Sunday, November 18, 2007

عالمی برادری میں پاکستان کے امیج کا سوال a column from saleem safi


مغرب میں مقیم دانا لوگوں سے رابطے کئے ۔ امریکہ اور یورپ سے پلٹ کر آنے والوں کے مشاہدات سے آگاہی حاصل کی ۔ غیرملکی صحافیوں اور سفارتکاروں کو کریدا ۔ مغربی پریس کو کنگالا اور ہر طرف سے ایک ہی پیغام ملا ۔ وہ یہ کہ امریکہ اور مغرب میں جتنی تشویش ان دنوں پاکستان کے بارے میں پائی جاتی ہے، پہلے کبھی نہ تھی ۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل مغربی ممالک کے لئے تشویش کا سب سے بڑا سبب عراق تھا۔ دوسرے نمبر پر وہ ایران کے جوہری پروگرام سے پریشان تھے جبکہ پریشانی کاتیسرا سبب افغانستان تھا لیکن ان دنوں وہ تینوں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور مغربی دنیا کے لئے تشویش کے حوالے سے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے ۔ نیویارک ٹائمز ہو کہ واشنگٹن پوسٹ ، ڈیلی ٹیلی گراف ہو کہ لندن ٹائمز ، ہفتہ روزہ نیوزویک ہو کہ ٹائم میگزین ، ہر جگہ پاکستان زیربحث ہے ۔ پاکستان کو فیلڈ (ناکام) ریاست قرار دیا جارہا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور سولہ کروڑ انسانوں کی اس دھرتی کو وحشیوں اور دہشت گردوں کے گڑھ کے نام سے یاد کیا جارہا ہے ۔ایمرجنسی کے نفاذ سے پہلے بے یقینی کی فضا صرف ملک کے اندر موجود تھی لیکن اب پوری دنیا پاکستان کے بارے میں بے یقینی کی شکار بن گئی ہے اور ہمارے حکمران پھر بھی یہ دلیل دیتے جارہے ہیں کہ ایمرجنسی ، بے یقینی کی فضا کو ختم کرنے کے لئے لگائی گئی ۔
پاکستان کے بارے میں اہالیان مغرب ، عراق ، ایران اور افغانستان سے بڑھ کر تشویش میں مبتلا کیوں نہ ہوں ۔ مذکورہ تینوں ممالک میں سے ایک بھی ایٹمی قوت نہیں جبکہ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ عراق میں نام نہاد سہی لیکن ایک آئین پر عمل ہورہا ہے ، ایران بھی ایک منظم اور آئین و قانون کے تحت چلنے والا ملک ہے جبکہ افغانستان میں بھی حامد کرزئی ایک آئین کے تحت حق حکمرانی استعمال کررہے ہیں لیکن ان کے برعکس پاکستان سرزمین بے آئین بن گیا ہے ۔عالمی برادری اس ملک کے بارے میں تشویش میں مبتلا کیوں نہ ہو، جہاں کے حکمرانوں کو اپنے ہاتھوں ترمیم شدہ آئین کے تحت چلنا بھی گوارا نہیں کرتے اور وہ اس ترمیم شدہ آئین کو بھی معطل کر بیٹھے ہوں ۔ جہاں کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انصاف کے طلب گار بن جائیں اور جہاں کے اعلیٰ عدالتوں کے جج گھروں میں نظربند ہوں ۔ جہاں کے سیکورٹی فورسز ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں بلکہ متعدد مقامات پر اپنے ہی ملک کے باسیوں سے برسرپیکار ہوں اور جہاں انہیں سینکڑوں کی تعداد میں یرغمال بنایا جارہا ہو۔ جہاں پر مسلح گروہ پورے پورے اضلاع کو قبضہ کرکے پولیس تھانوں سے پاکستانی پرچم اتار کر اپنے پرچم لہرارہے ہوں ۔ جہاں چور ، ڈاکو اور قانون شکن دندناتے پھررہے ہوں لیکن پولیس سیاسی لیڈروں اور وکلاء کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہوں ۔ جہاں قانون شکنی عام ہو جبکہ جیلیں اور تھانے مجرموں کی بجائے قومی رہنماؤں سے بھرے پڑے ہیں ۔ جہاں میڈیا کا گلہ دبا دیا گیا ہواور الیکٹرانک چینلز کو یوں بند کیا جارہا ہو، جیسے وہ الیکٹرانک ٹی وی چینلز نہیں بلکہ چوری کے مال کی دکانیں ہوں ۔ جہاں پر میڈیا کو ہر طرح کی بے حیائی پھیلانے کی تو اجازت ہو، لیکن اس پرعوام کے پسندیدہ ٹاک شوز اس جرم میں بند کئے جارہے ہوں کہ وہ حکمرانوں کے کلامی محاسبے کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
پاکستان وہ عجیب وغریب ملک ہے کہ جہاں اس اکیسویں صدی میں بھی ایک ہی فرد کے ہاتھوں دوسری مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ اب یہ یہاں کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟۔ ملک کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ جبری گھر بھجوانا ، کیا یہاں کے انصاف کے طلب گار عوام کے ساتھ سنگین مذاق نہیں ؟۔ پہلے میڈیا کو آزادی دی گئی اور وہ بھی بے مہار آزادی ۔ پھراس آزادی کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ جو آزادی دی گئی تھی وہ بھی بے مہارتھی لیکن پھر یکدم میڈیا کا اس طرح گلہ گھونٹاگیا ، جیسے پاکستان سابق سوویت یونین کا حصہ ہو۔ اب یہ کیا اس ملک کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں ؟۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ، نگران وفاقی کابینہ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ بہترین صلاحیتوں کی مالک سولہ کروڑ کی اس آبادی میں ذاتی دوستوں ، دوستوں کے دوستوں اور سفارشیوں پر مشتمل ایسی عجیب و غریب کابینہ بنانا اور اسے ملک کا انتظام سونپنا ،کیا یہاں کے عوام کے ساتھ مذاق نہیں ۔ ہوسکتا ہے اس کابینہ میں دو تین اہل افراد بھی ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کس کے ساتھ مشورہ کیا گیا اور ذاتی پسند کے علاوہ اورکس بنیاد پر ان لوگوں کا انتخاب کیا گیا ؟۔
عوام کی سبکی کے جو کارنامے موجودہ حکومت کے دور میں دیکھنے کو ملے ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان سے حکومتی رٹ کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ وہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار یرغمال بنائے جارہے ہیں ۔ کرم ایجنسی میں آگ و خون کا بازار گرم ہے ۔ خیبر ایجنسی کی ایک پوری تحصیل میں حکومتی اہلکار قدم نہیں رکھ سکتے ۔ مہمند ایجنسی میں بھی اب بھرے مجمعوں میں لوگ ذبح کئے جارہے ہیں ۔ باجوڑ ایجنسی تو ایک عرصے سے شورش زدہ ہے اور دوسری طرف ان قبائلی علاقوں کے انتظامی سربراہ یعنی گورنر سرحد علی محمد جان اوکرزئی سندھ کے صحراؤں میں شکار کے مزے لے رہے ہیں ۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ یہ خبریں چھپوائی جاتی ہیں کہ گورنر سرحد نے شکار کے دوران 59 تیتر شکار کئے ۔ اب کیا یہ اس قوم کی توہین ہے کہ نہیں ؟۔
بدامنی کو جواز بنا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے ۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔ ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ پاکستان کا سویٹرزلینڈ تصور کئے جانے والے سوات میں سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے ۔ گھر اجڑ رہے ہیں ۔ پورا ملک خودکش حملوں کی زد میں ہے اور چند ہی روز قبل وفاقی وزیر امیر مقام کے گھر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں تین سپاہی اور ان کے قریبی عزیز پیر محمد خان وفات پاچکے ہیں لیکن ہمارے حکمران ایوان صدر میں رخصت ہونے والے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں غریب قوم کی ٹیکس کی آمدنی سے محافل سجا کررنگارنگ تقریبات کے ذریعے شب بیداریوں میں مصروف ہیں ۔ اب یہ کیاقوم کے ساتھ سنگین مذاق نہیں ؟۔
سوال یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران خود تسلسل کے ساتھ اپنے عوام کا مذاق اڑا رہے ہوں ، دنیا اس ملک کا مذاق کیوں نہ اڑائے ؟۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...