ضیا الحق نے شیعہ سنی فسادات کرائے سیاستدانوں نے عقل نہ کی تو فوج پھر آجائے گی: ائر مارشل (ر) اصغع خان
جمعرات اکتوبر 30, 2008
اسلام آباد( زیر نگرانی: خوشنود علی خان، رپورٹ: عبدالحمید تبسم، قاسم نواز، عمر ریاض عباسی، فوٹوگرافر: شیخ حبیب) میثاق مدینہ ایک سیکولر دستاویز تھی جس پر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت تھی، بھٹو کیخلاف چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ کیلئے نہیں بلکہ انتخابات میں ہونیوالی دھاندلیوں کیخلاف تھی، سیاست کا نام عوام کو بے وقوف بنانا ہے، سیاستدان چور، عیاش اور بے ایمان ہیں۔ انہوں نے اپنی بداعمالیاں نہ چھوڑیں تو فوج تیار ہے وہ پھر کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ لوگ حکمرانوں سے تنگ ہیں عوام انہیں ویلکم کہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار سابق ائیرمارشل اصغر خان نے ’’جناح‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اصغر خان نے کہا کہ فوج کا یہ کام نہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کرے یا کرائے، میں نے سپریم کورٹ میں بھی استدعا کی تھی کہ فوج کو ایسا کوئی حکم نہیں ماننا چاہئے تھا اور آج بھی میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ خلاف آئین اور قانون فوج کو کوئی حکم نہیں ماننا چاہئے کیونکہ وہ لافل کمانڈ کے تحت ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ایک فوجی نے بوڑھی عورت کو گولی ماری جس پر عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکومت کے غیر قانونی حکم کے باوجود حکم نہ مانے۔ آج بھی میں کہتا ہوں کہ فوج غیر قانونی حکم نہ مانے جنرل ضیاء الحق نے مجھے کورٹ مارشل کرنے کی دھمکی دی تو میں نے کہا کہ کر لو، آج بھی میں اپنے اس قول پر ثابت قدم ہوں کہ غیر قانونی حکم کسی کا نہ مانا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی 2 سے تین ہزار سالہ تاریخ میں مشرقی پاکستان واحد مثال ہے جس میں اکثریت نے اقلیت پر گولیاں چلائیں پیپلزپارٹی کی مخالف پارٹیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ملتان میں مجھے پتھر مارے گئے جب میں نے مطالبہ کیا کہ بنگالیوں پر فائر نہ کرو تو مجھے بنگالیوں کا ایجنٹ کہا گیا انہوں نے کہا کہ پچاس ساٹھ سال لوگوں کی تاریخ میں بہت لمبا عرصہ نہیں ہوتا تاہم ہم نے اتنی غلطیاں کی ہیں سیاست میں بے وقوف داخل ہو چکے ہیں خدا کرے یہ ملک چلے ، اگر قوم نے عقل سے کام لیا تو یہ بچ جائیں گے تاہم موجودہ آثار ایسے نہیں ہیں کہ بچ جائیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف چلائی جانیوالی تحریک نظام مصطفیٰ کیلئے نہیں تھی بلکہ 77 ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کیخلاف احتجاج تھی جس میں ہمارے ساتھ ولی خان اور بزنجو بھی شامل تھے ہم نے کبھی نظام مصطفیٰ کا نعرہ نہیں لگایا تاہم اس میں مولوی بھی شامل تھے وہ اچھے لوگ ہیں ساتھ ملنا بری بات نہیں تاہم کسی کو کوئی نعرہ لگانے سے روکا بھی نہیں جا سکتا نظام مصطفیٰ نعرہ تھا منشور نہ تھا انہوں نے کہا کہ مدینہ کا نظام سیکولر تھا اور میثاق مدینہ ایک سیکولر دستاویز تھی جس میں ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت تھی انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 77ء کے انتخابات میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیخلاف کوئی الیکشن میں کھڑا نہ ہو سکتا تھا جو ایسا کرتا تھا گرفتار کر لیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارا ایک ہی پوائنٹ تھا کہ دوبارہ الیکشن کرائے جائیں اور تمام پارٹیاں الیکشن کیلئے اکٹھی تھیں۔ کیونکہ الیکشن فراڈ تھے انہوں نے کہا کہ کوہالہ میں میں نے خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو جذبہ دلانے کیلئے بھٹو کو پھانسی دینے کی بات کی تھی بھٹو کو پھانسی جہاں ملنی تھی مل گئی تاہم میرے خطاب کے بعد پھر تحریک چل پڑی، میری بھٹو سے دشمنی نہ تھی اصغر خان نے کہا کہ جب حالات خراب ہوتے ہیں تو وردیوں میں فوجی اچھے لگتے ہیں لوگ توقع کرتے ہیں لیکن اس ملک کا ستیاناس ہو گیا ہے جمہوریت کا نام لینے والوں اور سیاستدانوں کی حماقتوں نے حالات خراب کر دئیے ہیں سیاسی جماعتیں جب ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر قوم فوج کی طرف دیکھتی ہے اب بھی قوم فوج کی طرف دیکھے گی سیاستدان چور، عیاش اور بے ایمان ہیں انہوں نے کہا کہ اب بھی یہی امکان ہے کہ فوج آجائے گی وہ بطور ادارہ تیار رہتی ہے کیونکہ لوگ حکمرانوں سے تنگ ہوتے ہیں اس لئے وہ انہیں ویلکم کرتے ہیں۔ قوم کا پیسہ کھاتے ہیں کام نہیں کرتے۔ عیاشیاں کرتے ہیں یہ قوم کے محافظ ہیں ان حالات میں کوئی نہ کوئی جنرل تیار ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں کام نہیں کرتیں یہ حالات ایسے ہی رہیں گے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں عوام کو بے وقوف بناتی ہیں وہ سچ بولیں تو شاید قوم ان پر یقین کرلے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ملک میں 50یا 60 سال تک فوج اقتدار میں نہ آتی تو شاید ہم کچھ سیکھ جاتے اصغر خان نے کہا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اچھا سٹینڈ لیا ہے تاہم انہوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا یہ بڑی ہمت ہے اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا تھا کہ آئی ایس آئی کے بارے میں کیس سماعت کریں لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا انہوں نے بتایا کہ 75ء میں بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ قائم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے اصغر خان نے کہا کہ میں نے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو خط لکھا تھا کہ آئی ایس آئی کیس بارے سوموٹو ایکشن لیں جب کیس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کا کوئی وکیل ہے تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے پاس رسیدیں ہیں تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے اسی دوران میں نے ایک وکیل کو دیکھا کہ وہ موجود ہیں وہ نامور مہنگے وکیل ہیں جب میں نے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ میں پیش نہیں ہوں گا دوسرے دن میں نے دیکھا کہ اس وکیل کا نام بھی آئی ایس آئی کے کیس میں 35لاکھ وصول کرنیوالوں میں شامل ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران دو تین چیف جسٹس آئے تاہم میں جسٹس افتخار کو داد دیتا ہوں وکلاء تحریک میں پیسے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 77ء کی تحریک میں بھی ہم پر الزام لگا تھا کہ امریکہ سے پیسہ آرہا ہے یہ سب جھوٹ ہے یہی الزام وکلاء تحریک پر بھی لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کاہ کہ پاکستان میں جہادی کلچر امریکہ نے متعارف کرایا تھا کیونکہ سابق صدر جنرل ضیاء الحق خلیفہ بننا چاہتے تھے اس دوران امریکہ سے پیسہ آرہا تھا اور یہ کلچر اسے تقویت دیتا تھا اب یہ کلچر ہمارے اور امریکہ کے سر پڑ گیا ہے اب صورتحال خطرناک ہو گئی ہے انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے 1947ء میں ان علاقوں کو آزاد علاقے قرار دیا تھا لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان نے 1957ء میں اپنے قبائلی علاقوں کو حکومتی عملداری میں شامل کر لیا تھا لیکن ہم نے ان علاقوں کو آزاد ہی چھوڑ دیا انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی امداد کیلئے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اصغر خان نے کہا کہ فرقہ واریت نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے کراچی میں شیعہ فرقے کے 100 ڈاکٹروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اسی طرح کرم ایجنسی اور سکردو سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا یہ سب قائداعظم کی اس سوچ سے ہٹنے کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سٹیٹ کے معاملات میں مذہب کو لانا غلطی ہے جنرل ضیاء الحق نے بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شیعہ سنی فسادات کروائے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے میرے بہت اچھے تعلقات اور دوستی تھی جب میں پاکستان کی ائیرفورس کا سربراہ تھا تو وہ وزیر خارجہ تھے جب ایوب خان کابینہ سے استعفیٰ دیکر بھٹو قید ہوئے تو انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ آپ سیاست میں آجائیں میں نے انکار کیا لیکن یہ وعدہ کیا کہ اگر بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو میں اس پر احتجاج کروں گا یہی وجہ ہے کہ میں نے بھٹو کی گرفتاری پر احتجاج کیا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح بھٹو رہا ہو گیا انہوں نے کہا کہ کیونکہ مجھے سیاست سے دلچسپی نہ تھی اس لئے میں کچھ عرصے کیلئے اس سے علیحدہ ہو گیا تاہم 6 سے6 ماہ تک میرا بھٹو کے ساتھ
shafiqueahmed110.com - ضیا الحق نے شیعہ سنی فسادات کرائے سیاستدانوں
جمعرات اکتوبر 30, 2008
اسلام آباد( زیر نگرانی: خوشنود علی خان، رپورٹ: عبدالحمید تبسم، قاسم نواز، عمر ریاض عباسی، فوٹوگرافر: شیخ حبیب) میثاق مدینہ ایک سیکولر دستاویز تھی جس پر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت تھی، بھٹو کیخلاف چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ کیلئے نہیں بلکہ انتخابات میں ہونیوالی دھاندلیوں کیخلاف تھی، سیاست کا نام عوام کو بے وقوف بنانا ہے، سیاستدان چور، عیاش اور بے ایمان ہیں۔ انہوں نے اپنی بداعمالیاں نہ چھوڑیں تو فوج تیار ہے وہ پھر کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ لوگ حکمرانوں سے تنگ ہیں عوام انہیں ویلکم کہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار سابق ائیرمارشل اصغر خان نے ’’جناح‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اصغر خان نے کہا کہ فوج کا یہ کام نہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کرے یا کرائے، میں نے سپریم کورٹ میں بھی استدعا کی تھی کہ فوج کو ایسا کوئی حکم نہیں ماننا چاہئے تھا اور آج بھی میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ خلاف آئین اور قانون فوج کو کوئی حکم نہیں ماننا چاہئے کیونکہ وہ لافل کمانڈ کے تحت ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ایک فوجی نے بوڑھی عورت کو گولی ماری جس پر عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکومت کے غیر قانونی حکم کے باوجود حکم نہ مانے۔ آج بھی میں کہتا ہوں کہ فوج غیر قانونی حکم نہ مانے جنرل ضیاء الحق نے مجھے کورٹ مارشل کرنے کی دھمکی دی تو میں نے کہا کہ کر لو، آج بھی میں اپنے اس قول پر ثابت قدم ہوں کہ غیر قانونی حکم کسی کا نہ مانا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی 2 سے تین ہزار سالہ تاریخ میں مشرقی پاکستان واحد مثال ہے جس میں اکثریت نے اقلیت پر گولیاں چلائیں پیپلزپارٹی کی مخالف پارٹیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ملتان میں مجھے پتھر مارے گئے جب میں نے مطالبہ کیا کہ بنگالیوں پر فائر نہ کرو تو مجھے بنگالیوں کا ایجنٹ کہا گیا انہوں نے کہا کہ پچاس ساٹھ سال لوگوں کی تاریخ میں بہت لمبا عرصہ نہیں ہوتا تاہم ہم نے اتنی غلطیاں کی ہیں سیاست میں بے وقوف داخل ہو چکے ہیں خدا کرے یہ ملک چلے ، اگر قوم نے عقل سے کام لیا تو یہ بچ جائیں گے تاہم موجودہ آثار ایسے نہیں ہیں کہ بچ جائیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف چلائی جانیوالی تحریک نظام مصطفیٰ کیلئے نہیں تھی بلکہ 77 ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کیخلاف احتجاج تھی جس میں ہمارے ساتھ ولی خان اور بزنجو بھی شامل تھے ہم نے کبھی نظام مصطفیٰ کا نعرہ نہیں لگایا تاہم اس میں مولوی بھی شامل تھے وہ اچھے لوگ ہیں ساتھ ملنا بری بات نہیں تاہم کسی کو کوئی نعرہ لگانے سے روکا بھی نہیں جا سکتا نظام مصطفیٰ نعرہ تھا منشور نہ تھا انہوں نے کہا کہ مدینہ کا نظام سیکولر تھا اور میثاق مدینہ ایک سیکولر دستاویز تھی جس میں ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت تھی انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 77ء کے انتخابات میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیخلاف کوئی الیکشن میں کھڑا نہ ہو سکتا تھا جو ایسا کرتا تھا گرفتار کر لیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارا ایک ہی پوائنٹ تھا کہ دوبارہ الیکشن کرائے جائیں اور تمام پارٹیاں الیکشن کیلئے اکٹھی تھیں۔ کیونکہ الیکشن فراڈ تھے انہوں نے کہا کہ کوہالہ میں میں نے خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو جذبہ دلانے کیلئے بھٹو کو پھانسی دینے کی بات کی تھی بھٹو کو پھانسی جہاں ملنی تھی مل گئی تاہم میرے خطاب کے بعد پھر تحریک چل پڑی، میری بھٹو سے دشمنی نہ تھی اصغر خان نے کہا کہ جب حالات خراب ہوتے ہیں تو وردیوں میں فوجی اچھے لگتے ہیں لوگ توقع کرتے ہیں لیکن اس ملک کا ستیاناس ہو گیا ہے جمہوریت کا نام لینے والوں اور سیاستدانوں کی حماقتوں نے حالات خراب کر دئیے ہیں سیاسی جماعتیں جب ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر قوم فوج کی طرف دیکھتی ہے اب بھی قوم فوج کی طرف دیکھے گی سیاستدان چور، عیاش اور بے ایمان ہیں انہوں نے کہا کہ اب بھی یہی امکان ہے کہ فوج آجائے گی وہ بطور ادارہ تیار رہتی ہے کیونکہ لوگ حکمرانوں سے تنگ ہوتے ہیں اس لئے وہ انہیں ویلکم کرتے ہیں۔ قوم کا پیسہ کھاتے ہیں کام نہیں کرتے۔ عیاشیاں کرتے ہیں یہ قوم کے محافظ ہیں ان حالات میں کوئی نہ کوئی جنرل تیار ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتیں کام نہیں کرتیں یہ حالات ایسے ہی رہیں گے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں عوام کو بے وقوف بناتی ہیں وہ سچ بولیں تو شاید قوم ان پر یقین کرلے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ملک میں 50یا 60 سال تک فوج اقتدار میں نہ آتی تو شاید ہم کچھ سیکھ جاتے اصغر خان نے کہا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اچھا سٹینڈ لیا ہے تاہم انہوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا یہ بڑی ہمت ہے اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے انہوں نے کہا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا تھا کہ آئی ایس آئی کے بارے میں کیس سماعت کریں لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا انہوں نے بتایا کہ 75ء میں بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ قائم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے اصغر خان نے کہا کہ میں نے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو خط لکھا تھا کہ آئی ایس آئی کیس بارے سوموٹو ایکشن لیں جب کیس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کا کوئی وکیل ہے تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے پاس رسیدیں ہیں تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے اسی دوران میں نے ایک وکیل کو دیکھا کہ وہ موجود ہیں وہ نامور مہنگے وکیل ہیں جب میں نے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ میں پیش نہیں ہوں گا دوسرے دن میں نے دیکھا کہ اس وکیل کا نام بھی آئی ایس آئی کے کیس میں 35لاکھ وصول کرنیوالوں میں شامل ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران دو تین چیف جسٹس آئے تاہم میں جسٹس افتخار کو داد دیتا ہوں وکلاء تحریک میں پیسے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 77ء کی تحریک میں بھی ہم پر الزام لگا تھا کہ امریکہ سے پیسہ آرہا ہے یہ سب جھوٹ ہے یہی الزام وکلاء تحریک پر بھی لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کاہ کہ پاکستان میں جہادی کلچر امریکہ نے متعارف کرایا تھا کیونکہ سابق صدر جنرل ضیاء الحق خلیفہ بننا چاہتے تھے اس دوران امریکہ سے پیسہ آرہا تھا اور یہ کلچر اسے تقویت دیتا تھا اب یہ کلچر ہمارے اور امریکہ کے سر پڑ گیا ہے اب صورتحال خطرناک ہو گئی ہے انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے 1947ء میں ان علاقوں کو آزاد علاقے قرار دیا تھا لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان نے 1957ء میں اپنے قبائلی علاقوں کو حکومتی عملداری میں شامل کر لیا تھا لیکن ہم نے ان علاقوں کو آزاد ہی چھوڑ دیا انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی امداد کیلئے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اصغر خان نے کہا کہ فرقہ واریت نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے کراچی میں شیعہ فرقے کے 100 ڈاکٹروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اسی طرح کرم ایجنسی اور سکردو سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا یہ سب قائداعظم کی اس سوچ سے ہٹنے کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سٹیٹ کے معاملات میں مذہب کو لانا غلطی ہے جنرل ضیاء الحق نے بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شیعہ سنی فسادات کروائے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے میرے بہت اچھے تعلقات اور دوستی تھی جب میں پاکستان کی ائیرفورس کا سربراہ تھا تو وہ وزیر خارجہ تھے جب ایوب خان کابینہ سے استعفیٰ دیکر بھٹو قید ہوئے تو انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ آپ سیاست میں آجائیں میں نے انکار کیا لیکن یہ وعدہ کیا کہ اگر بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو میں اس پر احتجاج کروں گا یہی وجہ ہے کہ میں نے بھٹو کی گرفتاری پر احتجاج کیا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح بھٹو رہا ہو گیا انہوں نے کہا کہ کیونکہ مجھے سیاست سے دلچسپی نہ تھی اس لئے میں کچھ عرصے کیلئے اس سے علیحدہ ہو گیا تاہم 6 سے6 ماہ تک میرا بھٹو کے ساتھ
shafiqueahmed110.com - ضیا الحق نے شیعہ سنی فسادات کرائے سیاستدانوں
No comments:
Post a Comment