبر یوں تھی کہ ’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘سارے ملک کی فضا سوگوار تھی، دفتر میں طاوس بانہالی،احمد ظفر،بشیر زیدی،محمد عمر سب ایک دوسرے سے مل کر رورہے تھے۔
میں نے اس دن دو غزلیں لکھی تھیں۔ ایک کچھ اس طرح تھی۔
پتہ ہواؤں سے پوچھے کی فاختہ کس کا
چلے گا میرے توسط سے سلسلہ کس کا
۔۔۔۔۔
جہاں پہ کل ابابیلوں نے سنگ پھینکے تھے
لگا ہے آج وہیں پر مجسمہ کس کا
دوسری غزل تھی،
نازک ہے بہت وقت ہواؤں کو بتا دو
کاغذ پہ لکھی آیتیں پانی میں جلا دو
۔۔۔۔۔
ہم بخت جلے لوگوں کے تاریک گھروں میں
بس ایک ضیا ہے اسے سولی پہ چڑھا دو

ماہ پارہ کو اسی شام ایبٹ آباد سے واپس آنا تھا لیکن دوپہر سے ہی پی ٹی وی کے ڈپٹی کنٹرولر حبیب اللہ فاروقی کا باربار فون آ رہا تھا کہ کیا وہ یہ خبر پڑھ سکیں گی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح ماہ پارہ سے رابطہ کر کے انہیں یہ اطلاع دی۔ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل لوگوں کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ دل پر گزرنے والے حالات کو اپنے سامعین و ناظرین پر ظاہر نہیں ہونے دیتے اور اسی کمال مہارت کے ساتھ پی ٹی وی کے رات نوبجے کے خبر نامے میں یہ خبر ماہ پارہ اور خالد حمید نے پڑھی۔

اس روز پاکستان کے ان گنت گھروں میں چولہا نہیں جلا۔کتنے ہی لوگ اس خبر کو برداشت نہ کر سکے۔ ایک ان کہی دہشت تھی جو ہر طرف برس رہی تھی۔ جیسے گھر میں موت واقع ہونے پر بچے سہم جاتے ہیں۔

اسی پھانسی پر ادبی جریدے ‘‘فنون‘‘ میں اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘ چھپی تھی جس نے حکومتی حلقوں میں ایک شور مچا دیا تھا اورآمر مطلق ضیا الحق نے اسی نظم کے مصرعے دہرا کے نام نہاد اور ظلم کا ساتھ دینے والے سرکار نواز اہل قلم کانفرنس میں ادیبوں کی خوب گت بنائی تھی۔
اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرف عبادت یاد تھے
پو پھٹے تک انگلیوں پہ گن لیے
اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے
شیشۂ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
ایلچی کیسے بلاد مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اک جلوس بے تماشہ گلیوں بازاروں میں ہے
یا الہی، مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
اب سمیٹو مشک و عنبر
ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوک پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں


’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی ال�

Tuesday, April 1, 2008

BBCUrdu.com کل کے مجرم، آج کے وزیر

کل کے مجرم، آج کے وزیر

مشرف اور گیلانی
صدر مشرف کے سب سے زیادہ ستائے ہوئے تو خود وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہیں پانچ برس تک جیل میں رکھا اور پھر بری کرنا پڑا
چوبیس رکنی وفاقی کابینہ کو ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہا ہے۔ کوئی گِن کے بتا رہا ہے کہ اس کابینہ میں ایک چوتھائی وزراء یا تو کشمیری النسل ہیں یا پھر سیّد۔ کوئی علاقائی سطح پر آنکڑے لگا کر بتا رہا ہے کہ کابینہ میں لاہور اور راولپنڈی کی نمائندگی باقی علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔

لیکن ایک انگریزی اخبار نے بڑی عرق ریزی سے کی گئی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ کابینہ میں کوئی شائد ہی کوئی ایسا وزیر ہو جس نے صدر مشرف کے نو سالہ دور میں کوئی مقدمہ، جرمانہ، قید یا تشدد نہ بھگتا ہو۔

اخبار دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق صدر مشرف کے سب سے زیادہ ستائے ہوئے تو خود وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہیں بطور سپیکر قومی اسمبلی ناجائز تقرریوں کی پاداش میں مشرف حکومت نے پانچ برس تک جیل میں رکھا اور پھر بری کرنا پڑا۔

آج گیلانی کابینہ کے جن وزرا نے حلف اٹھایا ان میں وزیرِ نجکاری و سرمایہ کاری و جہاز رانی سید نوید قمر نے مشرف دور میں ایک برس سے زائد قید بھگتی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بینظیر حکومت کے دوسرے دور میں نجکاری کے عمل میں بے قاعدگی کی تھی۔

پانی و بجلی کے وزیر راجہ پرویز اشرف نے آصف زرداری کے خلاف نیب میں چلنے والے ایک مقدمے میں بطور ضمانت دس لاکھ روپے مالیت املاک کے کاغذات جمع کروائے۔ جنہیں نیب نے ضبط کرلیا۔

چوہدری نثار علی خان
مشرف حکومت نے بلا کسی فردِ جرم کے ڈیڑھ برس تک قید میں رکھا

محنت و افرادی قوت کے وزیر خورشید شاہ کے خلاف نیب میں کئی کیس دائر کئےگئے لیکن کوئی مقدمہ ثابت نہ ہوسکا۔ وزیرِ دفاع چودھری احمد مختار کو نیب نے چاول کی فروخت کے ایک مقدمے میں سترہ ماہ قید رکھا لیکن مقدمہ ثابت نہ ہوسکا۔

کابینہ کے سینئر وزیر برائے مواصلات و خوراک و زراعت چوہدری نثار علی خان کو مشرف حکومت نے بلا کسی فردِ جرم کے ڈیڑھ برس تک قید میں رکھا۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو مشرف حکومت نےسترہ ماہ تک اٹک کے قلعے اور پھر گھر پر نظربند رکھا اور انہیں شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد چھوڑا گیا۔

اسی طرح وزیرِ تعلیم احسن اقبال اور وزیر برائے امورِ خواتین تہمینہ دولتانہ کو اگرچہ مقدمات کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن مشرف مخالف مظاہروں کے دوران دونوں اکثر تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے احسن اقبال کی جانب سے یونیورسٹی قائم کرنے کے اجازت نامے کی فائل کو مسلسل دبائے رکھا۔

خواجہ محمد آصف کو نیب نے ایک مقدمے میں ایک برس سے زائد عرصے تک لاہور اور اٹک میں قید رکھا اور جب مقدمہ ثابت نہ ہوسکا تو نیب کے سربراہ نے ان سے معذرت کی۔

وزیرِ ریلوے سردار مہتاب عباسی کو گندم کی غیر قانونی نقل وحمل کا ایک مقدمہ بھگتنا پڑا۔ جس سے وہ بعد ازاں بری ہوگئے۔ وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل خواجہ محمد آصف کو نیب نے ایک مقدمے میں ایک برس سے زائد عرصے تک لاہور اور اٹک میں قید رکھا اور جب مقدمہ ثابت نہ ہوسکا تو نیب کے سربراہ نے ان سے معذرت کی۔

دفاعی پیداوار کے وزیر رانا تنویر حسین بھی آٹھ ماہ تک جیل میں رہے اور پھر بری ہوگئے۔ جبکہ وزیرِ تجارت شاھد خاقان عباسی نے مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سترہ ماہ کی قید کاٹی۔

وزیرِ امورِ نوجوانان خواجہ سعد رفیق نے مشرف دور میں متعدد مرتبہ جیل کی ہوا کھائی۔ ایک مرتبہ تو انہیں اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے ڈنمارک کے اخبارات میں شائع ہونے والے اشتعال انگیز مذہبی کارٹونوں کے خلاف مظاہرے میں حصہ لیا تھا۔

اور آج صدر مشرف کو اپنے ہی دور میں ستائے ہوئے ان لوگوں سے حلف لینا پڑ گ

BBCUrdu.com

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...