Saturday, April 5, 2008

بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کر دیا گ

’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے۔۔۔‘

  ذوالفقار علی بھٹو
جب قتل کی ایف آئی آر انکے خلاف درج ہوئی توانہوں نے کہا تھا: ’پولیس نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔‘
’’رات کے دو بجے تم سبھی سو چکے تھے
مگر وہ ابھی جاگتا تھا
کھبی ایک کاغذ پہ کچھ لکھ کر پرزے اڑاتا
کبھی مسکراتا
کبھی آسماں کی طرف دیکھتا
آسماں دو پہاڑوں کی میخوں پر اترا ہوا
اسکی چکی کے روزن سے ہنستا رہا
اور وہ دیر تک شیو کرتا رہا‘‘

’رات کے دو بجے‘ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر شاعر مسعود منور نے لکھی تھی۔

ایوان صدر کے غالباً پانچویں فلور پر دس گيارہ سال بعد جب تخت طاؤس نما صوفوں پر نشستہ بڑی بڑی وردیوں اور بڑے بیش بہا سوٹوں والوں کی موجودگي میں نہ جانے کہاں سے کوئی جیالا ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ لگاتا ہے تو نہ فقط پہلی قطار میں براجماں وی وی آئی پیز کے سوٹوں اور وردیوں میں سلوٹیں اور تیوریوں میں بل بھی پڑ جاتے ہونگے۔

یہی گذشتہ دنوں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں یوسف رضا گیلانی کے وزرات اعظمی کا حلف اٹھانے کے دن بھی ہوا، اور اس سے قبل قومی اسبملی میں ، اور یہی کچھ دو دسمبر انیس سو اٹھاسی کو بینظیر بھٹو کے تب کے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں حلف اٹھانے کے دن بھی ہوا تھا جب جیکب آباد کے ایک جیالے نے یہی نعرہ لگایا تھا۔ جس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے وقت صدر علام اسحاق خان نے اپنی ٹیلیویژن تقریر میں کچھ یوں اظہار کیا تھا ’شرپسند اور سماج دشمن عناصر ایوان صدر میں دندناتے پھر تے تھے‘۔

انیس سو سترہ کے روس میں زار کے محل میں بولشویکوں کے قبضے کے وقت شور شرابہ میکسم گورکی کو اچھا نہیں لگا تھا تھا اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں جیالوں کے ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کے نعرے بظاہر کسی جنرل کو نہیں مخدوم امین فہیم کو ناگوار گزرے۔ شاید ان کی شاعرانہ طبعیت یا کسی اور وجہ سے۔

تاریخ اگر دنیا کے کسی اور حصے میں خود کو دہراتی یا نہ دہراتی ہو لیکن پیارے پاکستان میں ’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘ بنی ہوئی ہے۔ ہر دس گیارہ سال کے بعد ایک بھٹو ختم کیا جاتا ہے، پھر اس کے نام پر حکومت آجاتی ہے، پھر حکومت ختم ہوتی ہے، پھر ایک دہائي کے جبر کے بعد پھر بھٹو کے نام پر حکومت۔ پھر وہی جبر پھر وہی کہانی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں عظیم قومی مفاہمت میں ضیاء اور بھٹو دونوں ہی اب ساتھ ساتھ زندہ ہیں۔

سنہ انیس سو چوہتر میں جب تب کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انکے ملتان کے دورے کے دوران پنجاب کے سابق آئی جی پولیس راؤ رشید احمد نے اطلاع دی تھی کہ احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کا لاہور میں قتل ہوگیا ہے اور احمد رضا قصوری اپنے والد کے قتل کی ایف ائی آر ان کے ( ذوالفقار علی بھٹو کے) خلاف درج کروانا چاہتے ہیں تو بھٹونے کہا تھا جس طرح وہ بحيثیت فریادی کہتے ہیں اس طرح ہی انکی آیف آئی آر درج ہونی چاہیے۔ جب نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر ان کے خلاف درج ہو چکی تو انہوں نے کہا تھا: ’پولیس نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔‘

بھٹو خود لنکنز اِن کے بیرسٹر ایٹ لاء اور کرمنل قانون کے ایک منجھے ہوئے وکیل تھے۔ انہوں نے کراچي میں مشہور ڈنگو مل فرم سے اپنی پریکٹس کا آغاز کیا تھا اس دوران اور اس کے بعد آزادانہ طور پر بھی قتل کے کیسوں میں تب کی سندھ چیفس کورٹ (بعد میں سندھ بلوچستان ہائیکورٹ) سے کئي اپیلیں جیت چکے تھے۔ انکے موّکلوں میں جیکب آباد کا ایک غریب نوجوان بھی شامل تھا جسے قتل کے ایک مقدمے میں ذاتی دشمنی کی بنا پر پھنسایاگیا تھا۔ جس کی سزا کیخلاف اپیل بغیر کسی فیس لیے بھٹو نے سندھ چیفس کورٹ میں لڑ کر جیتی تھی اور اپنے بیٹے کی بریت پر اس نوجوان کی غریب ماں نے بھٹو کو بہت دعائيں دی تھی۔ بھٹو کچھ عصرے تک ایس ایم لاء کالج میں پڑھاتے بھی رہے تھے جہاں حسن علی عبد الرحمان اور طفیل علی عبد الرحمان جیسے ممتاز وکلاء بھی اساتذہ اور پرنسپلز رہے تھے۔ حسن علی عبدالرحماں شیری رحمان کے والد اور طفیل علی عبد الرحمان چچا تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو جس وقت آئی جی پنجاب کو اپنے سیاسی مخالف نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر ان کے اپنے ہی خلاف کاٹے جانے کا مشورہ بڑے اطمینان سے دے رہے ہونگے تب بھی بحیثیت ایک فوجداری وکیل کے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا میرٹ کیا ہوتا ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی (تصویر بشکریہ جنرل خالد محمود عارف)

جو بات ذوالفقار علی بھٹو نہیں جان سکے تھے وہ یہ تھی کہ اسی ایف آئی آر میں محسن کش جنرل ان کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر کے چیف جسٹسز انوار الحق اور مولوی مشتاق جیسے ججوں کے ذریعے ان کا ’عدالتی قتل‘ کروائيں گے، جس سے باقی ماندہ پاکستان اور اس کی عدلیہ مہذب دنیا کی نظروں میں خوار و رسوا ہوجائيں گے۔ جیسے حبیب جالب نے ان دنوں کہا تھا:
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں
دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے
رسوا ہے وطن دنیا بھر میں۔‘

بھٹو کی راولپنڈی جیل میں سکیورٹی کے انچارج کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری تین سو تئيس دن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’آدھ گھنٹہ پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اور جیل ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ پر کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے ۔ بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کر دیا گیا۔ ان کی میت کو غسل دیا گیا جس کا بندوبست وہیں کرلیاگیا تھا۔ ایک فوٹوگرافر نے جسے ایک انٹیلیجنس ایجنسی نے بھیجا تھا ضرورت کے مطابق بھٹو صاحب کے چند فوٹو اتارے۔ ان تصویروں سےحکام کا یہ شک دور ہوگیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے‘۔

کرنل رفیع کے اس مشاہدے سے پاکستانی ایجنسیوں کی بیہودگی کا اندازہ خود ہی لگا لیجیے کہ وہ وہیں کھڑے ہیں جب ہرمرد کی شلوار اتار کر اس کی ’مسلمانی‘ دیکھا کیے۔ جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کی مسلمانی کا کھلی عدالت میں مذاق اڑایا اور ان کی ہر وقت ہزیمت کرتے رہے۔

بھٹو کی پھانسی سے ثابت ہو چکا ہے کہ ایک عدالتی قتل ہی تھا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے نو منتخب وزیر اعظم یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ پارلیمان سے ایک قرارداد کے ذریعے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر پاکستان کے عوام سے معافی مانگی جائے گي۔ لیکن بھٹو کا یہ عدالتی قتل پارلیمان نے تو نہیں کیا تھا (اور نہ ہی پارلیمان وجود رکھتی تھی سوائے سینیٹ کے )! بھٹو کے عدالتی قتل میں پاکستانی ریاست اور اس کے دو اہم ترین ستون فوج اور عدلیہ ملوث تھے۔ کیا وزیر اعظم پاکستانی ریاست کے سربراہ کی حییثیت میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف یا آنیوالے صدر، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے یہ معافی منگوا سکتے ہیں۔ کیا وہ بھٹو کے مقدمہء قتل کو پھر سے کھلوا سکتے ہیں؟



BBCUrdu.com

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...