Sunday, March 30, 2008

وزیراعظم کی اچھی مگر ادھوری تقریر سلیم صافی کا کالم

وزیراعظم کی اچھی مگر ادھوری تقریر


safi.jpg





یوں تو 2002ء سے نومبر2007ء تک بھی ایک پارلیمنٹ موجود رہی لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ جینوئن پارلیمنٹ نہیں تھی ۔ وہ پارلیمنٹ وردی کے زیرسایہ کام کررہی تھی ۔ اس پر عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ کا گمان ہورہا تھا اور نہ اس کے قائد ایوان حقیقی قائدایوان نظر آرہے تھے ۔ نہ صرف یہ کہ اس پارلیمنٹ کے قائدایوان اس وقت کے آرمی چیف کو اپنا باس قرار دے رہے تھے بلکہ حقیقی معنوں میں بھی اس وقت اختیار وزیراعظم ہاؤس نہیں بلکہ آرمی ہاؤس کے پاس تھا۔ 2002ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی تھیں اور ان میں بیٹھے ہوئے بیشتر لوگ قوم کے حقیقی نہیں بلکہ جعلی نمائندے تھے ۔ اب کے بار معاملہ الٹ ہے ۔ اگرچہ قومی سطح کے بیشتر لیڈر جیسے میاں نواز شریف ، بلاول بھٹو زرداری ، قاضی حسین احمدخان ، عمران خان اور محمود خان اچکزئی نئی قومی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی یہ اسمبلی جعلی نہیں بلکہ حقیقی اسمبلی نظر آرہی ہے ۔ اس میں بیٹھے ہوئے لوگ گذشتہ اسمبلی کے ممبران کی طرح سہمے سہمے نہیں ہیں ۔ وہ ایسے بولتے ہیں جیسا کہ عوام کے حقیقی نمائندے بولتے ہیں اور شاید اسی لئے اس اسمبلی کا قائدایوان بھی حقیقی قائدایوان نظر آرہا ہے ۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جس طرح گرفتار ججوں کی رہائی کا اعلان کیا ، اس نے ان کے بااختیار ہونے کا یہ روپ مزید نکھار دیااور اب اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد انہوں نے جو خطاب کیا اس سے پہلی مرتبہ یہ گمان ہونے لگا کہ یوسف رضاگیلانی شاید سچ مچ اس ملک کے وزیراعظم ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ نو سالوں میں پہلی مرتبہ ایک دل خوش کن تقریر سننے کو ملی ۔ وہ ایک آزاد ملک کے خودمختار پارلیمنٹ کے بااختیار وزیراعظم کی تقریر معلوم ہورہی تھی ۔ انہوں نے وہی باتیں کیں ، جن کی توقع ایک حقیقی معنوں میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے قائدایوان سے کی جاسکتی ہے۔ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے سید یوسف رضاگیلانی نے ٹریڈ یونین اور طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ انہوں نے احتساب کے عمل کو انتظامیہ کی بجائے عدلیہ کی ماتحت بنانے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ سول اداروں میں کام کرنے والے فوجی افسروں کو دو ہفتے کے اندر اندر واپس فوج میں بھیج دیا جائے گا ۔ انہوں نے حکومتی اداروں میں بچت مہم شروع کرنے کا بھی اعلان کیا اور واضح کیا کہ اس مہم کا آغاز وزیراعظم ہاؤس سے اس کے بجٹ میں چالیس فی صد کٹوتی کے ذریعے کی جائے گی ۔ اسی طرح سرکاری عمارتوں پر غیرضروری چراغاں کرنے پر پابندی عائد ہوگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزراء سولہ سی سی سے زائد کی گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے ۔ ہوائی جہاز کے اکانومی کلاس میں سفر کریں گے ۔ انہوں نے فاٹا سے ایف سی آر کے ظالمانہ قانون کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ انہوں نے میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پمرا کے وہ قوانین جو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگاتے ہیں منسوخ کئے جائیں گے ۔ اس سے متعلق مفاہمتی کمیٹی کے معاہدوں پر عمل ہوگا ۔ اخباری ملازمین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ۔ مدارس میں یکساں نصاب رائج کیا جائے گی اور ان کو ملنی والی رقوم کا آڈٹ کیا جائے گا ۔ چھوٹے ڈیمز بنانے کے منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا جبکہ توانائی سے متعلق دیگر منصوبوں کا بھی جلد از جلد آغاز ہوگا۔ نجی و سرکاری شعبے میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں گے ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا ۔ وفاق میں شامل اکائیوں کی محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آئین سے کنکرنٹ لسٹ ختم کرکے اختیارات صوبوں کو منتقل کئے جائیں گے۔
مذکورہ تقریر میں وزیراعظم نے جو اعلانات کئے ،ان پر دل خوش ہوا ۔ ان کے کسی بھی اعلان اور ارادے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔ تبھی تو مسلم لیگ (ق) کے فیصل صالح حیات نے بھی ان کے اعلانات اور عزائم کی ستائش کی ۔ کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے اختیارات صوبوں تک منتقل کرنے کا معاملہ ہو، ٹریڈ اور طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کی بات ہو،سرکاری اخراجات میں کمی کا معاملہ ہو، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کا ایشو ہو، چھوٹے ڈیمز بنانے اور توانائی کے نئے منصوبے شروع کرنے کا پروگرام ہو اور یا سول اداروں سے فوجی افسروں کی رخصتی کا منصوبہ ، یہ سب وہ اقدامات ہیں جن کا مطالبہ پوری قوم کررہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حسب وعدہ عمل ہوسکے گا یا نہیں ۔ اچھے اور دل خوش کن منصوبوں کا اعلان نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد مشکل ہے ۔ اسی طرح کے دل خوش کن اقدامات کا اعلانات ماضی میں بھی کئی حکمران کرچکے ہیں لیکن افسوس کہ کوئی بھی ان پر عمل درآمد نہ کرسکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی اور ان کے ساتھی کس طرح ان اعلانات کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
وزیراعظم صاحب کی تقریر اچھی تھی اور بہت اچھی تھی لیکن بعض حوالوں سے یہ ادھوری بھی تھی ۔ اس تقریر میں معزول چیف جسٹس اور ججوں کی بحالی کا تذکرہ واشگاف الفاظ میں موجود نہیں تھا۔ اس تقریر میں فاٹا میں ایف سی آر کے نظام کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا گیا جو نہایت مشکل کام اور بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے لیکن وہاں سے فوج کے انخلاء کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ جس کی فوری ضرورت ہے اور جو نسبتاً قابل عمل بھی ہے ۔ اس تقریر میں خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو ملنے والے معاوضے کا بڑھانے کا تو اعلان کیا گیا لیکن خودکش حملوں کے سلسلے کو روکنے کے لئے کسی قابل عمل منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح یہ تقریر سوات اور بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے تذکرے سے بھی محروم تھی ۔ اس تقریر میں قومی مفاہمت کی بات تو کی گئی لیکن بلوچ قوم پرستوں اور مذہبی عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس تقریر میں صوبوں کے احساس محرومی میں کمی لانے کے لئے کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا گیا لیکن صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی اور اس غریب صوبے کو بجلی کے نٹ پروفٹ کی رقم کی ادائیگی کے تذکرے سے یہ تقریر محروم رہی ۔ یوں یہ تقریر اچھی ہونے کے باوجود ادھوری تھی اور قوم توقع کررہی ہے کہ جلد از جلد اس تقریر کو مکمل کرکے اس پر عمل جنگی بنیادوں پر عمل درآمد کا آغاز کیا جائے ۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...