Wednesday, November 14, 2007

column from Dr sherin Mazari

عجب تماشے پاکستان کا ہی نصیب کیوں ؟ملک کے جمہوریت پسند ، اعتدال پسند ، سول سوسائٹی کے ارکان ، وکلاء کے ساتھ مل کر آئین کی بحالی ،خود مختار عدلیہ اور بنیادی حقوق کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں ۔پولیس بدترین تشدد اور گالی گلوچ کے ساتھ انہیں تھانوں اور جیلوں میں بند کر رہی ہے ۔ طلبا ء میں بھی سیاسی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے ۔سول سوسائٹی کے اعتماد میں اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے ۔اپوزیشن رہنما اپنے اختلافات کے باعث منظر عام سے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں ،اپنی موجودگی کا احساس کروانے میں ناکام ہیں ۔سوات اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندبغیر مزاحمت کے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں مگر حکومت کی تمام تر توجہ صرف اور صرف سول سوسائٹی کے اعتدال پسند مظاہرین کو دبانے پر مرکوز ہے ۔
پولیس گردی کی انتہا اسلام آباد پولیس کی طرف سے اس وقت دیکھنے کو ملی جب اسلام آباد کے سکولوں کے طلبہ ایمرجنسی کے خلاف پرامن مظاہرہ کر رہے تھے ۔پولیس کی درخواست پر منتشر ہونے جا رہے تھے کہ پولیس کے جیالوں نے ان کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور گرفتار کیا ،اپنی نسلوں کو ہم کیا سبق دے رہے ہیں ؟ ۔شاید ہم انہیں سکھانا چاہ رہے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام کرنا سیکھیں ۔
سکیورٹی ادارے جو عجب کھیل تماشے جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے فرائض اور کچھ فطرت کا بھی حصہ ہیں لیکن تماشہ ہماری محترمہ نے لگا رکھا ہے ،وہ نہ صرف عجب بلکہ ناقابل فہم حد تک واہیات ہے ۔ مغرب کی اس منظور نظر کو پہلے تو اسلام آباد میں نظر بند کیا گیا (ان کی اپنی درخواست پر ) اس کے بعد نورا کشتی شروع ہوئی ،انہیں صحافیوں کے احتجاجی کیمپ تک جانے کی اجازت دی گئی ، چیف جسٹس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے جسٹس کالونی کی طرف جانے کی بھی اجازت دی گئی۔سرکاری میڈیا پر ان کی سرگرمیاں نشر کی گئیں ۔شام کو سینٹ کی عمارت میں سفارت کاروں کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے کی بھی اجازت دی گئی ۔سرکاری منظوری اور تائيد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ پی پی پی کی ترجمان جو بھی اس کی وضاحت پیش کریں سرکاری منظوری کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ۔
یقینا ًمحترمہ کا ڈرامہ ملک میں جاری سیاسی تماشے میں نئے اور عجیب کھیل کا آغاز ہے ۔ پارٹی کی تمام اعلیٰ قیادت آزاد ہے ان پر کوئی بندش نہیں صرف اعتزاز احسن سرکاری مہمان ہیں ۔پی پی پی کے بجائے وکلاء تحریک کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی محدود طاقت اور معمولی تعداد میں پی پی پی کے ورکروں کی حمایت کے ساتھ حکومت کے خلاف متحرک ہیں اور ریاستی نشانے پر ہیں ۔
محترم شفقت محمود نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ اگر بی بی کے لانگ مارچ کو روکا گیا تو پھر اُن کی سیاسی ساکھ بحال ہو جائے گی۔یہ ثبوت ہو گاکہ ڈیل اہمیت کھو چکی ہے ۔میرا خیال اس کے برعکس ہے،لانگ مارچ کو روکا جانا بھی ڈرامہ ہے ۔اصل ساکھ اُس وقت بحال ہو گی جب مفاہمتی آرڈیننس منسوخ ہوگا۔کرپشن کے کیس بحال کر دیئے جائیں گے اور عدالتیں اُن کے مقدر کا فیصلہ کریں گی۔
عجب سیاسی کھیل تماشے ہر سطح پر چلتے رہیں گے۔امریکہ کا استعماری کردار کئی قسم کے سوالات کو جنم دے رہا ہے،سابق استعماری قوت برطانیہ ہمارے لئے اس قدر اہم نہیں کہ ہم اُس کے دباؤ میں آجائیں مگر امریکہ کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں جو ہماری سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں ۔"واشنگٹن پوسٹ "میں چھپنے والی کہانی کے مطابق "اگر امریکہ کو محسوس ہوا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے "غلط ہاتھوں "میں جا سکتے ہیں تو وہ ان اثاثوں پر قبضہ کر لے گا"۔امریکہ کے جوہری اثاثے بنیاد پرست عیسائی قوتوں کے ہاتھ لگ جائیں ،جو یقیناًبش کی صدارت میں جا چکے ہیں ،اسرائیل کے جوہری اثاثے پہلے ہی بنیاد پرست یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں ،انڈیا کے جوہری اثاثے ہندو قوم پرست بی جے پی کے ہاتھ رہ چکے ہیں ،پاکستان کے جوہری اثاثے کس کے ہاتھ میں ہونے چاہیں بیان دینے کی ضرورت امریکہ کو کیوں پیش آئی؟اُسے پاکستان کے جوہری اثاثے غلط ہاتھوں میں جانے کی کیوں فکر ستا رہی ہے؟تجزیہ نگاروں کی رائے میں کافی وزن ہے کہ امریکہ کو یہ فکر اس لئے ستاتی ہے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے۔
پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کا نقاب امریکہ نے اتار دیا ہے۔لاہور میں امریکی قونصل جنرل مقامی اشرافیہ کو کہتے سنے گئے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کا ہٹایا جانا ضروری تھا۔اُ س کے اکثر فیصلے غلط تھے،داخلی معاملات میں اس قدر مداخلت کبھی نہیں کی گئی۔اُسے عاصمہ جہانگیر سے ملنے کی اجازت کس نے دی؟پھر اُن کا الیکشن کمیشن کے دفتر کا دورہ ،پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُس کا سفیر امریکی الیکشن کمیشن کے دفتر کا دورہ کرے۔
سب سے بڑا تماشا امریکہ کی طرف سے انتخابی نتائج کے آنے سے پہلے بے نظیر مشرف کے درمیان اشتراک اقتدار کا فارمولہ طے کرنے کا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں شفاف انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں ،حماس کی کامیابی کا صدمہ ابھی تازہ ہے،وہ کسی نہ کسی طرح بے نظیر کی سربراہی میں قومی حکومت کی تشکیل چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی جبری جلاوطنی پر امریکہ کی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا۔
آخری مگر بڑا تماشا نگران حکومت کے قیام کے موقع پر دیکھنے کو ملے گا۔کئی ریٹائرڈ ملٹری اور سول بیوروکریٹ ایک نئی سیاسی زندگی پائیں گے اور ٹی وی پر اپنی فصاحت اور بلاغت سے ناظرین کو یرغمال بنائے رکھیں گے۔ملک میں ویسے بھی نگران حکمرانوں کا کلب وجود میں آ چکا ہے اور وہی چہرے ہر نگران سیٹ اپ میں دکھائی دیتے ہیں ۔بار بار وہی بیمار روحیں ہمارے سر پرلا کر بٹھا دی جاتی ہیں ۔
دنیا بھر کا میڈیا اور حکومتیں پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہیں دوسرے ممالک کے برعکس جہاں صرف مخصوص نا پسندیدہ رہنماؤں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے وینز ویلا کے صدر شاویز،ایران کے احمدی نثرادوغیرہ کے ملک کو مجموعی طور پر تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا مگر پاکستان کامعاملہ برعکس ہے ۔وہ صرف پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں خصوصاً امریکہ اور اس کے اتحادی ۔رہنماؤں کی وجہ سے ملک کا امیج ضرور خراب ہوتا ہے مگر ملک کی اشرافیہ کی غلطیوں کا مورد الزام ملک کو ٹھہرایا جائے ،یہ کچھ نا قابل فہم ہے ۔ریاستوں کا انحصار ایک شخص پر کبھی بھی نہیں ہوا ،کوئی بھی اس کیلئے نا گزیر نہیں ،فیصلہ پاکستانیوں نے کرنا ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے ۔ہم میں کسی کے بھی دبئی یورپ یا امریکہ میں گھر نہیں ،اپنے ملک کا دفاع ہم نے مل کر کرنا ہے ۔افراد کی بجائے ہم نے مل کر اداروں اور نظام کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ جو نیو کلئیر پاکستان کے ختم ہونے کے انتظار میں ہیں ،وہ طویل انتظار کریں ۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...