Wednesday, November 14, 2007

a column from Naseem Zehra

خود مختار عدلیہ کے ذریعے قانون کی حکمرانی کا 9مارچ کو شروع ہونے والا سفر 3نومبر کے بحران سے ایک اہم موڑ پر آ گیا ہے ،مارشل لا ء ،ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت آئین اور عدلیہ کی بحالی کیلئے متحد ہو رہی ہے ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ بحران کے نازک دور میں قوم حقیقی خطرے کے خلاف متحد ہے ۔سیاسی وابستگی کے برعکس ملک کے ہر طبقہ فکر کا شہری جان چکا ہے کہ اصل مسئلہ ہمارے درمیان موجود ہے ،کسی قسم کا وعظ یا دلیل لوگوں کی توجہ ہٹانے میںمشکل ہی سے کامیاب ہو گی ۔
شاید عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہ آئے ہوں مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ مشرف کا 3نومبر کا فیصلہ درست تھا ۔وہ فریب نظر کا شکار ہیں ،ان کا اعتماد خود فریبی ہے ۔3نومبر کے فیصلے سے ہونے والا نقصان حقیقی ہے ۔ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے ۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری مشینری کا کام عوام کی خدمت ہے اور قانون اور آئین کی پاسداری ان کا فرض ہے مگر وہ صرف مشرف کی خوشنودی کیلئے سوسائٹی کو کرش کرنے میں لگے ہیں جو اس کی ایمر جنسی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔
ہزاروں وکلاء اور سماجی تنظیموں کے کارکن جیلوں میں بند ہیں ،تحریک زور پکڑ رہی ہے ،ایک ناراض سوسائٹی کے ساتھ حکومت کیلئے سوات اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کو ختم کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔سیاسی اتفاق رائے کے دہشت گردوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنا بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔جنرل مشرف کا یہ بیان کہ ایمر جنسی کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہے ،حقائق کے برعکس ہے ۔قلم کی جنبش سے عدلیہ کی بر طرفی جیسے وہ درست اقدام بھی برقرار دیتے ہیں ،ان کے دور حکومت کی سنگین ترین غلطی ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہر فورم پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔پاکستان کے کرتا دھرتاؤں نے پاکستان کے داخلی حالات پر دنیا بھر کی توجہ مرکوز کروا دی ہے ۔ملک کے عزت ووقا ر کو اس حد تک دھبہ لگ چکا ہے کہ بین الاقوامی براداری میں ہمارا شمار لا قانونیت کی شکار ریاستوں میں ہونا شروع ہو گیا ہے ۔یو این او ،ای یو ،کا من ویلتھ اور دنیاکے معزز عمائدین ،جن میں نیلسن منڈیلہ بھی شامل ہیں ،نے ایمر جنسی اور عدلیہ پر حملے کی سخت مذمت کی ہے ۔امریکی سینٹ ،بین الاقوامی وکلاء کنونشن ،صحافی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کے خلاف قرار دادیں منظور کر رہی ہیں ۔جو چیز تشویش ناک ہے وہ یہ کہ پاکستان کے اٹیمی پروگرام کی مخالف لابی کیا کر رہی ہے۔
3نومبر کی نامناسب اور نارواء فیصلہ کا فائدہ اٹھاکر یہ لابی پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں اور دنیا کو قائل کرنے میں لگی ہیں کہ غیر مستحکم ملک میںجلد انتہا پسند ملک کے جوہری پروگرام پر قبضہ کر لیں گے ۔3نومبر کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والے عدم استحکام نے انہیں موقع فراہم کر دیا ہے اور انہوں نے پروپیگنڈہ تیز تر کر دیا ہے ۔پاکستانی ملک میں عدلیہ کی بحالی اور آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں ،جب تک ریاستی مشینری کو آئین کی حدود میں نہیں لایا جاتا ،پاکستان کو بیرونی خطرات کا سامنا رہے گا ،سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو لا حق ہے جتنی جلدی ملک میں استحکام آئے گا ،پاکستان مخالف لابی کے پروپیگنڈے میں بھی کمی آ جائے گی ۔
جنرل مشرف کے اتحادی ق لیگ اور ایم کیو ایم ہیں ۔پی پی پی کی طرف سے سیاسی تعاون کی توقعات دم توڑ چکی ہیں ،حالات سے بد دل ہو کرانہوں نے مشرف سے راہیں الگ کر لی ہیں ،جو ایجنڈا وہ امریکہ سے لے کر آئیں ۔یکے بعد دیگرے ہونے والے دو سانحے اس کی راہ میں حائل ہو ں گے ،پہلا سانحہ 18اکتوبر کو کراچی ہونے والا خود کش خملہ تھا ،جس کا ٹارگٹ بے نظیر تھیں ،دوسرا سانحہ 3نومبر کا مارشل لاء ہے ۔27جولائی کو ابو ظہبی میں مشرف کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے جاری رہنے کا امکان ختم ہو چکا ہے ۔مذاکرات کے ختم ہونے کا کوئی واضح اشارہ اگر ہے تو وہ چیف جسٹس کے گھر جا کر ان سے ملا قات کی بے نظیر کی کوشش کو قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ہر بحران کچھ نئے امکانات کو جنم دیتا ہے ،3نومبر کا بحران بھی مختلف نہیں ۔ساٹھ سالہ تاریخ میں پاکستان کو کئی غیر آئینی ،غیر منطقی اور غیر اخلاقی صدمات جھیلنے پڑے ،صرف حکمران کی وجہ سے ۔ان کے ارادے شاید نیک ہوں،وہ مخلص بھی ہوں ،مارشل لائی اور کرپٹ نا اہل سول حکمرانوں کے ساتھ بین الاقوامی جہاد کا کھیل بھی ہم نے کھیلا اور اسکی قیمت بھی ادا کی بلکہ کر رہے ہیں ۔80ء کی دہائی میں روس کے خلاف امریکہ کے مفادات کی جنگ لڑنے کی سب سے بھاری قیمت ہمیں ادا کرنا پڑی، ملک کے ادارے تباہ ہوئے، سیاسی فکر سے محروم ہوئے۔ جس کے ذمہ دارداخلی اور بیرونی عناصر دونوں تھے۔ مگر اب تلافی کا وقت آ گیا ہے۔ لوگ صرف ایک مطالبے پر متحد ہو چکے ہیں اور وہ آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی کا مطالبہ ہے۔
عوام نے سفر کا آغاز کر دیا ہے ملٹری اور سول اداروں کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں۔ وہ پر عزم اور پر اعتماد ہیں، ان کے سفر کی منزل قانون و آئین ہے۔ آئینی جمہوریت ان کا مطالبہ ہے۔ آغاز 9مارچ کو ہوا، محرک چیف جسٹس کی معطلی بنا۔ انہوں نے اس سفر میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں، یہ فرد یا ادارے کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی کسی فرد کے لئے تھا، بلکہ آزاد اور خود مختار عدلیہ کے لئے تھا، جس نے آئین کی پاسداری کے وعدہ کی لاج رکھی اور ریاستی اداروں سے جواب طلبی کی۔قوم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کی منزل کیا ہے اور کس خطرے سے وہ نبرد آزما ہیں۔ تشدد، لاقانونیت، دہشت گردی کوئی نئی چیز نہیں، اصل خطرہ کس سے ہے۔ دہشت گردی سے نبرد آزما ہونا مشکل نہیں، ایک متفقہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ قوم نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کو خطرہ صرف اور صرف آئین شکنوں سے ہے۔ آئین شکنی نے ہی مختلف مسائل اور بحرانوں کو جنم دیا، بلکہ عروج تک پہنچایا۔ کئی المیے بھی قانون شکنی نے ہی جنم دیئے۔ انفرادی فیصلے ہی ملک کو تباہی کی طرف لائے اور ملکی قوانین کی بے حرمتی کی۔ طویل المیعاد پالیسیوں میں رکاوٹ بنے رہے۔
ملک میں پرامن تحریک جاری ہے، جس کا مطالبہ اور منزل آئین کی بحالی اور حکمرانی ہے۔ خدشات کے برعکس ملک میں انارکی پھیلنے کا امکان نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ وہ بیرونی ایجنڈے پر عمل نہیں کررہے بلکہ ایجنڈا مقامی ہے۔ ہر پاکستانی اس ایجنڈے کا مصنف ہے۔ اس کو واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ آئین کی بالادستی سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں۔ صوبہ سرحد سے پیدا شدہ خانہ جنگی کے حالات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، مگر اس کے لئے ملک میں آئین کی بالادستی، آزاد عدلیہ کا قیام اور مؤثر جواب دیہی کا نظام ضروری ہے۔
3نومبر کے بحران کے بعد عالمی برادری مجبور ہے کہ پاکستان کیلئے ایسا پروگرام تشکیل دے، جس میں قانون اور آئین کو اولیت حاصل ہو۔ دہشت گردی کا خاتمہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔ ریاست کے بہترین مفاد کا فیصلہ اس کے عوام نے کرنا ہے۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں، یا کچھ اور۔ دنیا کے بحرانوں سے ہمارا تعلق نہیں۔عوام ہی اہم ہیںاور ان کا عزم ہی بہتر فیصلہ کرے گا۔
پاکستان کو لاحق چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مارشل لائی ایمرجنسی کا فی الفور خاتمہ ہو۔ اس کا آغاز آئین اور معزول ججوں کی بحالی سے ہو۔ یہ بحران سے نکلنے کا راستہ ہے، دوسرا کوئی حل تجویز کرنا بے سود ہو گا۔ تمام سیاسی قائدین کو بھی متحد ہو کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی راہ ہموار کرنا ہو گی۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی اس کے ساتھ ہی معاشرے سے دم توڑنا شروع کر دے گی۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...