Sunday, April 6, 2008

بھٹوتو ہمارا پیرومرشد ہے اور ہمارا تو سیاسی قبلہ بھی یہی ہے

’ہم جیے بھٹو کہے جائیں گے‘

بھٹو کا مزار
کیچڑ سے لتھڑے پیروں اور کپڑوں اور مٹی سے اٹے چہروں کے ساتھ لوگ بھٹو کے مزار پر حاضری دے رہے تھے۔
پاکستان میں سیاست کو عوام تک لانے والے ذوالفقار علی بھٹو آج بھی ایک نظریے کے طور پر زندہ ہیں اور بینظیر بھٹو کے قتل نے اس نظریے کو اب ایک عقیدے میں بدل دیا ہے۔اس کا مظاہرہ ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے ان تمام نمائندوں نے دیکھا جو چار اپریل کو لاڑکانہ کے ایک پسماندہ دیہی علاقےگڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتیسویں برسی کی تقریبات کی کوریج کےلیے جمع تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی یہ پہلی برسی تھی جو بے نظیر بھٹو کے قتل بعد منائی گئی۔
اگرچہ تین اپریل کی شب ہونے والی برسی کی باقاعدہ تقریبات بارش کی نذر ہوگئیں جن سے پارٹی کے قائدین اور حکومتی عہدیداروں کو خطاب کرنا تھا اور ہر سال کی طرح بھٹو کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم دہرانے کی ریت بھی نبھانی تھی۔ لیکن اس سے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑا جو برسی کے لیے ملک کے طول و عرض سے وہاں پہنچے تھے۔


بہت سے لوگوں نے طوفان بادوباراں کے بعد گڑھی خدا بخش سے لاڑکانہ جانے والی سڑکوں پر تمام رات بدترین ٹریفک جام کے باعث اپنی گاڑیوں میں ہی بسر کی لیکن سرد رات ڈھلنے کے بعد اگلی صبح جب دن چڑھا اور ٹریفک کھلا تو لوگ مزار کے گرد دوبارہ جمع ہوگئے اور جیے بھٹو، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، زندہ ہے بی بی زندہ ہے کے نعروں سے فضاء گرماتے رہے۔

آندھی اور بارش کے بعد مزار کے اطراف کچی مٹی کیچڑ بن گئی تھی اور اسی کیچڑ سے لتھڑے پیروں اور کپڑوں اور مٹی سے اٹے چہروں کے ساتھ لوگ بھٹو کے مزار پر حاضری دے رہے تھے۔

حاضرین میں ہر عمر، جنس اور نسل کے لوگ شامل تھے۔ مرد، عورتیں، بچے، خواجہ سرا، سندھی، مہاجر، بلوچی، پنجابی، سرائیکی، پختون، قبائلی، بلتستانی اور کشمیری لیکن سب میں ایک شے مشترک تھی اور وہ تھی بھٹو خاندان سے محبت اور عقیدت۔ ان میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق تو لاڑکانہ اور سندھ کے دوسرے حِصّوں سے تھا لیکن کئی افراد ایسے بھی تھے جو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ صوبہ سرحد، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔

میں نے ان میں سے کئی ایک سے بات کی اور یہی پوچھا کہ بھٹو سے ان کا ایسا کیا تعلق اور لگاؤ ہے کہ وہ دور دور سےگڑھی خدا بخش پہنچے ہیں۔ صوبہ سرحد کے علاقے لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مشعل خان آزاد نے مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’یہ تو ہمارا پیرومرشد ہے اور ہمارا تو سیاسی قبلہ بھی یہی ہے تو ہر سال ہم اس کا طواف ضرور کرتے ہیں‘۔



’اگر بھٹو نہیں ہوگا تو پاکستان نہیں ہوگا، چاہے وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اگر آپ بھٹو فیکٹر کو پاکستان سے نکال دیں تو پھر کوئی صوبہ کوئی ضلع پھر ایک پاکستان نہیں کہلائے گا۔‘

پنجاب کے علاقے خان پور سے آئے ہوئے غلام غوث نے کہا ’پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ایک مسلک بن چکا ہے، جیسے کوئی مذہب ہوتا ہے۔ ہمارا وہ (بھٹو) پیر ہے، ہمارا وہ مرشد ہے اور ہم بھٹو مسلک کے لوگ بن گئے ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں بھی اسی پر چلیں گی‘۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی تین سالہ بیٹی کا نام ثناء بے نظیر رکھ دیا ہے اور دونوں بیٹوں عثمان اور حسیب کے نام عثمان بھٹو اور حسیب بھٹو رکھ دیے ہیں۔

لاڑکانہ کے پڑوسی ضلع شکارپور کے نوجوان نے بھٹو خاندان سے محبت کی وجہ پیش کی کہ ’ہمارے بڑے تھے وہ بھی بھٹو صاحب سے محبت کرتے تھے اور ان کی موت کے بعد یہاں آتے تھے، ہم بھی ان کی طرح یہاں آتے ہیں اور جب تک زندہ ہیں جیے بھٹو کہتے رہیں گے‘۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس رتو ڈیرو کے ایک ستر سالہ بزرگ شخص کا کہنا تھا کہ ’ہم جو بھی ہیں سید، فقیر یعنی عوام، بھٹو صاحب ہم سب کی خوشحالی چاہتے تھے‘۔

بلوچستان کے علاقے خاران سے آئے ہوئے تیس سالہ شیر باز ساسولی کا کہنا تھا کہ ’بھٹو نے پوری قوم کو ایک راہ دی، اس کے بغیر یہ ایک اندھی قوم تھا، کوئی راہ ان کو نہیں مل رہا تھا یہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت تھا جس نے اس قوم کو اس ملک کو جتنے بھی قبائل تھا انہیں متحد کیا بھٹو نے‘۔



پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آئے ہوئے پینتیس سالہ شخص نے کہا ’بھٹو نے ہم کشمیریوں کو جینا سکھایا، ہم مرتے دم تک اسکے پیروکار رہیں گے اور اس مزار پر حاضری بھرتے رہیں گے‘۔

پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فرہاد شباب آفریدی نے کہا ’بی بی اور ان کے خاندان کی اتنی قربانیاں ہیں کہ آنے والا نسل بھی پاکستان کو قائم اور آباد رکھے گا‘۔

گلشن حدید کراچی سے آنے والے پینتالیس سالہ بدرالدین نے جب بات شروع کی تو وہ رو پڑے۔ ’بھٹو صاحب کے ساتھ جو لوگ والہانہ محبت کرتے ہیں، یہ جواب ہے بھٹو کا غریبوں کے ساتھ، مظلوموں کے ساتھ محکموں کے ساتھ والہانہ محبت کا۔ بھٹو صاحب نے اس سے بڑھ کر محبت کی اور جو محبت کا تسلسل ہے وہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا‘۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی باگ ڈور اب بھٹو خاندان کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ آصف علی زرداری کے پاس ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران نئی قیادت کے فیصلوں کو پارٹی سے وابستہ لوگ گہری نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً خان پور کے غلام غوث نے کہا کہ ’آصف زرداری صاحب کے آنے کے بعد ہمیں خدشات تھے کہ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا، لیکن الحمد للہ جس طریقے سے انہوں نے پارٹی کو چلایا ہے اور جتنی دانشمندی کے ساتھ فیصلے کئے ہیں وہ قابل تحسین ہیں‘۔

لیکن لاڑکانہ کے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ’زرداری صاحب سے امیدیں اچھی ہیں مگر وہ ایم کیو ایم سے مل گیا ہے یہ بات اس کی اچھی نہیں ہے اگر وہ سندھ میں خود حکومت چلاتے تو اچھا ہوتا‘۔

وہاں موجود کراچی کے چھیالیس سالہ شمس الدین سومرو نے فوری مداخلت کی۔ ’میں نے ایم آر ڈی کی تحریک میں جیل کاٹی ہے، جیسے بھائی نے کہا کہ آصف زرداری ایم کیو ایم سے مل گئے ہیں تو یہ چیز نہیں ہے وہ تو محترمہ کی پیروی کر رہے ہیں، ایم کیو ایم سے مفاہمت ہماری پارٹی کے مفاد میں بھی بہت اچھا قدم ہے اور صوبے اور ملک کے مفاد میں بھی ہے‘۔

پارٹی کی نئی قیادت کے بارے میں لکی مروت کے مشعل خان آزاد کی دلیل بالکل الگ تھی۔ ’جب تک بھٹو صاحب کا مزار ہے اس مزار سے انوار اٹھتے رہیں گے، ہمارا ایک نعرہ ہوتا ہے جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا، پارٹی کی قیادت چلتی رہے گی چاہے وہ جس کے پاس بھی ہو، یہ تو پھر آصف زرداری ہیں جو محترمہ کے شریک حیات رہے ہیں‘۔



BBCUrdu.com

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...