Saturday, April 5, 2008

’صفدر ھمٰدانی۔۔ لندن : سابق وزیسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔�

’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘



اپریل کو موسم بہار کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن اسی اپریل میں خون رنگ پھول بھی شاخوں پر جھول جاتے ہیں۔فیض احمد فیض نے بھی جب یہ کہا تھا کہ، ’پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں‘۔ تو نہ جانے انکے ذہن میں یہ پھول بھی تھا کہ نہیں کہ جسے ایک آمر مطلق جنرل نے اپنی انا کی شاخ پر ایسے کھلا دیا تھا کہ آج اسکی خوشبو جمہوریت اور آمریت دشمن بستیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو سے ہماری عمر کے لوگوں کی محبت اور عقیدت ان کے اس نظریے کی وجہ سے تھی کہ جس کا مقصد حکومت عوام کی اور عوام کے لیئے قائم کرنا اور ان کے منہہ میں زبان دینا تھی۔

جنرل محمد ایوب خان ملک کے دوسرے صدر تھے جو 11سال اس منصب پرفائز رہے ۔انہوں نے 27 جنوری 1958کو صدر کا عہدہ سنبھالااور 25 مارچ 1969کو اقتدار جنرل یحیْ خان کے سپرد کردیا.صدر جنرل یحیْ خان نے سقوط ڈھاکہ کے 4 روز بعد20 دسمبر 1971 کو اقتدار چھوڑ دیا اور اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین اور سابق وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے چوتھے صدر بنے۔

1968اور1969میں جب ایوب خان اور یحیٰ خان کے خلاف بھٹو صاحب کی تحریک چل رہی تھی تو میں اسوقت لاہور کے ایف سی کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور یہ وہ کالج تھا جس کے طلبانے کبھی کسی تحریک یا ہڑتال یا مظاہرے میں حصہ نہیں لیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ایف سی کالج لاہور کے طلبا نے ہڑتالوں اور مظاہروں میں بہت بھر پور طریقے سےحصہ لیا اور صورت حال اس درجہ خراب ہوئی کہ جنرل شیر علی نے ایف سی کالج سے ملحقہ نہر پر باقاعدہ توپیں لگوا دیں کہ طلبا کالج سے نکل نہ سکیں۔

کالج کی انتظامیہ بھی یہی چاہتی تھی کی طلبا باہر نہ جائیں لیکن ہم سب دوست جن میں سید زادہ انجم انور،جمیل الدین راٹھور،طارق چوہدری،راجہ اعجاز اللہ،ندیم افضل اور دیگر ساتھی شامل تھے ہم نے ہیلی کالج آف کامرس کے طالب علم رہنما جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج کے ثمر خان سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم جلوس لیکر ہر طرح مال روڈ تک پہنچیں گے اور پھر یونہی ہوا کہ ہم نے طے کیا کہ نہر کے راستے جانے کی بجائے گلبرگ کی طرف سے جایا جائے۔

اسی دوران نیو کیمپس سے نکلنے والا جلوس بھی ایف سی کالج کے قریب پہنچ گیا لیکن پولیس نے سخت لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینک کر جلوس کو منتشر کر دیا تا ہم نیو کیمپس کے طلبا بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کسی نہ کسی طرح مال روڈ پر پہنچ گئے اور اسی طرح ہم سب ایف سی کالج سے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر کر مال روڈ پہنچے اور ایم اے او کالج سے افتخار فتنہ کی قیادت میں طلبا یہاں پہنچے جہاں جہانگیر بدر کی قیادت میں زبردست جلوس نکلا جس نے انتظامیہ کی نیندیں اڑا دیں اور پولیس نے ہر طرح سے مظاہرین کومنتشر کرنے کا تہیہ کر لیا۔

اسی دوران ثمر خان اور چند دیگر ساتھیوں نے مال روڈ پر واقع ‘‘راجہ وائن‘‘ کی دوکان کو آگ لگا دی تو پولیس نے بیدردی سے طلبا پر لاٹھی چارج کیا۔ مجھے اسوقت خدائی امداد کے طور پر معروف صحافی صالح ظافر نے اپنے ویسپا سکوٹر پر بٹھا کر وہاں سے نکالا اور اس طرح سے اس دن ہماری جان بچ گئی لیکن اگلے روز ہم میں سے بیشتر ساتھی مال روڈ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیئے گئے۔

ایف سی کالج کے ساتھیوں میں میرے علاوہ،جمیل الدین راٹھور،راجہ اعجاز اللہ اور کچھ دوسرے طلبا اور اسی طرح ہیلی کالج سے جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج سے ثمر خان اور کچھ اور طلبا کو شمع سینماکے سامنے کیمپ جیل میں رکھا گیا لیکن جلدہی ذاتی مچلکوں پر رہائی مل گئی۔

میں نے کالج کے بعد صحافت میں ایم کرنے کے لیئے جب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسوقت تک شعبہ صحافت پر جماعت اسلامی کی گرفت تھی اور شعبے کی صدر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے علاوہ مرحوم وارث میر اور مسکین علی حجازی کے نظریات و خیالات بھی جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتے تھے۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر تھے اور شعبہ صحافت کے ترقی پسند استاد مہدی حسن کی نوکری اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے معطل تھی۔ جامعہ پنجاب میں بائیں بازو کے طلبا کی قیادت اس وقت راجہ انور کر رہے تھے۔لہٰذا ہم سب نے مل کر مہدی حسن صاحب کو بحال کروانے کی تحریک چلائی اوربالآخر انکی بحالی پر جب تقریب منعقد کرنے کے لیئے مرحوم حنیف رامے کو مدعو کیا تو صدرشعبہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے رخصت لے لی تا ہم طلبا کے مشیر ہونے کے ناطے وارث میر صاحب نے اس تقریب میں شرکت کی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب پاک ٹی ہاؤس میں ہم نوجوان لکھاریوں کا گروپ خوب ابھرا تھا جن میں میرے علاوہ زاہد کامران،باصر کاظمی،حسن سلطان کاظمی،اختر کاظمی،شعیب بن عزیز،جاوید سید،راجہ اعجاز،محسن نقوی،اظہر سہیل،افضال سید،سلیم طاہر،ارشاد عرشی وغیرہ شامل تھے۔

پھر جب میں 1974میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوا تو اپنے ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کی وجہ سے ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا۔ یہاں بھی ایسے قلم کار ساتھی میسر آئے جنہوں نے اس آتش کو اور بھڑکایا جن میں اقبال فہیم جوزی،مرحومہ شائستہ حبیب،نسرین انجم بھٹی،ستار سید،افضال بیلا خاص طور پر نمایاں تھے۔

اسوقت کے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی یوں تو اپنے نظریات میں دائیں بازو کے فرد تھے لیکن ابن الوقتی کے فارمولے سے خوب آشنا ہونے کے باعث انہوں نے مزدور اور کسانوں کے لیے نغمات لکھ کر خود کو بائیں بازو اور ترقی پسند حلقوں میں بھی متعارف کروا لیا تھا لیکن جب آمر مطلق جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تو اس رات ذوالفقار علی بھٹو کی آخری پریس کانفرنس اور جنرل ضیاالحق کی پہلی کانفرنس میں نے خود ریکارڈ کی تھی اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے مجھے رات دفتر میں ہی رکنا پڑا اور مارشل لا کا سرکاری اعلان لاہور ریڈیو سے نشر کرنا پڑا۔

لاہور ریڈیو پر بیرونی تقریبات کی ریکارڈنگ کی ٹیم میں میرے علاوہ مرحوم عتیق اللہ شیخ، افضالبیلا،اقبال جوزی تھے اور ہمیں لوگ بھٹو صاحب کی تقاریر ریکارڈ کر کے نشر کیا کرتے تھے۔ ایسے میں جب بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا تو لاہور ریڈیو کے اسوقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے صدر دفتر اور مارشل لا انتظامیہ کو یہ کہہ کر کہ ہم پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں ہمیں لاہور سے ٹرانسفر کروا دیا۔ میرا اور عتیق اللہ کا تبادلہ حیدر آباد ہوا اور اقبال جوزی شاید کراچی بھیجا گیا۔

میں نے طے کر لیا کہ حیدر آباد نہیں جاؤں گا اب جو تگ و دو شروع کی تو میری اہلیہ ماہ پارہ کے ایک رشتے کے چچا بریگیڈئر جرار حیدر اسوقت چیف انسپکٹر آف آرمامنٹ تھے اور مارشل لا ڈیوٹی پر تھے،

لہٰذا انکی مدد سے تبادلہ حیدر آباد کی بجائے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن راولپنڈی تھری پر ہو گیاجو ریڈیو تراڑ کھل تھا جہاں اسوقت ہمارے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد عمر،پروگرام مینجر بشیر زیدی اسیر اور ترقی پنسد دوستوں میں طاؤس بانہالی،بشیر صرفی ،احمد ظفر اور فقیر حیسن ساحر شامل تھے۔

یہ ریڈیو تراڑ کھل پشاور روڈ پر سپریم کورٹ کی اس عمارت کے قریب تھا جہاں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ یہاں بھی ایک عجیب واقعہ ہوا جو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی کی ایک سچی کہانی ہے۔

ہوا یوں کے قائد اعظم یونیورسٹی کے میرے ایک ہمنام سٹوڈنٹ لیڈر بھی اسوقت راولپنڈی میں تھے اور فلش مین ہوٹل میں بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار سے ملا بھی کرتے تھے اور مقدمے کی سماعت سننے سپریم کورٹ بھی جایا کرتے تھے لیکن خفیہ والے ساری رپورٹ تو انکی لکھتے لیکن گاڑی کا نمبر میرا لکھ دیتے تھے۔
میرے ایک کالج فیلو اور بہت اچھے دوست سید زادہ انجم انور ان دنوں ‘‘دلائی کیمپ‘‘ سے تبدیل ہو کر راولپنڈی تعینات ہوئے تو انکے خفیہ محکمے نے انہیں پہلا کام یہ سونپا کہ ‘‘صفدر ھمدانی ‘‘ کو اٹھایا جائے۔

سید زادہ نے جب فائل دیکھی تو وہ میرے پاس تراڑکھل ریڈیو آئے اور باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ کیا اور وہ فائل بھی دکھائی جو انہیں کے محکمے کے ‘‘فدویوں‘‘ نے تیار کی تھی۔ وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ میں اس ایک غلطی پر بچ گیاکہ فدوی نے ہر بار فائل میں لکھا تھا‘‘صفدر ھمدانی،سٹوڈنٹ لیڈر ریڈیو پاکستان‘‘

میرا قیام لالہ زار میں تھا جہاں میرے قریب ہی پی ٹی وی کے شعبہ خبر کے ایڈیٹر مرحوم خالد محمود ربانی بھی رہتے تھے جو اکثر رات کو ٹی وی سے واپسی پر میرے ہاں آ جاتےتھے اور ہم دیر تک حالات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے۔

میری اہلیہ ماہ پارہ ان دنوں پی ٹی وی راولپنڈی ،اسلام آباد میں نیوز کاسٹر تھیں اور اسلام آباد ہی کے ‘‘لوک ورثہ‘‘ میں محقق کے طور پر کام کر ہی تھیں اور 3 اور 4 اپریل 1979کو اپنی تحقیق کے سلسلے میں ایبٹ آباد میں تھیں۔ اسی 3 اور 4 اپریل 1979کی درمیانی رات جب خالد محمود ربانی کوئی رات دس بجے میرے ہاں آئے تو انہوں نے بتایا کہ آج علی الصبح بھٹو صاحب کو پھانسی ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا آپ کا قیافہ ہے یا کوئی یقینی بات۔ وہ بولے کہ نہیں ،دراصل آج دفتر میں کچھ احکامات ایسے ہیں جن سے یہی لگتا ہے کیونکہ اسلم کیمرہ مین کو بھی فوج نے بلوایا ہے۔(یہ وہی اسلم کیمرہ مین ہے جس نے بھٹو صاحب کے تمام آخری لمحات کی فلم بنائی تھی جسے بعد میں آئی ایس پی آر میں ضائع کر دیا گیا تھا)

چار اپریل کی صبح کوئی چار بجے کے قریب میں اور خالد محمود ربانی جب راولپنڈی جیل کی طرف گئے تو فضا یوم عاشور کی طرح سوگوار تھی لیکن مردہ مردہ سی فضا کسی کے قتل کی خبر دے رہی تھی تا ہم بظاہر جیل اور اسکے اطراف میں کسی قسم کی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں تھی۔

مجھے خالد محمود ربانی کی اطلاع پر یقین نہیں تھا لیکن وہ خود اس خبر پر مصر تھے۔ گھر واپس آکر ہم دونوں سو نہ سکے تا آنکہ ریڈیو پاکستان کی صبح 6 بجے کی خبروں میں یہ خبر حمید اختر نے پڑھی۔خبروں کے پورے بلیٹن کے آخر میں مختصر سی خبر یوں تھی کہ ’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی الصبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘سارے ملک کی فضا سوگوار تھی، دفتر میں طاوس بانہالی،احمد ظفر،بشیر زیدی،محمد عمر سب ایک دوسرے سے مل کر رورہے تھے۔
میں نے اس دن دو غزلیں لکھی تھیں۔ ایک کچھ اس طرح تھی۔
پتہ ہواؤں سے پوچھے کی فاختہ کس کا
چلے گا میرے توسط سے سلسلہ کس کا
۔۔۔۔۔
جہاں پہ کل ابابیلوں نے سنگ پھینکے تھے
لگا ہے آج وہیں پر مجسمہ کس کا
دوسری غزل تھی،
نازک ہے بہت وقت ہواؤں کو بتا دو
کاغذ پہ لکھی آیتیں پانی میں جلا دو
۔۔۔۔۔
ہم بخت جلے لوگوں کے تاریک گھروں میں
بس ایک ضیا ہے اسے سولی پہ چڑھا دو

ماہ پارہ کو اسی شام ایبٹ آباد سے واپس آنا تھا لیکن دوپہر سے ہی پی ٹی وی کے ڈپٹی کنٹرولر حبیب اللہ فاروقی کا باربار فون آ رہا تھا کہ کیا وہ یہ خبر پڑھ سکیں گی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح ماہ پارہ سے رابطہ کر کے انہیں یہ اطلاع دی۔ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل لوگوں کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ دل پر گزرنے والے حالات کو اپنے سامعین و ناظرین پر ظاہر نہیں ہونے دیتے اور اسی کمال مہارت کے ساتھ پی ٹی وی کے رات نوبجے کے خبر نامے میں یہ خبر ماہ پارہ اور خالد حمید نے پڑھی۔

اس روز پاکستان کے ان گنت گھروں میں چولہا نہیں جلا۔کتنے ہی لوگ اس خبر کو برداشت نہ کر سکے۔ ایک ان کہی دہشت تھی جو ہر طرف برس رہی تھی۔ جیسے گھر میں موت واقع ہونے پر بچے سہم جاتے ہیں۔

اسی پھانسی پر ادبی جریدے ‘‘فنون‘‘ میں اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘ چھپی تھی جس نے حکومتی حلقوں میں ایک شور مچا دیا تھا اورآمر مطلق ضیا الحق نے اسی نظم کے مصرعے دہرا کے نام نہاد اور ظلم کا ساتھ دینے والے سرکار نواز اہل قلم کانفرنس میں ادیبوں کی خوب گت بنائی تھی۔
اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرف عبادت یاد تھے
پو پھٹے تک انگلیوں پہ گن لیے
اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے
شیشۂ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
ایلچی کیسے بلاد مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اک جلوس بے تماشہ گلیوں بازاروں میں ہے
یا الہی، مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
اب سمیٹو مشک و عنبر
ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوک پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں


’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج علی ال�

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...