Sunday, February 10, 2008

collumn from malik Riyadh Hussan posted by shafique ahmed bloggs ہم کیوں زوال کا شکار ہیں

ہم کیوں زوال کا شکار ہیں


malik-riaz-logo.jpg





گزشتہ ہفتے دبئی میں تھا، دبئی سے ترکی اور ترکی کے بعددو دن پہلے لندن آ گیا یہاں آنے کا مقصد بین الاقوامی یونیورسٹی کوپاکستان لے کر جانا تھا، مڈل سیکس یورپ کی بہت بڑی یونیورسٹی ہے اسی طرح کیمبرج یونیورسٹی دنیا کی تیسری، چوتھی بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک یونیورسٹی کو پاکستان لے کر جانا چاہتا تھا، میری خواہش تھی جس طرح یورپ میں لوگ ان یونیورسٹیز سے مستفید ہو رہے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے بچے بھی پاکستان میں اسی طرز کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں ۔ اس سلسلے میں مڈل سیکس اور کیمبرج یونیورسٹی کے چانسلرز سے ملاقات کی اور گزشتہ دو دن سے ان کے ساتھ رابطے میں ہوں ۔ ا س دوران ان لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان آئیں اور پاکستان میں اسی طرز کی ایک بڑی یونیورسٹی بنائیں چنانچہ ان کی ٹیم میری تحریک پر 6مارچ سے 13مارچ تک پاکستان آرہی ہے۔ میرا ان لوگوں سے پہلے بھی رابطہ ہوا تھالیکن یہ لوگ پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں تھے، ان سے دوبارہ رابطہ کیا اوریہ لوگ آمادہ ہو گئے۔ یہ ٹیم اس سے قبل انڈیا اور ملائیشیا میں بھی گئی اوراس نے ان دونوں ممالک میں اپنی برانچز کھولی ہیں ۔ ان لوگوں سے کہا ہماری ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن ہے چنانچہ آپ کو اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ پرائیویٹ آرگنائزیشن اور حکومت کے پروسیجر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ حکومتی سسٹم کے تحت بہت سارے مسائل درپیش ہوتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثلاً اس کیلئے حکومت سے سب سے پہلے زمین لینا پڑتی ہے، حکومت ٹینڈردیتی رہتی ہے اوراس کی منظوری تک بعض اوقات کئی سال لگ جاتے ہیں جبکہ پرائیویٹ ادارے خودمختار ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں سے کہا آپ پاکستان آئیں اوربحریہ ٹاؤن کے فیز 8میں ڈیڑھ سوایکڑ رقبے پریونیورسٹی قائم کریں لہٰذا یہ لوگ اگلے ماہ پاکستان آ رہے ہیں اوربحریہ ٹاؤن میں مڈل سیکس اورکیمبرج یونیورسٹی کی طرز کی یونیورسٹی کی بنیاد رکھیں گے جس سے پاکستان میں تعلیم کے میدان میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوگی۔
میں نے ہمیشہ اس چیز کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے ہم کہ لوگ تعلیم کے میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں اورتعلیم کے اس فقدان کی وجہ سے آج امریکہ اوریورپ ہمارے سروں پر سوار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں انسان کی دس ہزار سالہ تاریخ میں جس قوم نے بھی ترقی کی اس میں تین خوبیاں تھیں ، وہ علم میں دوسری قوموں سے برتر تھی، اس کی معیشت مضبوط تھی اور وہ باقی قوموں سے طاقت ور تھی اور ترقی کا یہ فارمولہ آج تک دنیامیں کارفرما ہے لیکن افسوس ہم ان تینوں شعبوں میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں ۔ اس وقت دنیا میں ایک ارب 47کروڑ 62لاکھ 33ہزار 4سو 70مسلمان ہیں ، دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، دنیا میں ایک ہندو اور ایک بدھ کے مقابلے میں دو مسلمان اورایک یہودی کے مقابلے میں 100مسلمان ہیں ، دنیا میں 61اسلامی ممالک ہیں ، ان میں سے 57او آئی سی کے رکن ہیں لیکن یہ دنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی کمزور، حقیراور بے بس ہیں ۔ سوال یہ ہے ایسا کیوں ہے ؟ اس کا جواب بڑا سادہ ہے ،دنیامیں ترقی کا پہلا اصول علم ہے جبکہ ہم اگر اسلامی دنیا کا جائزہ لیں تواس وقت پوری اسلامی دنیامیں صرف 500یونیورسٹیاں ہیں ، ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعدا د پر تقسیم کریں توایک یونیورسٹی 30لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے میں آتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 5 ہزار 7 سو 58یونیورسٹیاں ہیں ٹوکیو شہر میں 1000یونیورسٹیاں ہیں ، عیسائی دنیا کے 40فیصد نوجوان یونیورسٹی میں داخل
ہوتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے صرف دو فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں ، اسلامی دنیا میں اکیس لاکھ لوگوں میں سے صرف230لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے جبکہ امریکہ کے دس لاکھ شہریوں میں سے 4ہزار اور جاپان کے 5ہزار شہری سائنس دان ہوتے ہیں ،پوری عرب دنیا میں صرف 35ہزار فل ٹائم ریسرچ سکالرز ہیں جبکہ صرف امریکہ میں ان کی تعداد 22لاکھ ہے۔ پوری اسلامی دنیا اپنے جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ دو فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ تحقیق اور علم پر لگاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں 200بڑی یونیورسٹیاں ہیں ،ان دو سو یونیورسٹیوں میں سي54امریکہ، 24برطانیہ، 17آسٹریلیا، 10چین ، 10جاپان ، 10ہالینڈ، 9فرانس، 9جرمنی ، 9کینیڈا اور 7سوئٹزرلینڈ میں ہیں ، ان دوسو یونیورسٹیوں میں اسلامی دنیا کی صرف ایک یونیورسٹی ہے جبکہ اس فہرست میں بھارت کی تین یونیورسٹیاں آتی ہیں ،اگر ہم اس فہرست کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی 20 یونیورسٹیوں میں 18یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں ، کمپیوٹرکے پہلے دس بڑے ادارے امریکہ میں ہیں اور دنیا کے 30فیصد غیر ملکی طالب علم امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔پوری دنیا میں امریکہ اعلیٰ تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتاہے،امریکہ اپنے جی ڈی پی کا دو اعشاریہ چھ فیصد ہائیر ایجوکیشن پر صرف کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یورپ ایک اعشاریہ دو اور جاپان ایک اعشاریہ ایک فیصد خرچ کرتے ہیں ۔ امریکہ ٹیکنالوجی اور ایجادات میں دنیا میں پہلے نمبر پرآتا ہے، اس کی کمپنیاں تحقیق پر دنیا میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں ،امریکہ تحقیقی اداروں کے معیار میں سب سے آگے ہے اوراس وقت دنیامیں سب سے زیادہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان امریکہ میں ہیں ۔چین اور بھارت علم اور ٹیکنالوجی میں نئی طاقت بن کر ابھررہے ہیں ، امریکی ماہرین کا خیال ہے چین 2045ء میں امریکہ کی جگہ لے لے گا، اس کی وجہ یونیورسٹیاں اور ٹیکنالوجی ہے، چین میں اس وقت 9000اور بھارت میں 8407یونیورسٹیاں ہیں ۔ یہ دونوں ملک ہر سال 9لاکھ 50ہزار انجینئر پیدا کرتے ہیں ،اس کے مقابلے میں امریکہ میں ہر سال صرف 70ہزار نئے انجینئر مارکیٹ میں آتے ہیں لہٰذا آپ دیکھ لیجیے اس وقت ہر وہ ملک ترقی یافتہ ہے جو علم، یونیورسٹیوں اور شرح خواندگی میں دنیا سے آگے ہے اور ہر وہ ملک پسماندہ ہے جو علم میں پیچھے ہے اور بدقسمتی سے اسلامی دنیا اس شعبے میں دنیا میں سب سے پیچھے ہے۔ ترقی کا دوسرا اصول معیشت ہوتی ہے، 61اسلامی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی صرف 2ٹریلین ڈالر ہے جبکہ امریکہ صرف مصنوعات اور خدمات کے شعبے سے 12ٹریلین کماتاہے، امریکہ کے صرف ایک شہر لاس ویگاس کی معیشت سوا 13ٹریلین ڈالرہے، امریکہ کی سٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ 20ٹریلین ڈالر کی مالک ہے، صرف کوکا کولا کمپنی کے نام کی قیمت 97ارب ڈالر ہے، دنیامیں اس وقت 36ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں ان میں سے 25 ہزارکا تعلق امریکہ سے ہے، دنیا کے 25 امیر ترین لوگوں میں سے 12کا تعلق امریکہ سے ہے۔ دنیا کی 52فیصد فیکٹریاں عیسائی دنیامیں ہیں جبکہ دنیا کی 70فیصد صنعتوں کے مالک عیسائی اور یہودی ہیں ، دنیا کی دس ہزار بڑی ایجادات میں سے 6103ایجادات امریکی جبکہ 8315ایجادات عیسائیوں اور یہودیوں نے کی تھیں ، اسلامی دنیا جتنی رقم کا تیل فروخت کرتی ہے امریکہ اوریورپ اس سے دوگنی رقم کی ہر سال شراب بیچتے ہیں ، ہمارے سارے تیل کی مالیت امریکہ کی برگربنانے والی تین کمپنیوں کے سالانہ ٹرن اوور کے برابر ہے۔ امریکہ کے سروسز کے شعبے کی آمدنی پوری اسلامی دنیا کے مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ ہے اور ہم 61اسلامی ممالک ہر سال ایکسپورٹس سے جتنی رقم حاصل کرتے ہیں اتنی رقم ہالینڈ صرف پھول بیچ کر کما لیتا ہے اور ترقی کا تیسرا اصول طاقت ہوتی ہے، آپ غور کریں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کون ہے؟ کس ملک کے پاس بڑی فوج ہے، کس کا دفاعی بجٹ زیادہ ہے، کس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں ،میزائل کس کے پاس زیادہ ہیں ، کس کے طیارے پوری دنیا کا چکر لگاسکتے ہیں ، وہ کون سا ملک ہے جو اڑتے ہوئے طیاروں میں پیٹرول بھر سکتا ہے ،جس کے پاس توپیں اور ٹینک ہیں ،جو لیزر گائیڈڈ بموں سے ہزاروں میل دور تباہی مچا سکتاہے ، کس کے مصنوعی سیارے دنیاکی ایک ایک انچ پر نظریں گاڑھے بیٹھے ہیں ، کون ہے جو ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کے چشمے کا نمبر معلوم کرسکتا ہے اور کون ہے جو دنیا کا ہر کمپیوٹر اور ہر ٹیلی فون مانیٹر کررہاہے، یقیناً یہ امریکہ ہے، امریکہ کے بعد برطانیہ ، جرمنی ، فرانس، اٹلی اور روس آتے ہیں اور اس کے بعد چین اور بھارت کا نمبر آتا ہے جبکہ بدقسمتی سے ایک بھی اسلامی ملک دفاعی ساز و سامان بنانے والے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ، پورے عالم اسلام میں پاکستان واحدملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے ،اسلامی بلاک کے کسی ملک میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ کسی یورپی ملک کے بغیر اپنا دفاع کرسکے، آپ پوری اسلامی دنیا کی فوجی تنصیبات اور فوجی اثاثوں کا تجزیہ کرلیں ، ان کے پاس رائفل سے لے کر جہاز تک امریکہ اوریورپ کے ہوں گے، وہ رائفلوں کی گولیاں تک کسی عیسائی ملک سے لے رہے ہوں گے۔
یہ ہماری صورت حال ہے اوریہی ہمارے زوال کی اصل وجوہات ہیں ، قدرت کا قانون ہے جب بھی کوئی چیز بلندی سے گرتی ہے تو وہ ہمیشہ نیچے آتی ہے، قدرت نے آج تک دنیا کے کسی شخص، کسی قوم کے لئے اپنا یہ قانون تبدیل نہیں کیا، دنیامیں کامیابی اور فتح کیلئے خود کو طاقتورثابت کرنا پڑتاہے ،یہ بھی قدرت کا قانون ہے، قدرت نے اپنا یہ قانون اپنے انبیاء کرام تک کیلئے تبدیل نہیں کیاتھا، حضرت آدمؑ سے لے کر رسول اکرمؐ تک دنیا کے ہر نبی کو میدان جنگ میں اپنی طاقت ثابت کرنا پڑی تھی اور وقت کے ہر دور میں صرف وہی تہذیب قائم رہی جس کے پاس فوج، علم اورٹیکنالوجی تھی لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہم ان تینوں شعبوں میں بہت پیچھے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہم سب زنگ آلود تلواریں لے کر میزائلوں کے سامنے صف آراء ہیں ، ہم سب کی گردنوں میں جہالت کے طوق پڑے ہیں اور ہم سب کشکول لے کر غیروں کے دروازوں پر کھڑے ہیں ۔ہمارا خیال ہے اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنانظام بدل دے گا لیکن وہ اللہ جس نے اپنا نظام اپنے نبیوں کیلئے تبدیل نہیں کیا وہ ہمارے لئے کیوں بدلے گا لہٰذا میں پاکستان میں تعلیمی میدان میں بہتری لانے کیلئے پہلا قدم اٹھا نا چاہتا ہوں ۔ مجھے امید ہے میرا یہ قدم آنے والے دنوں میں ملک وقوم کیلئے ایک بہترین راہ متعین کر دے گا۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...