Thursday, March 20, 2008

اپنی نوعیت کے پہلے سروے میں صرف پچاس فیصد قبائلی سیاسی

BBCUrdu.com

اکثریت عزت کے نام پر قتل کی حامی

قبائلی علاقوں میں کیا جانے والا یہ پہلا سروے تھا
ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیئے جانے والے حالیہ دنوں میں اپنی نوعیت کے پہلے سروے میں صرف پچاس فیصد قبائلی سیاسی جماعتوں کو ان کے علاقے میں کام کرنے کی اجازت دینے کے خواہاں ہیں۔

کمیونٹی اپریزل اینڈ موٹیویشن پروگرام یا کیمپ نامی ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے کرائے جانے والے اس سروے میں قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیوں میں سے ایک ہزار سے زائد لوگوں سے مختلف موضوعات پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔

ہر ایجنسی سے ڈیڑھ سو افراد جن میں پچاس خواتین شامل تھیں کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

تاہم اس سروے کے روح رواں اور کیمپ کے سربراہ نوید احمد شنواری نے اعتراف کیا کہ امن عامہ کی خراب حالت کی وجہ سے وہ باجوڑ کے علاوہ شمالی و جنوبی وزیرستان نہیں جاسکے اور بعض اوقات انہیں ان سوالات کے جواب بس اڈوں پر قبائلیوں سے لینے پڑے۔

سروے کے مطابق چوالیس فیصد قبائلی سیاسی جماعتوں کو قبائلی علاقوں میں سرگرمیوں کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ سیاسی جماعتوں کی آمد سے ان لوگوں کو خدشہ ہے کہ امن عامہ اور طرز حکمرانی کی پہلے سے ابتر حالت مزید خراب ہوگی۔

ایک اور قدرے حیران کن نتیجے کے مطابق سڑسٹھ فیصد قبائلیوں نے جن میں خواتین بھی شامل ہیں عزت کے نام پر قتل کی حمایت کی ہے۔ اس کی حمایت کرنے والوں میں ناخواندہ افراد کے علاوہ پڑھے لکھے لوگ بھی تھے۔

قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹئر کرائمز ریگولیشن یا ایف سی آر کے بارے میں بھی منقسم رائے سامنے آئی ہے۔ انتالیس فیصد اس میں ترمیم جبکہ صرف اکتیس فیصد اسے ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ صرف سات فیصد اس جیسے ہے ویسے ہی رہنے دینے کے حق میں ہیں۔ قبائلیوں میں اس علاقے کو صوبہ سرحد میں شامل کرنے یا علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے کے بارے میں ابہام پایا گیا۔

قبائلی علاقوں کو درپیش اس وقت کے سب سے بڑے چیلنج یعنی ’طالبانئزیشن‘ کی اصل وجہ اکثر قبائلیوں کے مطابق ناخواندگی جبکہ کئی نے اسے افغانستان کا اثر، غیراطمینان بخش طرز حکمرانی اور بےروزگاری کو بھی بڑی وجوہات قرار دیا۔ تاہم سروے کے نتائج کی بنیاد پر تجویز تھی کہ شدت پسندی کا حل مقامی سطح پر حل سے نکالا جائے ناکہ فوج کے ذریعے۔

صرف سترہ فیصد قبائلی مسلح جہاد کے حامی پائے گئے جبکہ ستاون فیصد کے مطابق جہاد قرآن سیکھنا ہے لڑنا نہیں۔ پچاس فیصد کے خیال میں شریعت قبائلی علاقوں میں امن کا سبب بن سکتی ہے۔

لیکن ایک بات جس پر تقریباً تمام قبائلی (تراسی فیصد) متفق نظر آئے وہ اسلحہ رکھنا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ اسلحہ ان کی حفاظت یقینی بناتا ہے۔

پاکستان میں برطانیہ کے نائب سفیر رے کائل کا کہنا تھا کہ یہ سروے قبائلی علاقوں سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات کے جواب مہیا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے بارے میں جوکہ دنیا میں نظروں میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ یہ سروے لوگوں کی آواز کو سامنے لایا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے جنگی میدان بنے ہوئے ہیں جسے نظر انداز کیا گیا ہے۔

قبائلی علاقوں سے واقفیت رکھنے والے سابق سیکٹری سیکورٹی بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ یہ سروے اس اہم علاقے میں اصلاحات کی بنیاد کا کام دے سکتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ سیاسی جماعتیں اس علاقے میں جاکر ہی تبدیلی کے لیئے راہ ہموار کرسکتی ہیں۔ تاہم انہوں نے ایف سی آر کو خصوصی علاقے کے لیئے ایک مخصوص قانون قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سروے سے واضع ہوتا ہے کہ قبائلی پاکستانی قوانین نہیں چاہتے۔

پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر اعجاز خان نے امید کا اظہار کیا کہ اس سروے کو اب بنیاد بنا کر وزراء خود فیصلے کر سکتے ہیں اور نوکرشاہی کے اثر سے آذاد ہوجائیں گے۔ وہ اس تاثر سے متفق نہیں کہ قبائلی تبدیلی نہیں چاہتے۔ ’سیاسی جماعتوں کے کردار سے قبائلی ہی نالاں نہیں پاکستان کے کسی بھی علاقے کا شخص ہوگا۔ وہ اس وجہ سے تبدیلی سے خوفزدہ ہیں۔’ ان کے بقول سارا مسئلہ گورننس کا ہے۔’

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...