Saturday, November 17, 2007

a column from saleem safi the great وہ وقت دور نہیں جب ہر پاکستانی قاضی حسین احمد بن جائے گ


وہ اب ہمہ وقت احتجاج میں مگن اور جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ احتجاج اب ان کی زندگی کا دوسرا نام قرار پایا ہے ۔ "مشرف ہٹاؤ ۔ ملک بچاؤ " کا نعرہ اب ان کا محبوب نعرہ ہے ۔ اس لئے ہم دوستوں نے اپنے اس عزیز اور پیارے دوست کا نام "یورپ کا قاضی حسین احمد" رکھ دیا ہے ۔
"یورپ کے قاضی حسین احمد" میرے قریب ترین دوستوں میں سے ایک ہیں ۔ ان کے ساتھ یہ دوستی دورطالب علمی سے استوار ہے لیکن قریبی دوست ہونے کے باوجود عموماً سیاست سے متعلق ہماری رائے اور اپروچ ایک دوسرے سے مختلف رہی ۔ میرا تعلق ایک دیہاتی اور کاشتکار خاندان سے تھا ، جب کہ وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے ۔ میں سکول کے دنوں سے طلبہ سیاست میں متحرک ہوگیا تھا ، لیکن وہ یونیورسٹی کے دور میں بھی طلبہ سیاست کے قریب نہیں آئے ۔ وہ انتہائی نیک ، دیندار اور محب وطن تھے ۔ پانچ وقتہ نماز پڑھتے تھے ۔ دین کے مطالعے اور اس پر غور و فکر کے لئے بھی وقت نکالتے تھے لیکن دین کے نام پر لڑنے جھگڑنے یا پھر تعلیم چھوڑ کر سیاست میں ملوث ہونے کے وہ قائل نہ تھے ۔ باادب ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کے بھی شوقین تھے ۔ انگریزی اور اردو ادب کی طرف ان کی رغبت بھی ہم سب پر عیاں تھی لیکن والد کی خواہش کے احترام میں وہ انجینئرنگ کی طرف چلے گئے ۔ نمایاں پوزیشن کے ساتھ سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی لیکن قبل اس کے وہ سول انجینئر کی حیثیت سے میدان عمل میں کودتے، ایک بار پھر والدین کی خواہش آڑے آگئی ۔ اب والدین کی خواہش یہ بن گئی تھی کہ ان کا بیٹا اعلیٰ سرکاری افسر بن جائے ۔ چنانچہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ گئے اور چونکہ بلاکے ذہین اور پڑھائی کے شوقین تھے ، اسی لئے پہلی فرصت میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس ہو گئے ۔ چند سال سرکاری ملازمت کی لیکن یہاں کا کرپٹ کلچر انہیں پسند نہ آیا۔ لوگ ان کو سمجھاتے رہے کہ وہ آرام سے بیٹھ کر سرکار کی افسری انجوائے کرتے رہیں لیکن ان کی بے چین روح نے ان کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیا ۔ ایک طرف وہ سرکار کی نوکری سے تنگ تھے تو دوسری طرف قلم و کتاب انہیں اپنی طرف کھینچتا رہا چنانچہ اپنی اس بے چینی کو دور کرنے کی خاطر وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ چلے گئے ۔ یورپ جانے کے بعد قلم و کتاب کے ساتھ ان کا رشتہ اور مستحکم ہوگیا اور پڑھائی کے شوق کی تسکین کے لئے انہیں زیادہ سازگار ماحول میسر آیا۔
جذباتی ضرور ہیں اور کبھی کبھار چھوٹی موٹی باتوں پر بھی روٹھ جاتے ہیں لیکن ان کا خلوص شک وشبے سے بالاتر ہے ، چنانچہ یورپ جاکر بھی وہ ہم جیسے ان پڑھ قسم کے دوستوں کو نہیں بھولے ۔ ہر دوسرے تیسرے دن ان کا فون آجاتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یورپ جانے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست سے ان کی دلچسپی بڑھتی رہی اور پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد تو ان کی حالت غیر ہوگئی ۔ اب جب بھی ان کا فون آتا ہے ، تووہ گھر کاذکر کرنا گوارا کرتے ہیں ، نہ دیگر دوستوں کا ، بس ان کی گفتگو کا محور پاکستانی سیاست ہوا کرتا ہے ۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میرے یہ دوست جذباتی ضرور ہیں لیکن شاید زبانی حد تک ملکی سیاست میں ملوث ہورہے ہیں تاہم میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ گذشتہ روز انہوں نے اپنے ساتھ مقیم پاکستانیوں کو جمع کرکے پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں ایک بھرپور احتجاجی جلوس نکالا۔ وہ تسلسل کے ساتھ لوگوں کو ایس ایم ایس اور ای میل بھیج رہے ہیں اور ہر ایک سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ جمہوریت کی بحالی کے لئے میدان میں نکل آئیں ۔ دو روز قبل ان سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ وہ سفر میں ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے میں شرکت کے لئے جرمنی کے شہر برلن جارہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ برلن کے بعد وہ دیگر یورپی شہروں میں بھی مظاہروں کا پروگرام بنارہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی اگر کہیں وکلاء یا کسی سیاسی جماعت کے مظاہرے کا پروگرام ہو، تو ہم سے پہلے ان کو اس کی خبر ہوجاتی ہے اور وہ اس میں شرکت کی تلقین کرنے کے لئے یہاں کے دوستوں کو ایس ایم ایس بھجواتے رہتے ہیں ۔ ہمارے یہ دوست جو ہمہ وقت کتاب پڑھتے رہتے تھے ، اب کتاب کو ایک طرف رکھ کر ہمہ وقت احتجاج میں مگن رہتے ہیں ۔ انہیں سیاست سے کوئی خاص سروکار نہ تھا ،لیکن اب وہ سراپا سیاست بن گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے دوستوں کے حلقے میں اب وہ "یورپ کے قاضی حسین احمد" کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے اس پیارے دوست کو کتاب سے لاتعلق بنا کر کس نے قاضی حسین احمد بننے پر مجبور کیا ؟۔ جواب صاف ظاہر ہے صدر محترم جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں اور اقدامات نے ۔لیکن یہ صرف ہمارے اس دوست کا معاملہ نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں مقیم پاکستانی ہمارے مقابلے میں کئی گنا زیادہ پریشان ہیں ۔ ہم نجی ٹی وی چینل نہیں دیکھ رہے ہیں ، اس لئے ہم زیادہ تشویش میں مبتلا نہیں لیکن باہر مقیم پاکستانی مختلف ذرائع سے باخبر بن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں جمہوری اور انسانی آزادیوں کا گلہ گھونٹا جارہا ہے ۔ ہم تو یہاں ایک دوسرے سے مل کر فریاد کرلیتے ہیں لیکن باہر کی دنیا میں مقیم پاکستانیوں کو دیگر ممالک کے لوگ طعنے دے رہے ہیں ۔باہر کی دنیا میں پاکستان کا امیج پہلے سے خراب تھا لیکن اب تو پاکستانیوں کو عجیب و غریب خفت کا سامنا کرنا پڑر ہاہے ۔ گذشتہ روز ایک یورپی ملک میں تعینات پاکستانی سفیر سے بات ہورہی تھی ۔ وہ بتارہے تھے کہ جس ملک میں وہ تعینات ہیں ، اس ملک کے حکام جب ان سے ملتے ہیں تو پاکستان کے حالات پر تعزیت کرنے لگ جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سے باہر مقیم ہر پاکستانی، قاضی حسین احمد بن گیا ہے ۔طالب علم ہے تو پڑھ نہیں سکتا ، استاد ہے تو پڑھا نہیں سکتا ، تاجر ہے تو کمائی نہیں کرسکتا اور مزدور ہے تو مزدوری نہیں کرسکتا ۔ ہر ایک کو اپنے ملک کی فکر لاحق ہے ۔ ہر ایک دوسرے ملکوں سے اپنے ملک کی حالات کا موازنہ کرکے احساس کمتری کا شکار اور ذہنی مریض بن رہا ہے ۔ یقینا ابھی پاکستان کے اندر ایسی غیرمعمولی فضا نہیں بنی ہے اور حقیقی قاضی حسین احمد بھی اپنے گھر میں نظر بند ہیں لیکن اگر ہمارے حکمران اپنی ضد پر اڑے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہر پاکستانی قاضی حسین احمد بن جائے گا۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...