Sunday, November 25, 2007

اندازے اور امکانات wonderful analysis of saleem safi of daily jinnah posted by shafique ahmed blogs


پاکستان میں کس قدر قحط الرجال ہے ، اس کا اندازہ اس امر سے لگالیجئے کہ بعض نادان مجھ جیسے لوگوں کو بھی تجزیہ نگاروں کی صف میں شامل کرجاتے ہیں ۔ ان نادانوں میں لندن ، واشنگٹن اور تہران میں مقیم بی بی سی ، وائس آف امریکہ اور ریڈیو تہران کے لئے کام کرنے والے کچھ دوست بھی ہیں جو ان دنوں وقتاً فوقتاً مجھ سے پاکستان کے حالات کا تجزیہ کرانے کے لئے رابطہ کرتے رہتے ہیں اور تماشہ یہ ہے کہ اس اوٹ پٹانگ تجزیے کو وہ نشر بھی کرلیتے ہیں ۔ میں جس طرح اپنے کالموں میں ایک عرصے سے بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو" مستقبل کی ایم ایم اے" کے نام سے یاد کررہا ہوں ، اسی طرح مذکورہ اداروں کے ساتھ گفتگو کے دوران بھی میری لائن یہی ہوا کرتی ہے ۔ میرا اصرار یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کی مخالفت مصنوعی ہے ، جس کے ذریعے وہ عوام میں اپنا امیج بحال کرنا چاہتی ہے ۔ میرے نزدیک بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کا اتحاد ، ایم ایم اے اور جنرل پرویز مشرف کے خفیہ اتحاد کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے کیونکہ نہ صرف دونوں روشن خیال ہیں بلکہ ضامن بھی وائٹ ہاؤس ہے ۔ میں تسلسل کے ساتھ عرض کرتا رہا کہ جس طرح گذشتہ سالوں میں ایم ایم اے اور جنرل مشرف کے کیمپ کا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری رہا ، اسی طرح بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے مابین بھی مخالفانہ بیانات کا یہ ڈرامہ چلتا رہے گا لیکن درون خانہ معاملات ٹھیک رہیں گے ۔
ایمرجنسی کے نفاذکے بعد جب جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بے نظیر بھٹو کے لہجے میں تلخی آئی اور ایک موقع پر یہاں تک فرماگئیں کہ اب انہیں جنرل پرویز مشرف وردی کے بغیر بھی قبول نہیں تو میرے بعض دوست مجھ سے کہنے لگے کہ تمہارا اندازہ غلط ثابت ہوا ہے اور لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کشتیاں جلا کر جنرل صاحب کے خلاف میدان میں کود پڑیں ۔ اس دوران ایک دن ریڈیو تہران سے اس کے پشتو سروس کے انچارج عاشق حسین کا فون آیا۔ وہ ایک بار پھر مجھ سے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرانا چاہ رہے تھے ۔ انٹرویو شروع کرنے سے قبل انہوں نے فرمایا کہ سلیم !اب تو صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور آپ کا اندازہ غلط نکلا ہے تو بے نظیر بھٹو کی سیاست کے بارے میں آپ آج کیا کہیں گے ؟، میں نے عرض کیا کہ وہی کچھ کہوں گا جو اس سے پہلے کہتا رہا ۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا تم اب بھی یہی سمجھتے ہو کہ یہ نوراکشتی ہے تو عرض کہ ہاں مجھے اب بھی یہ نوراکشتی دکھائی دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو بے نظیر بھٹو صاحبہ ، میاں نواز شریف اور ایم ایم اے سے مل کر بھی مشرف کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوگئی ہيں تو میں نے عرض کیا کہ کیا گذشتہ پانچ سالوں میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ایم ایم اے کی اٹھک بیٹھک کا سلسلہ جاری نہیں رہا ۔ عرض کیا کہ آج اگر بے نظیر بھٹو ، جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت بیانات دے رہی ہیں تو کیا گزشتہ پانچ سالوں میں ایم ایم اے کے رہنماؤں نے جنرل مشرف کے خلاف اور جنرل مشرف نے ایم ایم اے کے خلاف تھوڑے تلخ بیانات جاری کئے ۔پھر ریڈیو تہران کے ساتھ باقاعدہ انٹرویو کے دوران میں نے اپنا یہ تجزیہ ان کے سامنے رکھا کہ مجھے لگتا ہے کہ امریکی بدستور جنرل پرویز مشرف کی ضرورت محسوس کررہے ہیں ۔ وہ ان سے وردی اتروانا چاہتے ہیں لیکن ایک سویلین صدر کی حیثیت سے وہ بدستور درکار ہیں ۔ اسی طرح امریکی بے نظیر بھٹو کو نئے سیٹ اپ میں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کی مصالحت امریکہ نے کروائی ہے ۔ ابھی وہ ثالث اور ضامن کا کردار ادا کررہا ہے ۔ ذرا نیگروپونٹے صاحب کو آنے دو (اس گفتگو کے دوروز بعد امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ نیگروپونٹے نے پاکستان پہنچنا تھا) ، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا۔نیگروپونٹے ابھی واپس امریکہ نہیں پہنچے تھے کہ بينظیر بھٹو صاحبہ کے لہجے میں موجود تلخی میں نمایاں کمی آگئی اور اگلے دن یہ مطالبہ کردیا کہ انتخابات کے دوران بلدیاتی ادارے معطل کردئے جائیں ۔ ان کے اس مطالبے میں یہ پیغام پنہاں تھا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گی ۔ اگلے دن جب ایک بار پھر انٹرویو کے لئے عاشق حسین صاحب کا فون آیا تو میں نے ان کا انٹرویو لینا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ اب ان کا کیا خیال ہے تو وہ ہنس دئے اور کہنے لگے کہ واقعی آپ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ واقعی پاکستانی سیاست دلچسپ اور عجیب و غریب ہے ۔
سیاست میں کوئی بھی بات دو جمع دو چار کی طرح طے نہیں ہوتی ۔ یہاں دوست ہوکر بھی کوئی دوست ، دوست اور دشمن ہوکر بھی کوئی دشمن ، دشمن نہیں ہوتا۔ دوستی اور مفاہمت کے دنوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف چالیں چلائی جاتی ہیں ، یوں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے مابین بھی نہ صرف مخالفانہ بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا بلکہ حسب ضرورت ایک دوسرے کے خلاف چالیں بھی چلائی جائیں گی ، لیکن معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف کبھی نہیں جائے گا ۔ کم از کم مسقبل قریب میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا بھی اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو برداشت کرتے رہیں گے جب تک امریکہ چاہے گا ۔ ہاں البتہ اگر کبھی ایسا مرحلہ آیا کہ امریکہ جنرل پرویز مشرف سے یکسر مایوس ہوگیا یا پھر یہ کہ وہ انہیں اپنے لئے بوجھ سمجھیں تو بے نظیر بھٹو صاحبہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ حقیقی جنگ شروع کرنے میں دیر نہیں لگائيں گی ۔
اندر کی کہانی سے آگاہ لوگ بتاتے ہیں کہ نیگرو پونٹے جہاں جنرل پرویز مشرف کے لئے پیغام لائے تھے ، وہاں انہیں نے بے نظیر بھٹو کو بھی صاف لفظوں میں بتادیا ہے کہ وہ اپنے حدود میں رہیں اور پرویز مشرف کے ساتھ بنا کے رکھیں ۔ جنرل پرویز مشرف پر بھی انہوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ وردی اتار دیں ۔ ایمرجنسی اٹھادیں اور عام انتخابات کا انعقاد کروادیں جبکہ جواب میں وہ جنرل پرویز مشرف کی یہ درخواست مان چکے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے معزول چیف جسٹس اور معزول ججوں کی بحالی پر زور نہیں دیا جائے گا ۔ یوں میرا اندازہ ہے کہ سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد جنرل پرویز مشرف جہاں وردی اتاردیں گے وہاں وہ ایمرجنسی کے خاتمے کا بھی کچھ دنوں میں اعلان کردیں گے ۔ اسی طرح وہ بہر صورت 8 جنوری 8002ء کو عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کی بھی کوشش کریں گے ۔ بے نظیر بھٹو سردست قاضی حسین احمد اورعمران خان کی ہمنوا بن کر پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی بحالی کا مطالبہ کرتی رہیں گی لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی اس مطالبے سے دستبردار ہوجائیں گی۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل مسئلہ یہی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج ہیں اور اگر مغرب و بے نظیر بھٹو ان کی بحالی کے لئے زور نہ ڈالیں تو وہ دیگر ایشوز پر لچک دکھانے پر تیار ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی طرحمتحدہ مجلس عمل ، اے این پی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی ڈرامہ کے سوا کچھ نہیں ۔ لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ سب جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی اور ڈ ٹ کر حصہ لیں گی جبکہ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف بھی بہت جلد پاکستان میں ہوں گے ۔ اندر کی کہانیوں کی خبر رکھنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے سعودی حکومت کو یہ درخواست کی گئی کہ وہ میاں نواز شریف کو پاکستان آنے سے روک دے لیکن میاں نواز شریف کو واپس جدہ لے جانے کے بعد پاکستان کے اندرسعودی عرب کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا ہے ، اس کے بعد اب وہ مزید میاں نواز شریف کو روکے رکھنے کے حق میں نہیں ۔ یوں جب سعودی حکومت نے میاں نواز شریف کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ پاکستان آنے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...