Saturday, February 9, 2008

محترمہ بينظير بھٹو کی سياسی وصيت by Qayyum Nizami of Daily Jinnah posted bu shafique ahmed bloggs

محترمہ بينظير بھٹو کی سياسی وصيت


qayyum-nizami.jpg





محترمہ بينظير بھٹو کی سياسی وصيت کے بارے ميں پورے پاکستان ميں قیاس آرائياں جاری تھیں پی پی پی کے سياسی مخالفين شکوک و شبہات پھيلا رہے تھے ہمارے ملک کی ايک بيماری يہ بھی ہے کہ جو لوگ عملی سياست ميں شريک نہيں ہيں وہ سياسی تجزيے کرتے ہيں اور فتوے جاری کرتے ہيں سياسی جماعتوں کے فيصلوں پر تنقيد کرتے ہيں غير سياسی پنڈتوں نے محترمہ بينظير بھٹو کی وصيت پر بھی تنقيد کی پارٹی ليڈر اپنی جماعت کی خوبيوں اور کمزوريوں سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے وہ اپنی پارٹی کے رفقاء اور کارکنوں کے مزاج کی روشنی ميں فيصلے کرتا ہے پارٹی فيصلوں پر تنقيد کرنيوالے غير سياسی لوگ پارٹی کے اندرونی ڈھانچے اور تنظيم سے آگاہ نہيں ہوتے لہٰذا انہيں اپنی رائے پر اصرار نہيں کرنا چاہئے۔
محترمہ بينظير بھٹو نے اپنے جانشين کا فيصلہ اپنے ہاتھ سے تحرير کرکے اپنی دانشمندی اور بصيرت کا ثبوت دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کے انتخابات سے پہلے اپنے دو جانشين معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر نامزد کئے تھے ان پر قاتلانہ حملے ہو رہے تھے لہٰذا انہوں نے پارٹی کے وسيع تر مفاد ميں دو جانشين نامزد کئے ايک کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا جبکہ دوسرے کا تعلق جاگيردار طبقے سے تھا۔ بھٹو شہيد دو طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ معراج محمد خان اصولی اختلافات کی بناء پر بھٹو شہيد سے عليحدہ ہو گئے جبکہ غلام مصطفیٰ کھر جانشين کا فرض پورا کرنے کے بجائے بھٹو کو موت کی کوٹھڑی ميں چھوڑ کر پاکستان سے باہر چلے گئے۔ محترمہ بينظير بھٹو نے آصف علی زرداری کو اپنا جانشين نامزد کيا ہے جن کے بارے ميں ان کو يقين تھا کہ وہ ان کی شہادت کے بعد پی پی پی کو متحد رکھنے کيلئے بہترين انتخاب ثابت ہونگے۔ پاکستان ميں چونکہ جذبات کا عمل دخل زيادہ ہے ہم نعروں اور تقريروں پر زيادہ زور ديتے ہيں اور حکمت و بصيرت کو نظرانداز کرتے ہيں لہٰذا محترمہ بينظير بھٹو کی وصيت کے متن کی پوری طرح پذيرائی نہيں کی گئی محترمہ بينظير بھٹو کی وصيت ايک تاريخی دستاويز ہے جسے پی پی پی کے ہر کارکن کو اپنی ليڈر کے آخری پيغام کے طور پر مشعل راہ بنانا چاہئے محترمہ بينظير بھٹو جنہيں اپنی شہادت کا يقين ہو چلا تھا بلکہ وہ شعوری طور پر سوئے مقتل سفر کا آغاز کر چکی تھیں ۔
مقام فيض راہ ميں کوئی جچا ہی نہيں
جو کوئے يار سے نکلے تو سوئے دار چلے
محترمہ بينظير بھٹو نے دبئی سے پاکستان واپسی سے پہلے اپنے ہاتھ سے سترہ صفحات پر مشتمل ايک وصيت تحرير کی جس ميں خاندانی اور پارٹی امور کے علاوہ ايک صفحہ اپنے جانشين کی نامزدگی کے بارے ميں بھی تھا۔ سياسی وصيت کا ايک ايک لفظ قابل توجہ ہے شہيد بی بی نے تحرير کيا۔
" پی پی پی کے عہديداروں اور اراکين (کارکنوں ) سے ميں کہتی ہوں کہ مجھے ان کی رہنمائی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کوئی اور ليڈر اپنی پارٹی پر اس قدرفخرنہيں کر سکتا جس قدر ميں اپنی پارٹی پر کر سکتی ہوں پی پی پی کے کارکنوں نے اپنے ليڈر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کے تحت انسانی مساوات پر مبنی ملک بنانے کيلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور ڈسپلن کا مظاہرہ کيا۔ ميں آپ کی جرأت اور حرمت کو سلام پيش کرتی ہوں ۔ ميں آپ کو سلام پيش کرتی ہوں کہ آپ دو فوجی آمريتوں کے دوران اپنی بہن کيساتھ کھڑے رہے۔
ميں پاکستان کے مستقبل کے بارے ميں فکر مند ہوں ۔ براہ کرم انتہا پسندوں ، آمريت، غربت اور جہالت کيخلاف جدوجہد جاری رکھيں ميں چاہتی ہوں کہ ميرے شوہر آصف زرداری عبوری دور کيلئے اس وقت تک آپ کی رہنمائی کريں جب تک وہ اور آپ مل کر پارٹی کيلئے کوئی بہتر فيصلہ نہ کرليں ميں يہ اس لئے کہتی ہوں کيونکہ آصف ايک جرأت مند اور قابل فخر شخص ہے اس نے ساڑھے گيارہ سال جيل ميں گزارے اور اذيت کے باوجود جھکنے سے انکار کر دیا وہ اپنے سياسی مرتبے کی بناء پر ہماری پارٹی کو متحد رکھ سکتے ہيں ۔ ميں آپ کيلئے نيک تمنائيں رکھتی ہوں اور دعا گو ہوں کہ آپ پارٹی منشور پر عمل کرنے اور پسے ہوئے مظلوم عوام جن سے ناروا اور امتيازی سلوک کياگيا کی خدمت کرنے ميں کامياب ہوں ۔ آپ ان عوام کو غربت اور پسماندگی سے نجات دلانے کيلئے خود کو وقف کر ديں جيسا کہ آپ نے ماضی ميں کيا۔"
اس وصيت نامہ پر محترمہ بينظير بھٹو نے دستخط کئے اور 16 اکتوبر 2007ء کی تاريخ درج کی۔ اردو پريس کا معيار چونکہ قابل رشک نہيں ہے اس لئے قومی اخبارات ميں محترمہ کی انگريزی ميں وصيت کا درست ترجمہ شائع نہيں کيا جا سکا تحرير لکھنے والا ليڈر چونکہ اپنے دل و دماغ کو گواہ رکھتا ہے اس لئے تحرير کو ہميشہ تقرير پر زيادہ اہميت دی جاتی رہی ہے۔ محترمہ نے ايک صفحہ کی تحرير ميں اپنی شخصيت، سياست اور نظريے کو جس خوبصورت، دلکش اور جامع انداز ميں بیان کيا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ پی پی پی کے حامیوں اور کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی شہيد قائد کے آخری پيغام کو اپنا مشن بنائيں ۔ عوام دشمن عناصر پی پی پی کو کمزور اور تقسيم کرنے کی کوششيں جاری رکھيں گے پی پی پی کے کارکن پہلے بھی ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے ہيں آئندہ بھی انہيں متحد رہتے ہوئے ہر قسم کے حربوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا ہے اور پارٹی کا قبلہ بھی درست رکھنا ہے۔ محترمہ بينظير بھٹو کی سياسی وصيت کے ايک ايک لفظ پر پارٹی کارکنوں کا مکمل اعتماد ہونا چاہئے انتہا پسندی، غربت اور جہالت کا خاتمہ تين اہم اصول ہيں جو شہيد بی بی نے پارٹی کيلئے متعين کئے ہيں مفاد پرست عناصر پی پی پی کو ان اصولوں سے دور کرنے کی کوشش کريں گے پارٹی کارکن ايسے مفاد پرست عناصر سے ہوشيار رہيں اور ہر گلی اور ہر کوچے ميں محترمہ بينظير بھٹو کی آخری وصيت کا پرچار کريں تاکہ وصيت ميں تحرير کردہ انقلابی پيغام کی روشنی ميں عوام کو شعور سے مسلح کرکے انہيں منظم اور متحد کيا جا سکے تاکہ بھٹو اور محترمہ کے مشن کی تکمیل کی منزل حاصل کی جا سکے۔ اگر پارٹی کے کارکن شہيدوں کے مشن سے غافل کر دئيے گئے تو پھر منزل ہاتھ سے نکل جائے گی۔

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...