Wednesday, November 19, 2008

BBCUrdu.com | پاکستان | غریب ماؤں نے بچوں کو چھوڑ دیا


ایدھی فاؤنڈیشن کے اس مرکز میں پہلے سے ہی چالیس بچے پل رہے ہیں
کراچی میں غربت اور بد حالی سے تنگ تین خواتین نے اپنے آٹھ بچوں کو کفالت کے لیے فلاحی ادارے ایدھی کے حوالے کردیا ہے۔
میٹھادر میں واقع ایدھی سینٹر میں منگل کی شام ان خواتین نے اپنے بچے عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کے سپرد کیے۔
یاسمین اپنے چار بچوں بارہ سالہ فائزہ، سات سالہ رحمان، نو سالہ رمشا اور دس سالہ عدنان، گل تاج بی بی اپنے تین بچوں دو سالہ عمر خان، ساڑھے پانچ سالہ عثمان اور آٹھ سالہ نمرہ اور رخسانہ اپنی بچی وردہ اور ایک اور بچی کو چھوڑ گئی ہیں۔
والدہ یہ کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں پڑھو یہ سکول ہے

فائزہ
اکسٹھ سال سے سماجی خدمت کے شعبے سے وابستہ عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی ماؤں کا کہنا تھا کہ وہ انہیں تین وقت کھانا فراہم کرنے کی حیثیت میں نہیں ہیں۔
’ تینوں خواتین کے پاس مکان کا کرایہ نہیں تھا، شوہر بیروزگار ہیں ایک کا شوہر تو معذور اور بیمار ہے۔ جبکہ کوئی مدد کرے والا نہیں تھا، انہوں نے کئی لوگوں سے مدد کے لیے کہا مگر کسی نے مدد نہیں کی۔‘
کیا معصوم عثمان اپنے گھر لوٹ سکے گا؟
ایدھی کے مطابق انہوں نے خواتین کو ایک ایک لاکھ روپے کی امداد کی پیشکش کی مگر ان کا کہنا تھا کہ’ آپ بچے رکھیں وہ تکلیف سے نکل جائیں بعد میں رابطہ کریں گی۔‘ایدھی کے مطابق یہ عورتیں جب چاہیں اپنے بچے آکر لے جاسکتی ہیں۔
بارہ سالہ فائزہ کا کہنا ہے کہ وہ کورنگی کے علاقے میں رہتے ہیں اور س کے والد فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اس کی والدہ یہ کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں پڑھو یہ سکول ہے۔
چھوٹی بہن رمشا کا کہنا ہے کہ ’پہلے سکول میں اچھا نہیں پڑھاتے تھے امی کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں اچھا پڑھائیں گے، صبح کو امی ابو دونوں ملنے آئیں گے۔‘
دونوں بنہوں کے تین بھائی اور دو بہنیں گھر پر ہیں۔
ساڑھے پانچ سالہ محمد عثمان کو بھی ان کی والدہ یہ ہی کہہ کرگئی ہیں کہ یہاں پر پڑھو، ان کا کہنا ہے گھر میں پیسے ہی نہیں ہوتے تھے اس لیے صرف ایک وقت ہی کھانا ملتا تھا۔
ایدھی ہوم میں پہلے سے چالیس بچے موجود تھے۔ اس سینٹر کی نگران بلقیس ایدھی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو کچھ دن یہاں پر رکھیں گے تاکہ یہاں کے ماحول میں گھل مل جائیں پھر ان کو دوسرے سینٹروں میں بھیج دیا جائےگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو یہاں گھر کا ماحول دینے کی پوری کوشش کی جاتی ہے مگر جب ماں باپ ملنے آتے ہیں تو پھر سیٹ ہونے میں ایک دو روز لگ جاتے ہیں۔ یہ بچے ضد کرتے ہیں، روتے بھی ہیں مگر مائیں اپنے ساتھ نہیں لے جاتی ہیں۔
رمشا اور فائزہ کو ان کی ماں نے پڑھنے کی تلقین کی
آٹھوں بچوں نے رنگیں کپڑے پہنے ہوئے تھے جو سینٹر کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔ شہر بھر کے ٹی وی چینلز کی موجودگی اور ان کے سوالوں نے ان بچوں کو پریشان کردیا تھا۔ فائزہ کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہوگئی تھیں کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ ’جب رات ختم ہوگی اور صبح ہوگی تو نہ اس کا اپنا گھر ہوگا نہ ہی ماں۔‘
نوے سالہ عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بھوک اور مہنگائی کی وجہ سے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس ملک میں سات سو ارب روپے زکوات بنتی ہے ’مگر بہت س لوگ دینےکو تیا رنہیں۔‘
ایدھی سینٹر سے اب تک بائیس ہزار بچے گود لیے گیے ہیں، عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ بچوں کو گود لینے کا سلسلہ جاری ہے، مگر جو بچے جھولے میں ڈالے جاتے ہیں لوگ صرف انہیں ہی گود لیتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں غدائی اشیا کی قیمتوں میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے، مہنگائی اور غربت پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بینظیر بھٹو سپورٹ پروگرام کے نام سے ایک امدادی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس کا فائدہ ابھی تک بہت سے لوگوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
BBCUrdu.com پاکستان غریب ماؤں نے بچوں کو چھوڑ دیا

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...