Monday, November 12, 2007

BBCUrdu.com راجہ ذوالفقار علیKA COLUMN

BBCUrdu.com: "

Monday, 12 November, 2007, 18:10 GMT 23:10 PST

راجہ ذوالفقار علی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

سیّد بادشاہ کا کارڈ

اپنے پاکستانیوں کے سیّد پرویز مشرف نے دستور سے ہٹ کر اتوار چھٹی کے دن ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کیا جس کے بعد سیکریٹری انفارمیشن سیّد انور محمود نے بڑے سیّد کی خواہش کے عین مطابق سوال پوچھنے کا حق پہلے غیر پاکستانی صحافیوں کو دیا۔

جنرل صاحب نے اس پریس کانفرنس کے دوران بظاہر مغربی سماعتوں کی راحت کے لیے انتخابات فروری کی بجائے نو جنوری سے قبل کرانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے نسیان کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو یاد دلایا کہ وہ وعدہ کہ ’اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی‘ پورا کردیاگیا ہے ۔

لیکن کس کی مجال ہے جو سید صاحب کو یاد دلائے کہ جناب سنہ دو ہزار چار میں آپ کا وعدہ یہ تھا کہ آپ وردی اتار دیں گے لیکن ’قوم کے وسیع تر مفاد‘ میں آپ نے اسے پورا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

بظاہر جنرل پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں اپنے مغربی سامعین کو انتخابات کا مژدہ سنا کر خوش کر دیا لیکن فوجی دانش کے غلاف میں لپٹے ہوئے اس اعلان سے خود پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے۔

اپوزیشن پہلے ہی بٹی ہوئی تھی، رہی سہی کسر جنرل صاحب نے نکال کر رکھ دی ہے۔ اور اب عالم یہ ہے کہ اسے اپنا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔

اپوزیشن کے پاس اس وقت بظاہر تین راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دے اور اِس مطالبے پر ڈٹ جائے کہ تین نومبر سے پہلے والی عدالت بحال کی جائے۔

دوسرا یہ کہ ایمرجنسی کے نفاذ اور جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی والی عدلیہ کو بھول کر بھر پور انداز میں الیکشن کی تیاری کی جائے۔

اپوزیشن کے پاس تیسرا راستہ یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے ایسے کہ مستقبل کی پارلیمان کی طرف جانے والی راہیں بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہوں اور ہنگامی حالت کے خاتمے اور عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ بھی ہوتا رہے۔

ماضی میں اپوزیشن نےانتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کے افسوس کی بازگشت مختلف سیاستدانوں کے بیانات میں آج بھی سنائی دیتی ہے۔یوں بھی مستقبل میں سیاست کا جو بازار لگے گا اس میں لین دین کا حق صرف انہیں مل سکے گا جو اس کاروبار کا حصہ ہوں گے۔ وہ جو باہر بیٹھے ہوں گے ان کی صدائیں اس بازار کے شور میں کسی کو کم ہی سنائی دیں گی۔

اگر اپوزیشن یہ طے کر لے کہ اسے الیکشن لڑنا ہے تو پہلے تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کرنا ہوگا کہ عدلیہ بحال ہو یا نہ ہو، ایمرجنسی ہٹے، نہ ہٹے، وہ سیّد مشرف کی تازہ بچھائی گئی سیاسی بساط پر کھیلے گی۔ اس صورت کو اختیار کرنے پر اسے زیادہ سے زیادہ نشستیں لینے کے لیے کم سے کم وقت میں بھرپور زور لگانا پڑے گا۔

لیکن اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کی چند ہم خیال جماعتیں جن میں قوم پرست بھی شامل ہیں کہہ رہی ہیں کہ ایمرجنسی کا خاتمہ اور عدلیہ کی بحالی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ایمرجنسی میں انتخابات بے معنی ہیں اور ان میں دھاندلی کی جائے گی۔ یہ باتیں وہ بیانات کے ذریعے کہہ رہے ہیں چہ جائیکہ ان کے وفادار سڑکوں پر اس مسئلے پر آواز اٹھاتے۔

مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلسِ عمل اپنی شکست و ریخت کو بچانے میں ناکام رہا ہے۔ اس اتحاد کے ایک اہم رہنما مولانا فضل الرحمان کا طرزِ عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کیونکہ

جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی

اے آر ڈی بکھری پڑی ہے اور اس کی سب سے اہم جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن نے بے نظیر سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل مشرف سے مراعات کی یقین دہانی بھی کرا لی ہے، کچھ مراعات حاصل بھی کر لی ہیں اور قوم کو دکھانے کے لیے وقتاً فوقتاً جنرل مشرف کو آنکھیں بھی دکھاتی رہتی ہیں۔

اتفاق کہیئے کہ مولانا فضل الرحمان اور بے نظیر بھٹو ہی دو ایسے رہنما ہیں جنہوں نے لانگ مارچ کی کال دی ہے۔ بے نظیر کا لانگ مارچ تیرہ نومبر کو ہونا ہے جبکہ فضل الرحمان کے لانگ مارچ کی کال سولہ نومبر کی ہے۔ جماعتِ اسلامی جس بے چاری پر مارشل لاء کے دوران آمریت کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، لانگ مارچ کا کال دینے کی بہت شوقین ہے، مگر تا حال خاموش ہے۔

وہ جنہوں نے جنرل آصف نواز کے دور میں ہونے والا بے نظیر لانگ مارچ دیکھا ہے، گواہ ہیں کہ نواز شریف حکومت نے اس احتجاج کا راستہ روکنے کے لیے پورے ملک کی انتظامی مشینری متحرک کر دی تھی لیکن بے نظیر اپنے جیالوں کے جلو میں اشک آور گیس کے بادلوں، پولیس کی لاٹھیوں اور انتظامی رکاوٹوں کو پیروں تلے روندھتے ہوئے راولپنڈی کے لیاقت باغ تک پہنچ ہی گئی تھیں۔

کیا بینظیر کا لانگ مارچ ایسا ہی ہوگا۔ بظاہر نہیں۔ لاہور کے چودھری اسے روک لیں گے اور بے نظیر بھٹو شاید حفاظتی حصار میں گھر واپس چلی جائیں اگرچہ پنجاب کے گلی محلوں میں جیالے پولیس کے ساتھ وہ آنکھ مچولی کھیلتے رہیں گے جس کا شوق انہیں اکثر ستاتا رہتا ہے۔

یہ ہے وہ اپوزیشن جس کے سامنے جنرل سیّد پرویز مشرف نے انتخابات کا پتّا پھینکا ہے۔

ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی سیّد پرویز مشرف کے پھینکے ہوئے اس کارڈ کو ضرور اٹھائیں گے کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں۔ اے پی ڈی ایم، خصوصاً نواز شریف کی جماعت کے لیے یہ کارڈ اٹھانا بہت وزنی ہوگا لیکن اسے اٹھائے بغیر ان کی پہلے سے بگڑی ہوئی بات مزید بگڑ جائے گی۔

لہذا آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتیں پھر فوجی دانش کا شکار بنتی نظر آ رہی ہیں۔ سیّد پرویز مشرف نے ایک بار پھر دوہری چال چلی ہے اور دوہری چالیں چلنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔وہ دوہرے معیار نہ رکھتے ہوں لیکن’ملکی مفاد‘ کے تحت ہر معیار کو دوہرا کرنا جانتے ہیں۔ وہ اصولوں پر تو سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن جب چاہیں ’ملکی مفاد‘ میں سمجھوتے کے لیے نئے اصول بنا لیتے ہیں۔


کاش اپوزیشن سمجھ سکتی کہ سیّد صاحب ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ اگر دربار لگائیں تو پرویز، ایوانِ صدارت سجائیں تو مشرف، مسلم لیگ قاف (کنگز پارٹی) بنائیں تو بادشاہ اور دوہرے عہدے کی طاقت سے آئین اور قانون کی بساط الٹ دیں تو شہنشاہ۔

اور شہنشاہ، شہنشاہ ہوتا ہے۔ اگر شہنشاہ کی گجرات کے چودھریوں سے بنتی ہے تو حیرت کیا، اگر وہ کوئٹہ کے چودھری کا افتخار توڑ ڈالے تو افسوس کیوں؟ اور اگر ملکی میڈیا کی زبان کاٹ دے تو شور کس لیے؟

شہنشاہ نے ہنگامی طور پر نیا فرمان جاری کیا ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ججوں کو بُھول جائیں تو سیاسی جماعتیں ججوں کو بُھول جائیں گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اگلے برس ایک معلق پارلیمان وجود میں آئے، تو ایسا ہی ہوگا۔ انہیں اگر اپنے کیے پہ نادم ہونے کی بجائے اپنے کیے کا آئینی جواز چاہیے ہوگا تو اگلی پارلیمان سے یہ بھی مل جائے گا۔ تو کیا اگر شہنشاہ کے پاس سپہ سالار کا عہدہ نہیں ہوگا۔اگر کوئی تبدیلی ہوگی تو سیّد مشرف اور اشفاق کیانی کی ہوگی۔ جنرل پرویز آرمی چیف نہیں ہوں گے نہ سہی، آرمی چیف تو جنرل پرویز ہی ہوں گے۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...