دستاویزی فلم میں بھٹو صاحب کے بچپن سے وفات تک کی زندگی کو ایک سرسری مگر مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے |
ْبھٹو صاحب کی کہانی کو بے نظیر بھٹو، بھٹو صاحب کے بھانجے طارق اسلام ، عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر، جہانگیر بدر، قیوم نظامی، الٰہی بخش سومرو، پروفیسر غفور احمد، منو بھائی، حمید اختر، جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی، جنرل ریٹائرڈ حمید گل، جسٹس ریٹائرڈ صمدانی ( فلم میں ان کا پورا نام نہیں دیا گیا) ، جسٹس ریٹائرڈ ظفر مرزا، مؤرخ ڈاکٹر حبیب اللہ صدیقی اور اے جے بھرگری کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔
لیکن بطور ناظر فلم میں کئی ایسے لوگوں کی کمی محسوس ہوتی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے مختلف ذاتی، نفسیاتی اور عوامی پہلوؤں کو اور بہتر طریقے سے بیان کرسکتے تھے۔ مثلاً ڈاکٹر مبشر حسن جن کے گھر پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، معراج محمد خان جنہیں بھٹو صاحب ایک عرصے تک اپنا جانشین کہتے رہے، ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو جو بیرسٹری کے زمانے میں بھٹو صاحب کے ساتھ لندن میں بھی رہے، سندھ میں بھٹو کے دستِ راست غلام مصطفی جتوئی ، بھٹو صاحب کے معروف سوانح نگار سٹینلے وولپرٹ وغیرہ وغیرہ۔
دستاویزی فلم کا ایک بڑا حصہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں بیان و مباحثے پر مشتمل ہے جس سے پرانے حقائق نئے انداز میں تازہ ہوتے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ یہ دستاویزی فلم خالص پروپیگنڈہ نہیں بلکہ اسے دیکھنے سے چالیس برس قبل کے پاکستان کے بارے میں کئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں اور کچھ تازہ سوالات بھی اٹھتے ہیں۔
تاریخی کمزوریاں سکرپٹ میں بعض تاریخی کمزوریاں بھی ہیں مثلاً ایک جگہ کہا گیا ہے کہ بطور وزیرِ خارجہ بھٹو صاحب کی کوششوں سے چین نے پاکستان کو ساڑھے سات سو مربع گز علاقہ دے دیا۔حالانکہ یہ رقبہ ساڑھے سات سو مربع میل کے لگ بھگ تھا۔اسی طرح ایک جگہ کہا گیا کہ معاہدہ تاشقند پر پاکستان نے امریکی دباؤ میں دستخط کئے۔حالانکہ یہ معاہدہ سوویت یونین کی کوششوں سے اس زمانے میں ہوا جب امریکہ روس سرد جنگ عروج پر تھی چنانچہ امریکہ کس طرح ایک ایسے معاہدے پر دستخط کے لئے دباؤ ڈال سکتا تھا جو سوویت یونین کی کوششوں سے ہو رہا ہو۔ |
تاہم ممتاز صداکار طلعت حسین کی طاقتور آواز کے باوجود سکرپٹ کمزور ہے اور اکثر جگہ گفتگو اور مناظر آگے نکل جاتے ہیں اور سکرپٹ پیچھے رہ جاتا ہے۔ جو باتیں مختلف کردار کرچکے ہوں انہیں سکرپٹ میں دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن فلم میں ایسا بارہا ہوا ہے۔
ایڈیٹنگ اور آڈیو کے بھی مسائل ہیں بالخصوص بھٹو صاحب کی تقاریر کی آڈیو اکثر جگہ تکلیف دہ حد تک خراب ہے۔ حالانکہ ان دنوں تکنیکی اعتبار سے آواز بہتر بنانا کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
سکرپٹ میں بعض تاریخی کمزوریاں بھی ہیں مثلاً ایک جگہ کہا گیا ہے کہ بطور وزیرِ خارجہ بھٹو صاحب کی کوششوں سے چین نے پاکستان کو ساڑھے سات سو مربع گز علاقہ دے دیا۔حالانکہ یہ رقبہ ساڑھے سات سو مربع میل کے لگ بھگ تھا۔ اسی طرح ایک جگہ کہا گیا کہ معاہدہ تاشقند پر پاکستان نے امریکی دباؤ میں دستخط کیے حالانکہ یہ معاہدہ سوویت یونین کی کوششوں سے اس زمانے میں ہوا جب امریکہ روس سرد جنگ عروج پر تھی چنانچہ امریکہ کس طرح ایک ایسے معاہدے پر دستخط کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا جو سوویت یونین کی کوششوں سے ہو رہا ہو۔
تاہم یہ اس اعتبار سے ایک اچھی کوشش ہے کہ پہلی مرتبہ بھٹو صاحب کے بچپن سے وفات تک کی زندگی کو ایک سرسری مگر مربوط انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ورنہ اب تک بھٹو صاحب کی تقاریر کی وہی آڈیو اور وڈیوز موجود تھیں جو بھٹو کے پرستار اپنے اپنے طور پر اکھٹے کرتے رہے ہیں۔
یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ قائدِ عوام آرکائیوز کے نام سے یہ دستاویزی فلم کیا پیپلز پارٹی کا پروجیکٹ ہے یا کوئی پرائیویٹ کوشش۔
BBCUrdu.com
No comments:
Post a Comment