Sunday, February 10, 2008

کون بنے گا وزيراعظم؟ Qayyum Nizami daily jinnah posted by shafique ahmed bloogs

کون بنے گا وزيراعظم؟


qayyum-nizami.jpg





پارليمانی جمہوريت کا يہ بنيادی اصول ہوتا ہے کہ انتخابات سے پہلے رائے دہندگان کو يہ علم ہو کہ وہ جس جماعت کو ووٹ دے کر کامياب کريں گے اس کا ايک مرکزی ليڈر ہے جس پر اس جماعت کے سارے ارکان متفق ہيں اور جو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے گا پاکستان ميں جمہوری روايات جڑ نہيں پکڑ سکيں ، فوجی آمر جمہوريت کا تسلسل توڑتے رہے اور اپنے برانڈ کی کنٹرولڈ جمہوريت نافذ کرتے رہے 2002ء کے انتخابات پاکستان کی تاريخ کے پہلے انتخابات تھے جن ميں محترمہ بينظير بھٹو اور مياں نواز شريف کو انتخابی ميدان سے باہر رکھنے کے لئے ان پر تيسری بار وزيراعظم منتخب ہونے کی پابندی لگا دی گئی۔
2002کے انتخابات ميں رائے دہندگان کو يہ علم نہيں تھا کہ انتخابات کے بعد پاکستان کا وزيراعظم کون ہوگا 2008ء کے انتخابات ميں بھی صورت حال واضح نہيں ہے رائے دہندگان کو علم نہيں ہے کہ 18فروری کے انتخاب کے بعد جو سياسی جماعت اکثريت حاصل کريگی اس کا پارليمنٹ ميں ليڈر کون ہوگا پاکستان پيپلزپارٹی کی ليڈر محترمہ بينظير بھٹو شہيد ہو چکی ہيں جن کو پاکستان کی آئندہ وزيراعظم کے طور پر ديکھا جارہا تھا تجزيہ نگار متفق تھے کہ پی پی پی انتخابات ميں اکثريت حاصل کرے گی اور مرکز ميں حکومت بنانے کے قابل ہو جائے گی محترمہ بينظير بھٹو پر تيسری بار وزيراعظم بننے کی پابندی اٹھالی جائے گی اور وہ تيسری بار خاتون وزيراعظم بننے کا اعزاز حاصل کر ليں گی محترمہ کی شہادت نے سياسی منظر نامہ ہی تبديل کر ديا ہے محترمہ کے جانشين پی پی پی کے شريک چےئر مين آصف علی زرداری نے اپنی پہلی تاريخی کانفرنس ميں وزيراعظم کے لئے مخدوم امين فہيم کا نام ليا تھا مخدوم امين فہيم کا خاندان پی پی پی کے بانی خاندانوں ميں شمار ہوتا ہے جس نے ہميشہ پی پی پی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے آصف علی زرداری نے بڑی دانش مندی اور بصيرت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کا مسئلہ حل کر ديا تھا اور مخدوم امين فہيم کے نام پر اتفاق رائے پايا جاتا تھا پی پی پی کے مرکزی فنانس سيکرٹری ڈاکٹر بابر اعوان نے ايک تقريب ميں آصف علی زرداری کا نام بطور وزيراعظم پيش کر کے پارٹی کے لئے ايک مسئلہ کھڑا کر ديا ۔وزارت عظمیٰ کے فيصلے پبلک ميٹنگ ميں نہيں بلکہ پارٹی ميٹنگوں ميں ہوا کرتے ہيں بعض تجزيہ نگار ڈاکٹر بابر اعوان کے بيان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی تصور کرتے ہيں آصف علی زرداری نے بھی ڈاکٹر بابر اعوان کے بيان کو پسند نہيں کيا پی پی پی کو پوری توجہ انتخابات پر مرکوز رکھنی چاہيے اور ايسے بيانات سے گريز کيا جانا چاہيے جس سے پارٹی کے اندر انتشار پيدا ہونے کا خدشہ ہو پارٹی کا کوئی بھی ليڈر محترمہ بينظير بھٹو کی زندگی ميں اس نوعيت کا بيان دينے کی جرأت نہيں کر سکتا تھا جو پارٹی ميں اختلاف اور انتشار پيدا کر نے کا سبب بن سکتا ہو وہ پارٹی ليڈروں کے بيانات کا نوٹس ليتی تھيں اور انہيں ڈسپلن ميں رکھتی تھيں اميد ہے کہ آصف علی زرداری بھی پارٹی ميں عدم ڈسپلن کو برداشت نہيں کريں گے محترمہ بينظير بھٹو نے آصف علی زرداری کی اہليت، تجربے اور جرأت کی بناء پر انہيں اپنا جانشين نامزد کيا اور توقع ظاہر کی کہ وہ پارٹی کو متحد رکھيں گے پاکستان پيپلزپارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں نے صدق دل سے اپنی شہيد قائد کے فيصلے کو تسليم کیا،پی پی پی ميں ايسے درجن بھر ليڈر موجود ہيں جو وزيراعظم بننے کے اہل ہيں پی پی پی وزارت عظمیٰ کا فيصلہ سينٹرل ايگزيکٹو اور پارليمانی پارٹی کے مشورے سے انتخابات کے بعد کرے گی1977ء ميں جب جنرل ضياء الحق نے بھٹو شہيد حکومت کا تختہ الٹا اور بھٹو کو قتل کے ايک مقدمے ميں گرفتار کياگيا تو پی پی پی کے مرکزی سيکرٹری اطلاعات مولانا کوثر نيازی نے پارٹی لائين کے برعکس اخباری بيان دينا شروع کر دئيے انہوں نے خفيہ ايجنسيوں سے رابطے شروع کر دئيے اور غلام مصطفی جتوئی کو پارٹی کا قائمقام چےئر مين بنانے کے لئے لابنگ شروع کر دی بھٹو شہيد نے مولانا کوثر نيازی کو پارٹی سے فارغ کر ديا اور راقم کو ان کی جگہ مرکزی سيکرٹری اطلاعات نامزد کر ديا مولانا کوثر نيازی نے "ديدہ ور" کے نام سے بھٹو شہيد کی سوانح عمری تحرير کی جو خوشامدانہ تھی سياسی تاريخ ميں الفاظ کے جادو جگانے والے اکثر سياست دان عمل کے امتحان ميں ناکام ہو تے رہے ہيں ليڈر ہو يا کارکن اسے پارٹی ڈسپلن کا پابند ہونا چاہيے محترمہ بينظير بھٹو نے اپنی وصيت ميں کارکنوں کو اس بناء پر بھی خراج تحسين پيش کيا کہ وہ ہر حال ميں ڈسپلن کے پابند رہے پی پی پی اگر اکثريت حاصل کر نے ميں کامياب ہو گئی تو اسی جماعت کا نمائندہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے گا عبوری مدت کے لئے مخدوم امين فہيم وزيراعظم بن سکتے ہيں آصف علی زرداری ضمنی انتخابات جيت کر پارليمنٹ ميں پہنچ سکتے ہيں اور قومی اتفاق رائے کی صورت ميں پاکستان کے وزيراعظم کا منصب سنبھال سکتے ہيں پی پی پی ، مسلم ليگ ن جمعيت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، ايم کيو ايم اور عوامی نيشنل پارٹی مل کر قومی حکومت بنا سکتے ہيں بڑی سياسی جماعتوں ميں يہ اتفاق رائے موجود ہے کہ ايک قومی حکومت ہی پاکستان کو سنگين بحران سے باہر نکال سکتی ہے ۔
پی ايم ايل( اين) کے مرکزی رہنما مياں نواز شريف اور مياں شہباز شريف انتخابات سے باہر ہيں لہٰذا ان ميں سے کسی کے وزيراعظم بننے کے امکانات نہيں البتہ پی پی پی اور مسلم ليگ ن کے درميان يہ معاہدہ طے پا سکتا ہے کہ نصف ٹرم گزرنے کے بعد مياں نواز شريف وزيراعظم بن جائيں مسلم ليگ ق نے پرويز الٰہی کو وزيراعظم کے طور پر پيش کيا ہے زمينی حقائق مسلم ليگ ق کے لئے ساز گار نہيں لہٰذا پرويز الٰہی کے لئے وزيراعظم بننے کے امکانات معدوم ہيں محترمہ بينظير بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی کا راستہ روکنا ممکن نہيں رہا حالات کا جبراسٹيبلشمنٹ کو مجبور کر دے گا کہ پی پی پی کو مرکز ميں حکومت بنانے کا موقع دے ديا جائے تاکہ سندھ کے عوام کے مشتعل جذبات ٹھنڈے ہو سکيں نوشتہ ديوار يہ ہے کہ آئندہ وزيراعظم سندھ سے ہوگا اور اس کا تعلق پی پی پی سے ہوگا ۔
کالم ميں بيان کئے گئے خيالات ميرے ذاتی ہيں اور پی پی پی کا ان سے کوئی تعلق نہيں ہے ۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...