Tuesday, February 5, 2008

A TRIBUTE TO SHAHEED BENAZIR BHUTTO BY SHAFIQUE AHMED YOUSAF

When i hear the news about BB Martyrdom i fell unconscious and i still unable to understand and still I am not thinking that shaheed BB is not between us because she is martyred and we beleave that martyr does not die she will always remain and rule on our hearts. Absolutely she is “Shaheed e Jamhuriyat”. This was an act of Yazeed of the time against an innocent female leader.

and this is a poetry of well known Hassan Mujtaba of BBC

’تم کتنے بھٹو مارو گے‘

جو قریہ قریہ ماتم ہے

اور بستی بستی آنسو ہے

صحرا صحرا آنکھیں ہیں

اور مقتل مقتل نعرہ ہے

سنگ ستاروں کے لیکر

وہ چاند چمکتا نکلے گ

’تم کتنے بھٹو ماروگے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘

جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے

تم کتنا رستہ روکو گے

وہ اک ایسا جادو تھی

جو سر پر چڑہ کر بولے گی

ہر زنداں کے ہر مقفل کو

وہ چابی بن کر کھولے گی

شور ہواؤں کا بن کر

وہ آنگن آنگن ہولے گی

تم زندہ ہوکر مردہ ہو

وہ مردہ ہوکر زندہ ہے

’تم کتنے بھٹو ماروگے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘

تم خاکی وردی والے ہو

یا کالی داڑھی والے ہو

تم نیلے پیلے اودے ہو

یا گورے ہو یا کالے ہو

تم ڈاکو چور لٹیرے ہو

یا قومی غنڈے سالے ہو

اپنے اور پرائے ہو

یا اندھیاروں کے پالے ہو

وہ شام شفق کی آنکھوں میں

وہ سوہنی ساکھ سویروں کی

’تم کتنے بھٹو ماروگے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گ

وہ دیس دکھی کی کوئل تھی

یا تھر میں برکھا ساون کی

وہ پیاری ہنسی بچوں کی

یا موسم لڈیاں پاون کی

تم کالی راتیں چوروں کی

وہ پنکھ پکھیرو موروں کی

’تم کتنے بھٹو ماروگے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘

وہ بہن کسانوں کی پیاری

وہ بیٹی مل مزدوروں کی

وہ قیدی تھی زرداروں کی

عیاروں کی سرداروں کی

جرنیلوں کی غداروں کی

ایک نہتی لڑکی تھی

اور پیشی تھی درباروں کی

’تم کتنے بھٹو مارو گے

ہر گھر سے بھٹو نکلےگا‘

وہ بیٹی تھی پنج آبوں کی

خیبر کی بولانوں کی

وہ سندھ مدینے کی بیٹی

وہ نئی کہانی کربل کی

وہ خوں میں لت پت پنڈی میں

بندوقیں تھیں بم گولے تھے

وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی

اور ہر سو قاتل ٹولے تھے

اے رت چناروں سے کہنا

وہ آنی ہے، وہ آنی ہے

وہ سندر خواب حقیقت بن

چھاجانی ہے، چھا جانی ہے

وہ بھیانک سپنا آمر کا

’تم کتنے بھٹو ماروگے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘

وہ دریا دیس سمندر تھی

جو تیرے میرے اندر تھی

وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی

وہ لڑکی لال قلندر تھی

’تم کتنے بھٹو مارو گے

ہر گھر سےبھٹو نکلے گ

and also Anbaer khairy of BBC says:

بینظیر بھٹو کی موت کے بارے میں سوچ کر بڑا غم ہوتا ہے۔ دو دہائیوں سے صحافت میں رہتے ہوئے ہم نے ان کے سیاسی کریئر کو قریب سے دیکھا اور ان کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا۔

اب جب کہ وہ اس دنیا سے جا چکی ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کی بہت سی کامیابیوں کو بالکل نظر انداز کیا۔

بڑی ہمت والی خاتون تھیں، اور مستقل مزاجی سے پاکستان جیسے ’میل شووِنسٹ‘ معاشرے میں سیاست کرتی رہیں۔

انہوں نے سیاسی کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو زندگی بھی قائم رکھی۔ انیس سو اٹھاسی میں ضیاء حکومت کی پوری کوشش تھی کہ وہ انتخابات کی تاریخ ایسی مقرر کرے جو بینظیر بھٹو کے بچے کی پیدائش کے بہت قریب ہو تاکہ وہ انتخابی مہم میں کم از کم حصہ لے سکیں۔ انہیں حکومت کے ارادے کا پتہ تھا سو کراچی میں ان کے ڈاکٹر نے فائل میں بچے کی پیدائش کی متوقع تاریخ نومبر لکھ دی۔ حکومت نے انتخابات کی تاریخ نومبر مقرر کی۔

بے نظیر بھٹو کا بیٹا ستمبر میں پیدا ہوا اور وہ انتخابی مہم میں وہ پوری طرح سے شریک ہوئیں اور دسمبر میں وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ ان کی پہلی بیٹی ان کے دور حکومت میں پیدا ہوئی۔ دوسری بیٹی اس وقت پیدا ہوئی جب ان کی جماعت اپوزیشن میں تھیں۔

انیس سو اٹھاسی میں حزب اختلاف، اسلامی جمہوری اتحاد نے انتخابی مہم میں ان کی اور ان کی والدہ کے خلاف ایک بہت گندی میڈیا کیمپین چلائی جس میں ان کی کردار کشی کی گئی اور دونوں خواتین کے بارے میں فحاشی کے دعوے کیے گئے۔ آگے چل کر ان کے دشمنوں نے ان کے کردار کو تو نشانہ بنانا چھوڑ دیا لیکن ان کے شوہر کے کردار اور مبینہ بد عنوانی کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور اس کے بارے میں بہت سی افواہوں نے جنم لیا۔

ہم صحافیوں نے اس وقت بھی بینظیر پر بہت تنقید کی تھی جب انہوں نے اپنا سیاسی یونیفارم مقرر کیا جس میں ان کے سر کا سفید ڈپٹہ نمایاں تھا۔ ہم ’لبرل‘ افراد کا خیال تھا کہ یہ مولویوں کے دباؤ میں آگئی ہیں جو کہ ایک سیکیولر لیڈر کے لیے مناسب نہیں۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ ان کا فیصلہ بالکل درست تھا اور ہماری روایتوں سے ہم آہنگ۔

میرا خیال ہے کہ بینظیر ایک کامیاب ورکنگ وومن تھیں، اور اکیسویں صدی کی پاکستانی خواتین کے لیے وہ ایک مثال بنیں۔ مشکلات کے باوجود وہ ڈٹی رہیں اور ہمارے سخت میل شووِنسٹ معاشرے میں انہوں نے کبھی ہار نہ مانی۔

and a special poetry from reyadh ali turi which i want to presnt to you

Riyadh ali Turi رياضیعلی طور :

'ڈھلتے سورج کے ہمسفر

تم کہاں رخصت ہوئی

چہرے اداس چھوڑ کر

آنکھيں نم چھوڑ کر

اپنے لہو کے رنگ سے تم نے

دسمبر کی سرد شام کو

اک ان مٹ سرخی بخشی

وطن کی مٹی کو تم نے

لہو کی خوشبو بخشی

تيرا لب و لہجہ

ترے قدموں کی آہٹ

صدا گونجتے رہيں گے

ہر سو پھيلتے رہيں گے

خزاں کے زرد پتوں کو

لہو لہو کر گئی

اے شام غريباں کی ہمسفر

رياض روتا رہا

تيرا نام لکھ لکھ کر۔۔۔'

تم قباييلوںکی شہزادی ہو

تم دکہے دلوں کی دلبر جانی تہی

تم نام کی بےنظير تہی

تيری زندگی بہی بےنظير رہی

تيری موت بہی بے نظير ہے

ڈہلتی سورج کے ہمسفر

لوٹ آ کہ ہم نے

تيرے راہوں کو چراغ کي ہيں

No comments:

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت۔

ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی شہادت جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکار...