Sunday, March 30, 2008

وزیراعظم کی اچھی مگر ادھوری تقریر سلیم صافی کا کالم

وزیراعظم کی اچھی مگر ادھوری تقریر


safi.jpg





یوں تو 2002ء سے نومبر2007ء تک بھی ایک پارلیمنٹ موجود رہی لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ جینوئن پارلیمنٹ نہیں تھی ۔ وہ پارلیمنٹ وردی کے زیرسایہ کام کررہی تھی ۔ اس پر عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ کا گمان ہورہا تھا اور نہ اس کے قائد ایوان حقیقی قائدایوان نظر آرہے تھے ۔ نہ صرف یہ کہ اس پارلیمنٹ کے قائدایوان اس وقت کے آرمی چیف کو اپنا باس قرار دے رہے تھے بلکہ حقیقی معنوں میں بھی اس وقت اختیار وزیراعظم ہاؤس نہیں بلکہ آرمی ہاؤس کے پاس تھا۔ 2002ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی تھیں اور ان میں بیٹھے ہوئے بیشتر لوگ قوم کے حقیقی نہیں بلکہ جعلی نمائندے تھے ۔ اب کے بار معاملہ الٹ ہے ۔ اگرچہ قومی سطح کے بیشتر لیڈر جیسے میاں نواز شریف ، بلاول بھٹو زرداری ، قاضی حسین احمدخان ، عمران خان اور محمود خان اچکزئی نئی قومی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی یہ اسمبلی جعلی نہیں بلکہ حقیقی اسمبلی نظر آرہی ہے ۔ اس میں بیٹھے ہوئے لوگ گذشتہ اسمبلی کے ممبران کی طرح سہمے سہمے نہیں ہیں ۔ وہ ایسے بولتے ہیں جیسا کہ عوام کے حقیقی نمائندے بولتے ہیں اور شاید اسی لئے اس اسمبلی کا قائدایوان بھی حقیقی قائدایوان نظر آرہا ہے ۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جس طرح گرفتار ججوں کی رہائی کا اعلان کیا ، اس نے ان کے بااختیار ہونے کا یہ روپ مزید نکھار دیااور اب اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد انہوں نے جو خطاب کیا اس سے پہلی مرتبہ یہ گمان ہونے لگا کہ یوسف رضاگیلانی شاید سچ مچ اس ملک کے وزیراعظم ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ نو سالوں میں پہلی مرتبہ ایک دل خوش کن تقریر سننے کو ملی ۔ وہ ایک آزاد ملک کے خودمختار پارلیمنٹ کے بااختیار وزیراعظم کی تقریر معلوم ہورہی تھی ۔ انہوں نے وہی باتیں کیں ، جن کی توقع ایک حقیقی معنوں میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے قائدایوان سے کی جاسکتی ہے۔ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے سید یوسف رضاگیلانی نے ٹریڈ یونین اور طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ انہوں نے احتساب کے عمل کو انتظامیہ کی بجائے عدلیہ کی ماتحت بنانے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ سول اداروں میں کام کرنے والے فوجی افسروں کو دو ہفتے کے اندر اندر واپس فوج میں بھیج دیا جائے گا ۔ انہوں نے حکومتی اداروں میں بچت مہم شروع کرنے کا بھی اعلان کیا اور واضح کیا کہ اس مہم کا آغاز وزیراعظم ہاؤس سے اس کے بجٹ میں چالیس فی صد کٹوتی کے ذریعے کی جائے گی ۔ اسی طرح سرکاری عمارتوں پر غیرضروری چراغاں کرنے پر پابندی عائد ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزراء سولہ سی سی سے زائد کی گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے ۔ ہوائی جہاز کے اکانومی کلاس میں سفر کریں گے ۔ انہوں نے فاٹا سے ایف سی آر کے ظالمانہ قانون کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ انہوں نے میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پمرا کے وہ قوانین جو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں منسوخ کئے جائیں گے ۔ اس سے متعلق مفاہمتی کمیٹی کے معاہدوں پر عمل ہوگا ۔ اخباری ملازمین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ۔ مدارس میں یکساں نصاب رائج کیا جائے گی اور ان کو ملنی والی رقوم کا آڈٹ کیا جائے گا ۔ چھوٹے ڈیمز بنانے کے منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا جبکہ توانائی سے متعلق دیگر منصوبوں کا بھی جلد از جلد آغاز ہوگا۔ نجی و سرکاری شعبے میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں گے ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا ۔ وفاق میں شامل اکائیوں کی محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آئین سے کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے اختیارات صوبوں کو منتقل کئے جائیں گے۔
مذکورہ تقریر میں وزیراعظم نے جو اعلانات کئے ،ان پر دل خوش ہوا ۔ ان کے کسی بھی اعلان اور ارادے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔ تبھی تو مسلم لیگ (ق) کے فیصل صالح حیات نے بھی ان کے اعلانات اور عزائم کی ستائش کی ۔ کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے اختیارات صوبوں تک منتقل کرنے کا معاملہ ہو، ٹریڈ اور طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کی بات ہو،سرکاری اخراجات میں کمی کا معاملہ ہو، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کا ایشو ہو، چھوٹے ڈیمز بنانے اور توانائی کے نئے منصوبے شروع کرنے کا پروگرام ہو اور یا سول اداروں سے فوجی افسروں کی رخصتی کا منصوبہ ، یہ سب وہ اقدامات ہیں جن کا مطالبہ پوری قوم کررہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حسب وعدہ عمل ہوسکے گا یا نہیں ۔ اچھے اور دل خوش کن منصوبوں کا اعلان نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد مشکل ہے ۔ اسی طرح کے دل خوش کن اقدامات کا اعلانات ماضی میں بھی کئی حکمران کرچکے ہیں لیکن افسوس کہ کوئی بھی ان پر عمل درآمد نہ کرسکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور ان کے ساتھی کس طرح ان اعلانات کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
وزیراعظم صاحب کی تقریر اچھی تھی اور بہت اچھی تھی لیکن بعض حوالوں سے یہ ادھوری بھی تھی ۔ اس تقریر میں معزول چیف جسٹس اور ججوں کی بحالی کا تذکرہ واشگاف الفاظ میں موجود نہیں تھا۔ اس تقریر میں فاٹا میں ایف سی آر کے نظام کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا گیا جو نہایت مشکل کام اور بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے لیکن وہاں سے فوج کے انخلاء کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ جس کی فوری ضرورت ہے اور جو نسبتاً قابل عمل بھی ہے ۔ اس تقریر میں خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو ملنے والے معاوضے کا بڑھانے کا تو اعلان کیا گیا لیکن خودکش حملوں کے سلسلے کو روکنے کے لئے کسی قابل عمل منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح یہ تقریر سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے تذکرے سے بھی محروم تھی ۔ اس تقریر میں قومی مفاہمت کی بات تو کی گئی لیکن بلوچ قوم پرستوں اور مذہبی عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس تقریر میں صوبوں کے احساس محرومی میں کمی لانے کے لئے کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا گیا لیکن صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی اور اس غریب صوبے کو بجلی کے نٹ پروفٹ کی رقم کی ادائیگی کے تذکرے سے یہ تقریر محروم رہی ۔ یوں یہ تقریر اچھی ہونے کے باوجود ادھوری تھی اور قوم توقع کررہی ہے کہ جلد از جلد اس تقریر کو مکمل کرکے اس پر عمل جنگی بنیادوں پر عمل درآمد کا آغاز کیا جائے ۔

Thursday, March 27, 2008

اور کچھ پڑھنا یا رہیں حسن نثار کا یہ کالم ضرور پڑھیں Jang Group Online

اور کچھ پڑھنا یا رہیں حسن نثار کا یہ کالم ضرور پڑھیں


Jang Group Online

کرم ایجنسی ایمبولنس حملہ سات ہلاک- and BBC reports Daily Jang- Jang Group

کرم ایجنسی ایمبولنس حملہ پانچ ہلاک

علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کئی دن سے جاری ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک ایمبولنس گاڑی پر نامعلوم حملے سے دو سکیورٹی اہلکار اور ایک خاتون سمیت پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔

اس واقعہ سے علاقے میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔
ٹل پولیس کے ایک اہلکار میرزلی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعرات کی دوپہر چپری پوسٹ کے قریب پکا موڑ میں پیش آیا۔

انہوں نے کہا کہ ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال پارہ چنار سے ایک ایمبولنس گاڑی ٹل جارہی تھی کہ پکا موڑ پر نامعلوم مسلح افراد نے گاڑی کو دستی بموں اور دیگر بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جس سے ایمبولنس میں سوار پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔

ہلاک ہونے والوں میں ایک نرس اور دو سکیورٹی اہلکار شامل ہیں جو گاڑی کی حفاظت پر مامور تھے۔ واقعہ میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں جس میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی حکام نے ہلاک شدگان کی لاشیں پارہ چنار ہپستال منتقل کی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے ایمبولنس کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا ہے جس سے گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد علاقے میں حالات ایک بارپھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔

حالیہ واقعہ ہنگو ، کوہاٹ اور اورکزئی ایجنسی میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کا حصہ بتایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال سولہ نومبر کوکرم ایجنسی میں فرقہ فسادات شروع ہوئے تھے جو ایک ہفتہ تک جاری تھے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ان واقعات میں تین سو کے قریب افراد ہلاک اور سات سے زائدزخمی ہوئے تھے۔



http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/03/080327_ambulance_attack_fz.shtml




1 - Number One Newspaper of Pakistan - Daily Jang- Jang Group

Tuesday, March 25, 2008

ساٹھ سال میں بیس وزیر اعظم عبادالحق

ساٹھ سال میں بیس وزیر اعظم

لیاقت علی خان
نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے
پاکستان میں فوجی مداخلت اور صدر اور وزیراعظم کےتعلقات میں تناؤ کی وجہ سے ایک وزیراعظم کےعلاوہ کوئی بھی اپنی عہدے کی آئینی مدت مکمل نہ کرسکا۔

ساٹھ برسوں میں جہاں بیسں وزرائےاعظم آئے وہاں پچیس برسوں تک وزیراعظم کے عہدے کا عملی طور پرکوئی وجود نہ رہا۔

قیام پاکستان کے پہلے دس برسوں میں سات وزرائےاعظم تبدیل ہوئے اس عرصہ میں لیاقت علی خان واحد وزیراعظم تھے جو ،سب سے زیادہ مدت ، چار سال تک وزرات عظمٰی کے عہدے پر فائز رہے۔

نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ انہیں پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو وزیراعظم چنا گیا لیکن سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو انہیں اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا گیا جب وہ لیاقت باغ میں ایک جلسئہ عام خطاب کررہے تھے۔

لیاقت علی خان کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اپنا عہدہ چھوڑ کر سترہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھال لیا۔وہ تقریبا دو برس تک اس عہدے پرفائز رہے اور سترا اپریل 1953 کو اس کے وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں برطرف کردیا۔

محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیراعظم تھے جو سترہ اپریل انیس سوترپین سےگیارہ اگست انیس سو پچپن تک اس منصب پرفائز رہے ۔گورنر جنرل پاکستان غلام محمد نے ان سے استعفیْ لیا تھا۔محمد علی بوگرا وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ میں سفیر تھے۔

چودھری محمد علی بارہ اگست کو پاکستان کے چوتھے وزیراعظم مقرر ہوئے اور ان کے دور حکومت میں تئیس مارچ 1956 کو ملک کا پہلا آئین بھی بنا تاہم چودھری محمد علی نئے آئین کے چند ماہ بعد ہی بارہ ستمبر انیس سوچھپن کو ایک سال ایک ماہ تک وزاراتِ عظمٰی پرفائز رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہوگئے۔

ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنی عہدے کی آئینی مدت پوری کی۔

پاکستان کے پہلے آئین کے بعد دو سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوگئے۔

حسین شہید سہروردی نے بارہ ستمبر انیس سو چھپن میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور ایک سال ایک ماہ تک عہدے سے فائزہ رہنے کے بعد ان کو عہدے سے ہٹادیا گیا جس کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریکر وزیراعظم بنے لیکن گورنر جنرل سکندر مرزا سے اختلافات کے باعث انہیں دو ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے مستٰعفی ہونا پڑا۔

پاکستان میں جس وقت مارشل لا لگا کر آئین کو منسوخ کیا تو اس وقت ملک کے وزیراعظم فیروز خان نون تھے ۔وہ سولہ دسمبر انیس سو ستاون سے سات اکتوبر اٹھاون تک وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔

انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد آئین منسوخ ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کا عہدہ بھی ختم ہوگیا اور انیس سو باسٹھ میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے نیا آئین متعارف کرایا جس میں پارلیمانی نظام حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ صدارتی نظام رائج کردیا گیا تاہم یہ آئین بھی انیس سو انہتر میں منسوخ کردیا گیا۔

تیرہ برس کے وقفے کے بعد جب وزیراعظم کا عہدہ بحال کیا گیا تو نورالامین کو وزیراعظم مقرر کیا گیا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چار روز بعد نورالامین تیرہ دنوں تک وزیراعظم رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہوگئےاور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نائب صدر بن گئے اور وزیراعظم کا منصب پھر ختم ہوگیا۔

 محمد خان جونیجو
انیس سو پچاسی کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چودہ اگست انیس سو تہتر کا نیا آئین وجود میں آیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر پارلیمانی نظام حکومت رائج کردیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی عہدے کی آئینی مدت پوری کی۔

ذوالفقار علی بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے اور پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کر ان کی حکومت کو برطرف کردیا اور چار اپریل انیس سواناسی کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

ضیاءالحق کے مارشل لاء اور آئین کی معطلی کی وجہ سے وزیراعظم کا عہدہ ایک مرتبہ پھر متروک ہوگیا اور لگ بھگ سات برس سے زائد عرصہ کے بعد ملک میں آئین بحال ہوا تو وزیراعظم کا عہدہ بھی بحال ہوگیا اور تیئس مارچ انیس سو پچاسی کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بحالی سے پہلے اس میں ترمیم کی جس سے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔اس صدارتی اختیار کا پہلا شکار محمدخان جونیجو ہوئےاور ان کی حکومت انتیس مئی سنہ انیس اٹھاسی کوختم ہوگئی۔

جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کی حکومت تحلیل کرنے کے بعد نگران کابینہ تو تشکیل دی لیکن نگران وزیراعظم کا تقرر نہیں کیا گیا جو پاکستانی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔

بینظیر بھٹو
بینظیر پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں

سنہ اٹھاسی کے انتخابات میں بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تاہم ان کی حکومت بھی اٹھارہ ماہ بعد ہی اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئی۔

ملک میں نئے انتخابات تک نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف غلام مصطفیْ جتوئی کو تین ماہ کی مدت کے لیے نگران وزیراعظم بنادیاگیا۔

نوے کے انتخابات میں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن غلام اسحاق خان نے اختلافات کی بناء پر ان کی حکومت کو اٹھارہ اپریل انیس سوترانوے کو تحلیل کردیا اور بلخ شیرمرزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا لیکن نواز شریف نے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے ایک ماہ اور آٹھ دن کے بعد انہیں بحال کردیا اس طرح بلخ شیر مرزاری پاکستان کے واحد نگران وزیر اعظم ہیں جو نہ صرف سب سے کم عرصے کے لیے نگران وزیر اعظم بنے بلکہ اپنی آئینی مدت بھی مکمل نہ کرسکے۔

نواز شریف
ستانوے کے چناؤ میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے

عدالتی حکم پر اسمبلی کی بحالی کے باوجود بھی یہ اسمبلی نہ چل سکی تاہم اس مرتبہ پہلی بار وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ صدر مملکت یعنی غلام اسحاق کو بھی مستٰعفی ہونا پڑا اور اس طرح غلام اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد خود بھی استعٰفی دے دیا۔چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر بنے اور معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔

انیس سوترانوے میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں اور اٹھاون ٹو بی کی موجودگی کی وجہ سے اپنے قابل بھروسہ پارٹی رہنما سردار فاروق احمد خان لغاری کو صدر منتخب کرایا لیکن بینظیر بھٹو کی یہ حکمت عملی بھی ان کے کام نہیں آئی اور فاروق لغاری نے ان کی حکومت تحلیل کر کے پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم بنادیا

ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اور نواز شریف دو دو مرتبہ وزیراعظم بنے۔

ستانوے کے چناؤ میں نواز شریف بھی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اور بینظیر بھٹو کی مدد سے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا لیکن یہ آئینی بندوبست بھی ان کی حکومت کو بچانے میں مدد گارثابت نہ ہوا اورجنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر کو آئین معطل کرکے مارشل لاء لگادیا۔

جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کی جگہ اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور اس طرح تین برس کے لیے وزیراعظم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔

شوکت عزیز شجاعت حسین
شجاعت حسین ڈیرھ ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے

اکتوبر دو ہزار دو کے انتخابات میں جہاں نئی اسمبلی وجود میں آئی وہیں اسمبلی کی تحلیل کا صدارتی اختیار بھی جنرل مشرف کے ایل ایف او کے ذریعے بحال ہوگیا تاہم صدر مشرف نے اپنے پیش رو کی طرح یہ اختیار استعمال نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اسمبلی نے اپنی آئینی مدت میں تین وزیراعظم منتخب کیے جن میں میر ظفر اللہ خان جمالی نےڈیڑھ سال تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے کے بعد استعفیْ دے دیا، شجاعت حسین ڈیڑھ ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے اور اسی دوران سینیٹر شوکت عزیز نے ضمنی انتخاب لڑا اور اسمبلی کی باقی باندہ مدت کے وزیراعظم چنے گئے۔

صدر پرویز مشرف نے اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر اس کو تحلیل کردیا اور چیئرمین سینیٹ کو نگران وزیراعظم بنادیا جو جنرل ضیا الحق کی نگران وزیر اعظم مقرر نہ کرنے کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔

پاکستان کے بیس وزرائے اعظم میں سے پانچ نگران وزیر اعظم تھے۔

یوسف رضا گیلانی پاکستان کے اکیس ویں وزیر اعظم ہیں۔




BBCUrdu.com:

Monday, March 24, 2008

گرفتار ججوں کی رہائی: پندرھویں نئے وزیرِ اعظم کا پہلا ’حکم‘

گرفتار ججوں کی رہائی: نئے وزیرِ اعظم کا پہلا ’حکم‘

پاکستان کی نو منتخب قومی اسمبلی نے یوسف رضا گیلانی کو نیا قائدِ ایوان منتخب کر لیا ہے۔ انہیں 264 ووٹ ملے جبکہ ان کے مدِمقابل امیدوار چودہری پرویز الہٰی کو 42 ووٹ پڑے۔

یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں عدلیہ کے گرفتار ججوں کی فوری رہائی کا ’حکم‘ دیا ہے لیکن کہا ہے کہ جج اپنے مسائل احتجاج کی بجائے پارلیمان کے اندر حل کرائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر معافی کے لیے پارلیمان میں قرارداد پیش کرے گی۔

نئے وزیرِ اعظم منگل کو ایوانِ صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔اسی روز صدر پرویز مشرف نئی کابینہ کے ارکان سے بھی حلف لیں گے۔


اس سے قبل سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پانچ منٹ کے لیے ایوان میں گھنٹیاں بجانے کے لیے کہا تا کہ وہ اراکین جو لابی میں یا ایوان سے باہر ہیں اندر آ جائیں۔

تاہم مسلم لیگ قاف کے دو اراکین خواجہ شیراز اور کشمالہ طارق تاخیر سے پہنچنے کے باعث ایوان کے اندر نہ جا سکے اور وزیرِ اعظم کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈال سکے۔

آج کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار برائے قائدِ ایوان یوسف رضا گیلانی جبکہ مسلم لیگ قاف کی طرف سے چودھری پرویز الہیٰ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار تھے۔

اجلاس کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے۔مہمانوں کی گیلری میں اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے جب بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی پہنچے تو پیپلز پارٹی کے حمایتیوں نے ان کے حق میں زبردست نعرے بازی کی۔ مہمانوں کی گیلری سے بھی کئی مرتبہ ’جیئے بھٹو‘ کے نعرے بلند ہوئے جس پر سپیکر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔


اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی جبکہ اس کی مخالف جماعت مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کے علیحدہ علیحدہ اجلاس منعقد ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ملتان سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے والے یوسف رضا گیلانی کو سنیچر کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔یوسف رضا گیلانی کی بھاری اکثریت سےکامیابی یقینی ہے۔

تین سو بیالیس میں سے دس حلقے ایسے ہیں جن میں سے کچھ میں ابھی انتخاب باقی ہے اور کچھ حلقوں کے نتائج عدالتوں نے روک رکھے ہیں۔ ایسے میں تین سو چونتیس اراکین کو قائد ایوان کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا آج حق حاصل ہے۔

پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 121 ہے جبکہ ان کی اتحادی جماعتوں میں سے مسلم لیگ (ن) کے 89 ، عوامی نیشنل پارٹی کے تیرہ، جمیعت علماء اسلام (ف) کے چھ اراکین کے علاوہ تاحال اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ہوئی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ متحدہ قومی موومینٹ کے اراکین کی تعداد پچیس ہے۔

سید یوسف رضا گیلانی کے مدمقابل صدر جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ قاف کی طرف سے چوہدری پرویز الہیٰ نے کاغذات نامزدگی دائر کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے شکست کا یقین ہے لیکن جمہوری روایات کو برقرار رکھنے اور ملک میں یک جماعتی حکمرانی کے تاثر کو رد کرنے کے لیے انتخاب میں حصہ لینا ضروری ہے‘۔

پچیس مارچ کی صبح گیارہ بجے ایوان صدر میں وزیراعظم اور کابینہ کی حلف برداری کے لیے مجوزہ تقریب میں آصف علی زرادری اور میاں نواز شریف سمیت متعدد سیاستدانوں، سفیروں، فوجی سربراہان اور سول بیورو کریٹس کو مدعو کیا گیا ہے۔


مسلم لیگ نواز کے ایک سینئر رہنما نے بتایا ہے کہ ان کی جماعت کے نامزد وزیر تو حلف برداری کی تقریب میں جائیں گے لیکن میاں نواز شریف ’مصروفیات‘ کی وجہ سے وہاں نہیں جا پائیں گے۔

سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں تہتر کے آئین کے تحفظ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور پارلیمان کی بالا دستی کے لیے کام کریں گی۔

انہوں نےیہ بھی کہا تھا کہ جب تک ان کی جماعت چاہے گی وہ وزیراعظم کے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔



BBCUrdu.com

Sunday, March 23, 2008

سی ون تھرٹی اور فوجی ہلی کاپٹروں میں چکلالہ سے سندہ کی طرف مقبول لیڈروں کی لاشیں کب تک!

' عوام کی شہید ملکہ'

ساری دنیا کےے اخبارات میں بینظیر بھٹو کی خبر شائع ہوئی ہے
اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو!

وہ چھوٹی سی بچي جس نے المرتضی لاڑکانہ میں اپنے باپ کے ہاتھوں بندوق سے فائر کرکے درخت پر سے ایک طوطے کو مارنے پر دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا وہ قتل ہوگئی۔ قاتلوں اور جرنیلوں، کرنیلوں کی سرزمین پر ایک نہتی اور واقعی بندوقوں سے نفرت کرتی لڑکی قتل ہوئی۔

’پنکی، بے بی، سر، بی بی، محترمہ، وزیر اعظم، بینظیر آخرکار اس خدشے کے سچ ہونے کا نشانہ بنی جس کا اظہار وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک کرتی رہی تھی یعنی کہ مشرف حکومت کی مجرمانہ غفلت اس کے شریک جرم ہوکر اپنے قتل ہوجانے کا وہی خدشے جن کا اظہار (مبینہ طور پر) ان کے شوہر آصف علی زرداری اور پارٹی ساتھی ریٹائرڈ جنرل نصیراللہ بابر نے فوج سے ان کی ڈیل پر اپنے اختلافات کرکے ظاہر کیا تھے۔

اپنے قتل سے صرف چند روز قبل اپنی ایک ای میل میں انہوں نے امریکہ میں اپنے دوست مارک سیگل کو لکھا: ’اگر میں قتل ہوجاوں تو اس کا ذمہ دار صدر پرویز مشرف کو سمجھا جائے کہ میرے مانگنے پر بھی انہوں نے مطلوبہ سیکیورٹی آلات مہیا نہیں کیے‘ یہ بات مارک سیگل سی این این پر کہہ رہے تھے۔

’رو میرے دیس رو کہ تیری ایک اچھی بیٹی قتل ہوئی۔‘

اسے القائدہ یا طالبان نے مارا یا پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ نے لیکن راولپنڈی سے ہمیشہ مقبول لیڈروں کی لاشیں پاکستان کے عوام کو بھیجی گئی ہیں۔

ہر اخبار میں ان کی تصاویر شائع ہوئی ہیں

وہ ایسے قتل ہوئي ہیں جسے پاکستان میں پاپولر بھٹو قتل ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں اندرا گاندھی قتل ہوئيں۔ جیسے امریکہ میں کینیڈی اور یونانی المیائي کرداروں کا انجام۔

لیکن لوگو! بھٹو ققنس تھے جو اپنی راکھ سے بار بار پیدا ہوۓ-‘

’پاکستان نے بینظیر کو قتل کردیا‘ میرے ایک دوست نےمجھ سے کہا۔

مجھے یاد آئی بہت برس بیتے جب کسی نے کہا تھا ’(بڑے) بھٹو کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جاۓ گا۔‘

میں حیران ہوں کہ بھٹو فیملی اور ان کے کروڑ ہا چاہنے والوں کے ساتھ ایسی کربلائوں کے بعد پاکستان کا باقی رہنا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟

اسلامی تاریخ میں خاندان رسول کے بعد وقت کےحکمرانوں کے ہاتھوں شاید اتنے بڑے المیے صرف بھٹو خاندان کے ساتھ ہوئے ہیں۔

لوگ سندھ سے لیکر سری نگر یعنی بدین سے بارہ مولا تک ماتم کناں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے آپ نے یہ نظارہ یا جمال ناصر کی موت پر دیکھا تھا یا بھٹو کی موت پر۔

راولپنڈی میں بھٹو کی پھانسی کی جگہ پرگھاس اور جرنیلوں کے گولف کورس کی ہریالی کو کتنے مقبول اور محبوب سیاسی لیڈروں کا خون چاہیے ہوگا اے ارض وطن!

سی ون تھرٹی اور فوجی ہلی کاپٹروں میں چکلالہ سے سندہ کی طرف مقبول لیڈروں کی لاشیں کب تک!

بینظیر اپنے چاہنے والوں کو آخری مرتبہ ہاتھ ہلا رہی ہیں

اصل میں بینظیر سر شاہنواز بھٹو کی اس بیٹی کا نام تھا جو وہ جوانی میں ہی جونا گڑھ میں بیماری میں فوت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بڑی بیٹی کا نام اپنی اس چہیتی بہن کے نام پر رکھا تھا۔

سب سے پہلے بینظیر بھٹو اسوقت میرے جیسے عام لوگوں کی نظر میں آئي تھیں جب وہ اپنے والد وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ساتھ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کو جانیوالے وفد میں شامل تھیں۔

اگر کچھ شاعر آنیوالے دنوں کو دیکھ سکتے ہیں تو رئیس امروہی نے بینظیر بھٹو کا مقام تاریخ میں جولائي انیس سو باہہتر میں دیکھ لیا تھا جب مقتول شاعر رئيس امروہی نےقطعہ لکھا تھا:

'شملہ مذاکرات تھے تاریخ گير بھی
پر عزم اور عظیم بھی لیکن حقیر بھی
آراستہ تھی محفل صدر و وزیر بھی
تاریخ کی نگاہ میں تھی بینظیر بھی-'

لاڑکانہ کے لوگوں کو یہ بھی یاد ہوگا جب وہ اسی راولپنڈی سے اسی دسبمر کی چھٹیوں میں اپنے لاڑکانہ اور نوڈیرو والے گھروں پر آیا کرتی۔

شیریں امیر بیگم بھٹو کی زمینوں پر گھڑ سواری اور جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت ہی پرانےذاتی ملازم ‏عثمان سومرو عرف فلیش مین نے مجھے بتایا تھا المرتضی لاڑکانہ کے منی سینیما ہال میں پروجیکٹر پر ذوالفقار علی بھٹو نے بینظیر کو فلم ’چاند اور سورج‘ ساتھ بیٹھ کر دکھائي تھی۔ 'جب ہم (ملازموں ) نے بینظیر بھٹو کو دیکھا تو ہم انہیں ’سر‘ کہہ کر مخاطب ہو ر ہے تھے۔ ’عثمان نے کہا تھا مجھے یاد ہے جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی ڈبیٹنگ سوسائٹی کی صدر منتخب ہوئی تھیں اور انکا انیس سو ستر کی دہائي کی بیل باٹم اور فلاور چائلڈ ھپی آوٹ لک تھا۔‘



عثمان فلیشمین کی ’سر‘ اور بینظیر بھٹو انیس سو چھہتر میں اسلام آباد کی وزرات خارجہ میں بطور آفس بکار خاص بھی مقرر کی گئي تھیں۔

ایک بے فکر لیکن سنجیدہ اور بلیوں سے پیار کرنے والی بینظیر بھٹو کی زندگي کے اسٹیشن پر دکھوں اور حادثوں سے بھری ٹرین اسوقت داخل ہوتی ہے جب وہ جولائی انیس سو ستتر کی گرمیوں کی چھٹیوں پر تھیں اور انکے والد ذوالفقار بھٹو کی حکومت کا تختہ ان کے ہی ترقی دیے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاءالحق نے الٹ دیا۔ اس دن سے لےکر وہ ’بقول شحضے‘ ریل کی پٹریوں پر ہاتھ پاوں باندہ کر پھینکی جانیوالی ہیروئین تھی اور ہر وقت کا صدر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف ایک ولن! ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف اور مسٹر مشرف سے لیکر لیکر کیانی تک آخری دم تک یہی کہانی رہی۔

میں سوچ رہا ہوں کہ صدیوں پہلے چانڈکا پرگنہ (موجودہ لاڑکانہ ) کا والی نواب ولی محمد چانڈیو جب زمین کا ایک بڑا رقبہ بھٹو قبیلیے کی سنگھار نامی ایک عورت کو عطا کررہا تھا تو سندھ کے ان حسین و ذہین لوگوں کےساتھ زندگی کے الیمے اور میرے دیس کے دکھوں کی سمفنی بھی کوئی ان دیکھا لیکن بےپرواہ موسیقار وہیں ترتیب دے رہا ہوگا۔

’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیحيو‘



امداد علی بھٹو، سکندر علی بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضی بھٹو اور اب بینظیر!

شاہ لطیف بھٹائی نے کہا تھا ’سامائی تاں سکھ ویا‘ (وہ جب جوان ہوئی تو اسکے سکھ چلے گئے) اور یہی کچھ بینظیر بھٹو کےساتھ ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ضیاء حکومت کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر قتل کے مقدمے کے خلاف سندھ میں ان کے احتجاجی دورے کے دوران ہالا کے قریب اسے گـرفتار کرکے نظربند کردیا گيا۔ پی پی پی کے جیالے تب اسے ’بے بی‘ کہتے۔ پہلے وہ ستر کلفٹن اور پھر سکھرجیل میں نظربند کی گئيں۔ سکھر جیل میں بھی انہیں قتل کرنےکی سازش کی گئي۔ جب سکھر جیل کے قیدیوں نے دیواروں پر چڑھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کی۔

ستر کلفٹن کی دیواروں تھیں اور ان میں تنہا نظربند بینظیر اور ستر کلفٹن کے باہر آئي ایس آئی کے کرنل امتیاز بلا اور اس کے بھوں بھوں کرتے کارندے۔

محھے یاد ہے وہ بینظیر کی نظربندی کے بعد سندھ میں پہلا محرم تھا جب مجلس میں قدیم مرثیہ ’ہائے ہائے رن میں بی بی بانو سر پر خاک بچھاتی ہے۔ پڑھا جاتا تو لوگ اسے علامتی طور پر بینظیر بھٹو کے دکھوں سے جوڑتے۔



ستر کلفٹن کی دیواریں، تنہائي اور عجیب ’ہیلیوسینیشن‘ جن میں ان کے کان بری طرح متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر امداد علی بلوچ مشہور ماہر ای این ٹی ان کے کانوں کے معالج تھے۔

انیس سو اناسی میں ضیاءالحق نے انہیں نظربندی سے رہا کیا اور انہوں نے بذریعہ خیبر میل کراچی سے لاڑکانہ کا سفر کیا جب تمام راستے ہزاروں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے چلتی ریل کی پٹریوں پر لیٹ گئے تھے۔ ہر طرف ماتم کرتے انسانی سر اور ہاتھ تھے۔ کالے سندھی اجرک اور کالے چشمے میں ریل کے ڈبے سے ہاتھ ہلاتی تقریر کرتی بینظیر۔ لاڑکانہ پہنچتے ہی فوج نے اسے پھرگرفتار کرلیا۔

جلاوطنی میں لندن جاتی ہوئی بینظیر اور عوام سے پریس کے ذریعے یہ وعدہ کہ میدان میں ملیں گے۔

اپنے جواں سال بھائی شاہنواز کی جنوبی فرانس سے لاش لیکر وطن لوٹتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی بینظیر۔ اسے لاڑکانہ میں لاکھوں عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل ہوئی۔

لندن میں ایک چھوٹے سے فلیٹ سے ضیاءالجق کیخلاف چلنے والی تحریک جلتا ہوا احتجاج کرتا ہوا سندھ۔



جلاطنی سے واپس آتی ہوئی بنیظیر بھٹو۔ بینظیر کے ساتھ ایک سی ایس ایس خوبرو سندھی افسر کی مجوزہ منگنی اور پھر اس افسر کا خط لکھ کر ضیاءالحق سے اجازت مانگنا جس پر بھٹو خاندان نے رشتہ منسوخ کردیا تھا۔

سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کےگاؤں کے قریب بھی اس کی پیجارو جیپ پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئی تھیں کہ دو انتظامی افسران نے انہیں پہلے سے ہی اس سازش سے آگاہ کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے روڈ کے ذریعے اپنا سفر منسوخ کردیا لیکن اپنی جیپ کو جانے دیا تھا جہاں اسی جگہ ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔

بعد میں سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید نے کہا تھا کہ ان کے ڈاکو مریدوں نے انہیں بتایا تھا کہ بینظیر کی جیپ پر انہوں نے حملہ ملٹری انٹیلجنیس ایجنسی کے ایک میجر عباس کے کہنے پر کیا تھا۔

تب سے لیکر آخر دم تک بینظیر کرنیلوں جرنیلوں اور قاتلوں کی سرزمین پر قاتلانہ حملوں کے نرغے میں رہی۔

کچھ لوگ تو کہتے کہ آصف زرداری سے ان کی شادی بھی ضیاءالحق اور اسکی ملٹری انٹیلیجنس کی ہی سازش تھی۔

لیکن ان کے سسر نے آصف علی زرداری اور بینظیر کی شادی کے بارے میں سوال پر اپنے کسی قریبی دوست سے کہا تھا: 'کوئی ایسا سندھی وڈیرہ بتائو جسکی عمر پینتیس برس ہو اور وہ اب تک غیر شادی شدہ ہو۔‘

سندھ کی اس ہرنی کو پاکستان کے تمام کتوں نےگھیر گھار کر جلاوطنی سے واپس لاکر چیر پھاڑ دیا۔جرنیل طاقتور اور پاکستان کے عوام لاورث ہیں کہ انہیں ہیلی کاپٹروں میں اپنی محبوب لیڈر کی لاش بھیح دی گئي ہے۔

لیکن وہ سیفٹی والو جو صوبوں اور وفاق کے درمیان بینظیر بھٹو کی شکل میں تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔ وہ ایک فرد نہیں تھی وہ کتنی بھی کرپٹ تھی، جھوٹی تھی وہ ایک ملکہ تھی۔ اک سوچ تھی۔ ایک عورت تھی۔ اک لیڈر تھی۔ بھٹو خاندان ملک پر واری گیا اور ملک فوجی جرنیلوں اور انکے کاسہ لیسوں پر۔

کیا اسے ان جرنیلوں اور ملاؤں نے ملکر مارا جو کہتے ہیں تیس روز کے بعد عورت کے بیٹھنے سے کرسی نجس ہوجاتی ہے؟

لیکن یہ قتل کی جانیوالی عورت عوام کی شہید ملکہ بن چکی۔



BBCUrdu.com

جنگل میں قانون شیر کا ہی چلتا ہے کبھی اسی جنگل میں چیونٹیوں اور کمزور مکھیوں کا غول شیر کی ہڈیاں تک ہضم کر جاتا ہے

یور ایکسیلنسی کچھ عرض کروں

یور ایکسیلنسی جارج ڈبلیو بش،
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے
عرض یہ ہے کہ پاکستانی عوام پچھلے ساٹھ برس سے ہر امریکی انتظامیہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہے اور رہے گا۔
لیکن ہر امریکی انتظامیہ نے عملاً ہر پاکستانی حکومت کو تو اپنا اتحادی بنانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی عوام کو ہمیشہ غیر یا ناقابلِ بھروسہ جانا۔

امریکی خارجہ پالیسی کی اس خامی کو یورپی یونین سے لے کر تیسری دنیا کے عوام تک سب نے محسوس کیا لیکن اگر یہ خامی بار بار ٹھوکر کھانے کے باوجود کسی کی سمجھ میں نہ آئی تو وہ خود امریکہ ہے۔

یور ایکسیلنسی
کبھی غور کیجئے گا کہ پاکستانی عوام کو کسی نہ کسی حد تک جو قربت چین سے محسوس ہوتی ہے وہ آپ سے کیوں محسوس نہیں ہوتی۔

یور ایکسیلنسی
جو ممالک امریکہ سے ہزاروں میل پرے ہیں وہ تو ایک طرف رہے۔ آپ اور آپ کے پیشرؤوں کو تو اپنے پچھواڑے میں موجود جنوبی امریکہ بھی سمجھ میں نہ آسکا۔ جہاں عوامی محرومی کو ظاہر کرنے کی جتنی بھی مسلح یا غیر مسلح کوششیں ہوئیں ان کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے انہیں فوجی آمروں کے ذریعے کیمونسٹوں اور بائیں بازو کی تخریب کاری قرار دے کر کچلنے کی کوشش کی گئی۔

یور ایکسیلنسی
آپ نے جس آئین پر دو مرتبہ عہدہ صدارت کا حلف لیا ہے اسکی بنیاد ہی جمہوریت، مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے احترام پر ہے لیکن یور ایکسیلنسی ایسا کیوں ہے کہ جب یہی حقوق جنوبی افریقہ کی کالی اکثریت نے مانگے تو امریکہ نے جب تک زور چلا نسل پرست گوری اقلیتی حکومت کا ساتھ دیا۔ جب ڈاکٹر مصدق نے ایران کو پارلیمانی جمہوریت کی راہ پر ڈالنا چاہا تو آپ ہی کی سی آئی اے نے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے مصدق کو ہٹا کر شاہ ایران کو بٹھا دیا۔ جب انڈونیشیا کے کروڑوں عوام نے نعرہ حریت بلند کیا تو جکارتہ میں آپ کے سفارتخانے نے فوجی جنرل سوہارتو کو مخالفین کی فہرستیں فراہم کیں۔ جب ویتنامیوں نے چاہا کہ وہ اپنے نظام کی خود تعمیر کریں تو آپ کی فضائیہ نے ان پر کیمیاوی گیسوں اور نیپام بموں کی بارش کردی۔



یور ایکسیلنسی
ایسا کیوں ہے کہ آپ کو اور آپ سے پہلے والوں کو اس دنیا کے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق، موبوتو، نوریگا، پنوشے، حسنی مبارک، اور عبداللہ تو عوام دوست نظر آتے رہے لیکن بیلٹ بکس کے ذریعے منتخب ہونے والی حزب اللہ، اسلامک فرنٹ، حماس اور برما کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی آپ کے کسی کام کی نہیں تھی۔

یور ایکسیلنسی
یہ درست ہے کہ جنگل میں قانون شیر کا ہی چلتا ہے لیکن کبھی کبھی اسی جنگل میں چیونٹیوں اور کمزور مکھیوں کا غول شیر کی ہڈیاں تک ہضم کر جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہم آپ سے نہیں جیت سکتے۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ آپ ہمیں ہرا نہیں سکتے۔

تو کیوں نہ آپ ہم جیسے اربوں بے توقیر اور کمزوروں کے لیے بھی وہی حقوق جائز اور حلال کردیں جو آپ نے ستائیس کروڑ امریکیوں کے لیے مختص کررکھے ہیں۔
کیا یہ بہت بڑی فرمائش ہے ؟

آپ کا مخلص
ایک آمریت گزیدہ پاکستانی



BBCUrdu.com

آصف علی زرداری کیلئے دعا ملک ریاض حسین


malik-riaz-logo.jpg





چند سال پہلے کی بات ہے جناب آصف علی زرداری جیل سے تازہ تازہ رہا ہوئے اور اسلام آباد سے کراچی تشریف لے گئے تھے ،میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے کراچی گیا۔ آصف علی زرداری رہائی کے بعد بہت مطمئن اور مسرور نظر آرہے تھے، مجھے ان کے اندر ایک گہرائی اور سکون نظر آرہا تھا، میں نے زندگی میں بے شمار سیاسی قیدی دیکھے ہیں ،جیل ایک ایسی خوفناک چیز ہے جو انسان کا توازن ختم کردیتی ہے، زیادہ تر لوگ جیل جاکر منفی ہوجاتے ہیں ، آپ نے اکثر دیکھا ہوگا جب کوئی شخص چھوٹے موٹے جرم میں ایک دوماہ کے لئے جیل جاتا ہے تو وہ وہاں سے واپس آتے ہی بڑا مجرم بن جاتا ہے، لوگ اس کو عموماً صحبت کا اثر کہتے ہیں لیکن میرا خیال اس سے قدرے مختلف ہے، میں سمجھتا ہوں نوے فیصد قیدیوں کو جیل منفی بنادیتی ہے، وہ لوگ جیل جاتے ہیں توان کی ذات میں پوشیدہ برائی ملٹی پلائی ہوجاتی ہے اور وہ جیل سے بڑے مجرم بن کر باہر آتے ہیں ، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں جیل سدھار دیتی ہے جو مجرم بن کر جیل کا پھاٹک عبور کرتے ہیں اور وہاں سے نیک بن کر باہر آتے ہیں ، یہی فارمولا سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ، دنیا کے زیادہ تر سیاستدان جیلوں میں جاکر منفی ہوجاتے ہیں ، یہ لوگ جونہی جیل سے باہر آتے ہیں تو یہ اپنے مخالفین سے انتقام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں ،پاکستان کی تاریخ میں بہت کم ایسے سیاستدان گزرے ہیں جو جیل میں گئے اور وہاں سے ریفارم ہوکر باہر نکلے ہوں یا جن کی خوبیوں میں جیل پہنچ کر اضافہ ہوا ہو، سیاستدانوں کے بارے میں ایک اور فلسفہ یہ ہے کہ کوئی سیاستدان اس وقت تک بڑا اور اچھا سیاستدان نہیں بنتا جب تک وہ جیل کا ذائقہ نہ چکھ لے، میں جب آصف علی زرداری سے کراچی میں ملاقات کے لئے گیا تو وہ مجھے دوسری قسم کے سیاستدان نظر آئے مجھے محسوس ہوا آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو کے خاوند کی حیثیت سے جیل میں گئے تھے لیکن وہ وہاں سے سیاستدان اور بڑے لیڈر بن کر نکلے ہیں ۔
میں نے آصف علی زرداری سے اس تبدیلی کا ذکرکیا تو وہ مسکرائے اور انہوں نے کہا میں نے جیل سے بہت کچھ سیکھا ہے ،میں جتنی دیر جیل رہا مجھے رہ رہ کر نیلسن منڈیلا یاد آتے رہے اور میں نے سوچا اگر مجھے موقع ملا تومیں پاکستان میں نیلسن منڈیلا کا کردار ادا کروں گا، میں نے ان سے اتفاق کیا میں نے ان سے عرض کیا پاکستان کا یہی پرابلم ہے، ہم لوگ آج تک انتقام سے باہر نہیں نکل سکے ہم میں سے جو شخص جب بھی اقتدار میں آتا ہے تووہ اپنے دشمنوں سے انتقام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیتا ہے، وہ دشمنوں کو سی آئی ڈی کے حوالے کردیتا ہے ،عدالتوں میں گھسیٹتا ہے ،نیب میں لے جاتا ہے، ہمارے سیاستدان یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے مخالف نے انہیں پانچ سال جیل میں رکھا تھا توجب تک وہ اپنے مخالف کو دس سال تک جیل میں بند نہیں کریں گے اس وقت تک ان کا انتقام پورا نہیں ہوگا، میں نے آصف علی زرداری سے کہا ہمیں یہ کلچر بدلنا ہوگا، انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا تھا، آج اسی آصف علی زرداری کو وقت نے خود کو بڑا لیڈر اور سیاستدان ثابت کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے، مجھے معلوم ہورہا ہے کہ وہ بڑی حد تک اس کام میں سنجیدہ ہیں ،مجھے پچھلے دنوں پتہ چلا آصف علی زرداری نے اپنے ہاتھ سے رولیکس کی گھڑی اتار دی، انہوں نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام ارکان کی قیمتی گھڑیاں بھی اتروا دی ہیں ، میں نے ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ پر بھی معمولی گھڑی دیکھی ،یہ بھی آصف علی زرداری کی ویژن اور کاز کے ساتھ کمٹمنٹ کو ظاہر کرتی ہے، مجھے پچھلے دنوں پتہ چلاکہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا جو بھی وزیر اعظم ہوگا وہ حلف اٹھاتے ہی اے ڈی سی اور ملٹری سیکرٹری فوج کوواپس کردے گا کیونکہ وزیر اعظم کو عوامی نظر آنا چاہئے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آصف زرداری ایک مانیٹرنگ سیل بھی بنائیں گے جو تمام وزارتوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتا اور وزیروں کی کارکردگی دیکھتا رہے گا، ماہانہ بنیادوں پر وزراء کی کارکردگی دیکھی جائے گی اور اس کی بنیادوں پر وزراء کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
مجھے ان کی باتیں بہت اچھی لگیں لیکن ساتھ ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ پاکستان کی یہ تاریخ ہے ہمارے ملک میں جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے تو وہ شروع میں اسی قسم کے اقدامات کرتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے تو حکمرانوں کی کچن کیبنٹ، حکمرانوں کو گھیرلیتی ہے اور وہ اپنے ہی لوگوں کے غلام بن کر رہ جاتے ہيں اگر ہم اپنے صدر پرویز مشرف کا جائزہ لیں تو ان کے گرد بھی تین نحوستیں دکھائی دیتی ہيں پہلے نمبر پر قریشی، دوسرے پر پیر زادہ اور تیسرے پر ملک صاحب ہیں یہ وہ تین نحوستیں ہیں جنہوں نے صدر کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے، یہ اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو بڑے بڑے سمجھدار حکمرانوں کو پاگل کردیتے ہیں اور حکمران آخر میں خود کو خلیفہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں ، میری آصف علی زرداری کے لئے دعا ہے کہ وہ اس قسم کی نحوستوں سے بچیں ،ساتھ ہی میری خواہش ہے کہ وہ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کو مانیٹر کرنے کے لئے ایک خصوصی سیل بنائیں ،یہ سیل روزانہ ایک شیٹ جاری کرے جس میں یہ ڈکلیئر کرے کہ آج ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے ۔ میرا خیال ہے یہ وہ اقدامات ہونگے جوآصف علی زرداری کو حقیقتاً اس ملک کا نیلسن منڈیلا بنائیں گے، نیلسن منڈیلا کے بارے میں اس کے ایک دوست نے ایک بار کہا تھا" جیلیں بے شمار بھگتتے ہیں لیکن ان جیلوں میں نیلسن منڈیلا کوئی کوئی بنتا ہے" میری خواہش ہے اللہ تعالیٰ آصف علی زرداری کو حقیقتاً نیلسن منڈیلا بناد

"ایران پر امریکی فوجی کارروائی کیخلاف ہیں : شاہ عبداللہ

"ایران پر امریکی فوجی کارروائی کیخلاف ہیں : شاہ عبداللہ"
ریاض ( آن لائن+ این این آئی) سعودی عرب نے ایران کے خلاف امریکی فوجی حملے کی مخالفت کر دی ہے۔ عرب خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بات سعودی شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کے دورے پر آئے ہوئے امریکی نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ ملاقات میں کہی ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں ایران کا ایٹمی پروگرام اور اس کے مشرق وسطی میں پڑنے والے اثرات عالمی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سمیت دیگر دوطرفہ اہم علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر سعودی شاہ عبداللہ نے کہا کہ ان کا ملک ایران کے خلاف کسی بھی امریکی فوجی حملے کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی تنازعہ کا بہترین حل مذاکرات ہیں۔ سعودی شاہ عبداللہ نے ڈک چینی کو مزید بتایا کہ مشرق وسطیٰ کو ایٹمی اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہئے اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کی کوششوں میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جانا چاہئے جس کے پاس بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور وہ خطے کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ دریں اثناء دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے ایجنڈے ميں دہشت گردی کیخلاف جنگ ميں پاکستان کا کردار اہم موضوع رہا تاہم بات چیت کی تفصیلات جاری نہيں کی گئی۔ دونوں رہنماؤں نے فلسطین لبنان اور عراق کی تازہ ترین صورتحال اور باہمی تعلقات سمیت تیل کی بڑھتی ہوئی قيمتوں پر تفصیلی بات چیت کی ۔

Thursday, March 20, 2008

مفتی اعلی سعودی عرب کفر کے فتواوں نے مشکلات میں مبتلا کیا ہے

مفتی اعلی سعودی عرب نے فرمایا ہے کہ کفر کے فتواوں نے مشکلات میں مبتلا کیا ہے


Geo Television Network

shafiqueahmed110.com - انا اللہ و انا الیہ راجعون

shafiqueahmed110.com - انا اللہ و انا الیہ راجعون: "انا اللہ و انا الیہ راجعون
پارٹی چیرین جناب عمران خان کے والد مرحوم جناب اکرااللہ خان صاحب کے انتقال پرملال پر میں پارٹی چیرین جناب عمران خان خاندان کے دوسرے افراد اور پارٹی کے سارے کارکنوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔اللہ آپ سب کو صبر جمیل عطا فرماویں اور مرحوم و مغفور جناب اکرااللہ خان صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ ‏�"

پاراچنار فسادات: ’امریکی ایجنڈہ ہے‘

پاراچنار فسادات: ’امریکی ایجنڈہ ہے‘

پریس کانفرنس کے دوران سابق سینٹر طارق چودھری نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پارا چنار میں ہونے والے شیعہ سنی فسادات امریکی ایجنڈے کے تحت ہورہے ہیں کیونکہ امریکہ ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنا چاہتا ہے۔

یہ بات انہوں نے اتوار کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

تحریک انصاف کے چئیر مین نے کہا کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی کے پاکستان آنے کا مقصد تھا کہ پاکستان کی سرزمین سے ایران کے خلاف دہشت گردی شروع کرائی جائے اور شیعہ سنی فساد پاکستان میں کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ شیعہ سنی اختلافات پیدا کرنے کے لیے صدر مشرف کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔

عمران خان نے صدر جنرل پرویز مشرف سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ پر واضح کردیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو دہشت گردی کےخلاف جنگ میں اس کاساتھ نہیں دیاجائےگا اور پاکستان میں اس کے تمام اڈے بند کردیئے جائیں گے۔




BBCUrdu.com

اپنی نوعیت کے پہلے سروے میں صرف پچاس فیصد قبائلی سیاسی

BBCUrdu.com

اکثریت عزت کے نام پر قتل کی حامی

قبائلی علاقوں میں کیا جانے والا یہ پہلا سروے تھا
ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیئے جانے والے حالیہ دنوں میں اپنی نوعیت کے پہلے سروے میں صرف پچاس فیصد قبائلی سیاسی جماعتوں کو ان کے علاقے میں کام کرنے کی اجازت دینے کے خواہاں ہیں۔

کمیونٹی اپریزل اینڈ موٹیویشن پروگرام یا کیمپ نامی ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے کرائے جانے والے اس سروے میں قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں میں سے ایک ہزار سے زائد لوگوں سے مختلف موضوعات پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔

ہر ایجنسی سے ڈیڑھ سو افراد جن میں پچاس خواتین شامل تھیں کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

تاہم اس سروے کے روح رواں اور کیمپ کے سربراہ نوید احمد شنواری نے اعتراف کیا کہ امن عامہ کی خراب حالت کی وجہ سے وہ باجوڑ کے علاوہ شمالی و جنوبی وزیرستان نہیں جاسکے اور بعض اوقات انہیں ان سوالات کے جواب بس اڈوں پر قبائلیوں سے لینے پڑے۔

سروے کے مطابق چوالیس فیصد قبائلی سیاسی جماعتوں کو قبائلی علاقوں میں سرگرمیوں کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ سیاسی جماعتوں کی آمد سے ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ امن عامہ اور طرز حکمرانی کی پہلے سے ابتر حالت مزید خراب ہوگی۔

ایک اور قدرے حیران کن نتیجے کے مطابق سڑسٹھ فیصد قبائلیوں نے جن میں خواتین بھی شامل ہیں عزت کے نام پر قتل کی حمایت کی ہے۔ اس کی حمایت کرنے والوں میں ناخواندہ افراد کے علاوہ پڑھے لکھے لوگ بھی تھے۔

قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹئر کرائمز ریگولیشن یا ایف سی آر کے بارے میں بھی منقسم رائے سامنے آئی ہے۔ انتالیس فیصد اس میں ترمیم جبکہ صرف اکتیس فیصد اسے ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ صرف سات فیصد اس جیسے ہے ویسے ہی رہنے دینے کے حق میں ہیں۔ قبائلیوں میں اس علاقے کو صوبہ سرحد میں شامل کرنے یا علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے کے بارے میں ابہام پایا گیا۔

قبائلی علاقوں کو درپیش اس وقت کے سب سے بڑے چیلنج یعنی ’طالبانئزیشن‘ کی اصل وجہ اکثر قبائلیوں کے مطابق ناخواندگی جبکہ کئی نے اسے افغانستان کا اثر، غیراطمینان بخش طرز حکمرانی اور بےروزگاری کو بھی بڑی وجوہات قرار دیا۔ تاہم سروے کے نتائج کی بنیاد پر تجویز تھی کہ شدت پسندی کا حل مقامی سطح پر حل سے نکالا جائے ناکہ فوج کے ذریعے۔

صرف سترہ فیصد قبائلی مسلح جہاد کے حامی پائے گئے جبکہ ستاون فیصد کے مطابق جہاد قرآن سیکھنا ہے لڑنا نہیں۔ پچاس فیصد کے خیال میں شریعت قبائلی علاقوں میں امن کا سبب بن سکتی ہے۔

لیکن ایک بات جس پر تقریباً تمام قبائلی (تراسی فیصد) متفق نظر آئے وہ اسلحہ رکھنا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ اسلحہ ان کی حفاظت یقینی بناتا ہے۔

پاکستان میں برطانیہ کے نائب سفیر رے کائل کا کہنا تھا کہ یہ سروے قبائلی علاقوں سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات کے جواب مہیا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے بارے میں جوکہ دنیا میں نظروں میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ یہ سروے لوگوں کی آواز کو سامنے لایا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے جنگی میدان بنے ہوئے ہیں جسے نظر انداز کیا گیا ہے۔

قبائلی علاقوں سے واقفیت رکھنے والے سابق سیکٹری سیکورٹی بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ یہ سروے اس اہم علاقے میں اصلاحات کی بنیاد کا کام دے سکتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ سیاسی جماعتیں اس علاقے میں جاکر ہی تبدیلی کے لیئے راہ ہموار کرسکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے ایف سی آر کو خصوصی علاقے کے لیئے ایک مخصوص قانون قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سروے سے واضع ہوتا ہے کہ قبائلی پاکستانی قوانین نہیں چاہتے۔

پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر اعجاز خان نے امید کا اظہار کیا کہ اس سروے کو اب بنیاد بنا کر وزراء خود فیصلے کر سکتے ہیں اور نوکرشاہی کے اثر سے آذاد ہوجائیں گے۔ وہ اس تاثر سے متفق نہیں کہ قبائلی تبدیلی نہیں چاہتے۔ ’سیاسی جماعتوں کے کردار سے قبائلی ہی نالاں نہیں پاکستان کے کسی بھی علاقے کا شخص ہوگا۔ وہ اس وجہ سے تبدیلی سے خوفزدہ ہیں۔’ ان کے بقول سارا مسئلہ گورننس کا ہے۔’

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...