Tuesday, March 18, 2008

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا سارا نزلہ پختون قوم پر پڑا ہے۔ہمارے بچے خاک وخون میں نہارہے ہیں سلیم صافی کا کالم جرگہ

ایک وعدے کی یاددہانی


safi.jpg





میرے ایک قاری جو اسفندیار ولی خان کے ووٹر ہیں ، نے ایک خط ارسال کیا ہے ، جس میں انہوں نے نہ صرف اے این پی کو ووٹ دینے کی وجہ بیان کی ہے بلکہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ حکمران بننے والے اس جماعت کے رہنماؤں کو ان کا فرض بھی یاد دلایا ہے ۔ چارسدہ کے الیاس خان لکھتے ہیں ۔
" میں پیشے کے لحاظ سے سرحدوں کا محافظ (سپاہی فرنٹئرکور) ہوں اور میری عمر تقریباً 36 سال ہے ۔ اس 36 سالہ زندگی میں ، میں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ میں سمجھتا تھا کہ انتخابات نظام نہیں بلکہ چہرے بدلنے کا نام ہے ۔انتخابات کے بعد بھی یہی ظلم ، ناانصافی، کرپشن ، قتل وغارت وغیرہ پہلے کی طرح جاری وساری رہیں گی۔ میں سمجھتا تھا کہ منتخب ہونے کے بعد یہ لوگ عوام کی فکر کرنے کی بجائے اپنی جیبوں کو بھرتے ہیں ۔ یوں میں نے ہر انتخاب میں ووٹ ڈالنے سے گریز کیاتاہم اس مرتبہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ووٹ استعمال کیا اور اب آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ووٹ کیوں اور کس کو دیا؟۔
سلیم بھائی : جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہمارا ملک گذشتہ کچھ برسوں سے بدترین دہشت گردی کی زد میں ہے اور بدقسمتی سے اس میں ہمارے معصوم عوام کے علاوہ خصوصی طور پر ہمارے بیلٹ والے (آرمی ، فرنٹئیر کور، ایف سی اور پولیس وغیرہ) ٹارگٹ بن رہے ہیں ۔ میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہماری نوکری کتنی مشکل ہے ۔ ہمیں کبھی افغانستان کے پہاڑی سلسلوں میں تو کبھی سیاچن کی برف پوش پہاڑوں ، جو کہ موت کے لئے منہ کھولے کھڑے ہیں ، میں ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ۔ ہم یہ سب کچھ پاکستان کی دفاع کے لئے کرتے ہیں اور اگر سچ بتاؤں تو اپنے بوڑھے والدین، بچوں اور بہن بھائیوں کے لئے دو وقت کی روٹی مشکل سے پیدا کرتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہی بھائی ہمیں ٹارگٹ کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں کہ ہم تو خود ان کے دفاع کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔ یہ ایک الگ افسوسناک داستان ہے کہ میں نے اس دوران اپنے بھائیوں کی کتنی مسخ شدہ لاشیں (فرنٹیئر کور کے ملازمین کی لاشیں )اٹھائی ہیں اور پھر جب یہ لاشیں گھروں کو پہنچ جاتی ہیں تو ان کے والدین پر کیا کیا قیامتیں گزرتی ہیں ۔ بہرحال میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اب کے بار ووٹ کیوں دیا؟۔
اس مرتبہ میں نے عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دیا اور شاید یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اس پارٹی کا سربراہ بھی ہمارے حلقے میں امیدوار تھا۔ میں نے اور شاید میری طرح ہر پختون نے اس پارٹی کو اس لئے ووٹ دیا کہ اس پارٹی کا نعرہ امن (مونگہ امن غواڑو) تھا۔ اس پارٹی نے انتخابات سے چند روز قبل ایک پمفلٹ گھر گھر تقسیم کیا جو درحقیقت ان کی پارٹی کا منشور تھا۔ اس پمفلٹ کی چیدہ چید ہ باتیں آپ کی اور قارئین کی نذر کررہاہوں ۔ اے این پی کے اس پمفلٹ میں لکھا تھا کہ!
محترم ووٹر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ خط پڑھنا آپ سب کے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عنقریب آپ ایک ایسا فیصلہ کرنے والے ہیں جس کے نتائج ہماری قومی زندگی پر آنے والے دنوں میں مرتب ہوں گے ۔ اس لئے سوچ کر اور حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں اور ایسی غلطی نہ کریں کہ اگلے پانچ برس ہمیں مزید پچاس سال پیچھے لے جائیں ۔
محترم ووٹر : دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا سارا نزلہ پختون قوم پر پڑا ہے۔ہمارے بچے خاک وخون میں نہارہے ہیں ۔ خودکش حملوں نے سکھ چین چھین لیا ہے ۔ ہر آدمی خوف میں مبتلا ہے۔ ان حالات میں اے این پی واحد سیاسی جماعت ہے جو اس فلسفہ امن کی مکمل نفاذ ہی ضمانت دے سکتی ہے ۔اے این پی پختون بچوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف کی جگہ قلم دینے اور خودکش بمبار جیکٹوں کی بجائے سکول کا یونیفارم پہنانے کا عزم رکھتی ہے کیونکہ اس پختون سرزمین کی خوشحالی ہمارا پہلا اور آخری ایجنڈا ہے ۔ اے این پی کے ایجنڈے کا محور و مرکز آپ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ۔ اے این پی صرف ایسے امور کی سیاست کرتی ہے جو آپ سے متعلق ہو۔ آپ کے اعتماد کی صورت میں تبدیلی آپ خود محسوس کریں گے اور ہمارا وعدہ ایک پختون کا وعدہ ہے۔ قول، عمل اور کردار کا جائزہ ضرور لیں ۔ خدا کو حاضر وہ ناظر جان کر میرٹ پر فیصلہ کریں اور یہ حدیث یاد رکھیں کہ" مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا"۔
آپ کا خیراندیش اسفندیار ولی خان ۔ صدر عوامی نیشنل پارٹی
سلیم صافی صاحب : اے این پی کے اس نعرے اور منشور کو دیکھ کر میں نے اسے ووٹ دیا۔ آج ہمیں امن کی ضرورت ہے ۔ پختہ نالی، گیس ، بجلی اور پانی وغیرہ بھی انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں لیکن آج ہماری پہلی ضرورت امن ہے ۔ ہم نہ صرف پختون علاقے بلکہ پورے پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ صوبہ سرحد کے عوام نے خصوصاً امن کے قیام اور بدامنی کے خاتمہ کے لئے اے این پی کو بھاری مینڈیٹ دے کر عزت بخشی۔ پختونوں نے 18 فروری کو جس خاموش انقلاب کے ذریعہ اپنی بربادی کا بدلہ لے لیا ، اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں اس وقت سب سے زیادہ اے این پی کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج صوبے کے اندر امن و امان کا قیام ہے ۔ خدا کرے کہ اے این پی کم از کم اپنا یہ وعدہ کہ ہم امن چاہتے ہیں (مونگہ امن غواڑو) پورا کرے ۔ خدا کرے کہ مجھ جیسے لاکھوں ووٹروں کو یہ احساس نہ ہو کہ اے این پی کو ووٹ دے کر ہم ایک بار پھر غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
والسلام ۔ الیاس خان ، چارسدہ"
قارئین کرام : آپ نے الیاس خان جو کہ اسفندیار ولی خان کے انتخابی حلقے کا باسی اور ان کا ووٹر ہے ، کا خط ملاحظہ کیا ۔ اے این پی کی قیادت نے مذکورہ وعدے صرف چارسدہ کے پختونوں سے نہیں بلکہ ہر خطے کے پختونوں سے کئے ہیں اور صرف چارسدہ کے الیاس خان نے نہیں بلکہ ہر پختون اور پاکستانی نے ان سے یہ توقع وابستہ کررکھی ہے کہ وہ اس خطے اور پاکستان میں امن کے قیام کے لئے کام کرے گی ۔ اس سے قبل ایم ایم اے کے قائدین نے امن و خوشحالی کا لولی پاپ دے کر پختونوں سے ووٹ بٹورے تھے لیکن جب وہ حکمران بنیں تو ہم جیسے طالب علم اگر انہیں ان کے وعدے یاد دلاتے تو اکرم خان درانی صاحب اور سراج الحق صاحب ناراض ہوجاتے تھے ۔ اب اے این پی والوں کی باری ہے ۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ بھی اصل مسائل کو بھول کر عہدوں کی بندربانٹ میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ ان کے بعض لیڈر جو کل تک اخبارات کے دفاتر میں بیٹھ کر اپنی سنگل کالم خبر چھپوانے کے لئے صحافیوں کی چاپلوسیاں کیا کرتے تھے ، حکومت اور وزارت کا سن کر ابھی سے دھمکیوں پر اتر آئے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب وہ ایم ایم اے کے بعض رہنماؤں کی طرح اس مقام پر آتے ہیں کہ جب وعدے اور منشور یاد دلانے سے وہ ناراض ہونے لگیں ۔ تاہم وہ خوش ہوں یا ناراض ، نہ صرف ہم انہیں تسلسل کے ساتھ عوام کے ساتھ ان کا کیا گیا وعدے یاد دلاتے رہیں گے بلکہ الیاس خان جیسے ووٹر بھی ان پر نظریں جمائے رکھیں گے ۔ انہوں نے اگر نان ایشوز کی سیاست کے ذریعے وقت گزار کر صرف حکمرانی کے مزے لینے پر اکتفا کیا تو اگلے انتخابات میں ان کا وہ حشر ہوگا جو حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کا ہوگیا ہے ۔ اے این پی کی قیادت کو یاد رکھنا چاہئیے کہ خطے میں امن کی بحالی میں ناکامی کی صورت میں نہ صرف یہ کہ اگلے انتخابات میں انہیں عوام کے غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ یہ خطہ ایسی دوزخ کا روپ دھار لے گا کہ جس میں وہ نہ سیاست کرسکیں گے اور نہ حکومت کے مزے لوٹ سکیں گے ۔

No comments:

ڈان اخبار اداریہ: ’کرم کے حالات پر قابو نہ پایا گیا تو فرقہ وارانہ تنازعات ملحقہ اضلاع میں پھیل سکتے ہیں‘

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گزشتہ چند ماہ سے صورت حال عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے میں جمعرات کو پیش آنے والا ہولناک واقعہ حیران کُن...