"پاکستان میں خودکش حملوں کی تاری"
پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ انیس نومبر انیس سو پچانوے میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا۔ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔
خود کش حملوں کا سال پاکستان میں رواں سال میں اب تک ہونے والے خودکش حملوں کی تعداد چھیالیس ہو گئی ہے۔ جبکہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ سو اٹھتیس ہوگئی ہے۔ |
اس حملے کے بعد سنہ دو ہزار دو میں ایک اور خودکش حملہ چودہ جون کو کراچی ہی میں ہوا۔ اس حملے میں بارود سے بھرا ٹرک امریکی سفارتخانے کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے۔
سنہ دو ہزار تین میں صرف ایک خودکش حملہ ہوا۔ یہ حملہ پچیس دسمبر کو راولپنڈی میں ہوا اور حملے میں ہدف صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ اس واقع میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
سنہ دو ہزار چار میں پانچ خودکش حملے ہوئے جن میں ستاون افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے چار حملے فرقہ وارانہ تھے جبکہ ایک حملہ وزیر اعظم پر اٹک میں ہوا۔
سنہ دو ہزار پانچ میں خودکش حملوں میں کمی آئی اور صرف دو حملے ہوئے۔ یہ دونوں حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں اکتیس افراد ہلاک ہوئے۔
اگلے سال یعنی دو ہزار چھ میں ایک بار پھر خودکش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس سال چھ حملوں میں لگ بھگ ایک سو چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں صرف دو حملے فرقہ وارانہ تھے جن میں چالیس افراد ہلاک ہوئے۔ان دو حملوں کے علاوہ ایک حملہ امریکی سفارتخانے کے سامنے ہوا جب کہ باقی تین سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف ہوئے تھے۔
کنٹرول سے باہر مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی تعداد میں بندوبستی علاقوں میں خودکش حملوں سے صاف ظاہر ہے کہ امن و امان کی صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔ ایمرجنسی لگانے سے اگر یہ فدائی حملے رک سکتے تو یہ قدم اس سال اپریل یا مئی ہی میں اُٹھا لینا چاہئے تھا۔ |
ان تمام حملوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُل آٹھ فرقہ وارانہ حملے ہوئے اور اس نوعیت کا آخری حملہ آٹھ نومبر دو ہزار چھ کو ہوا جس میں علامہ حسن ترابی مارے گئے۔
اس کے علاوہ سات حملوں میں سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ جیسے کہ دسمبر دو ہزار تین میں جنرل پرویز مشرف پر خودکش حملہ۔ دو ہزار چار میں وزیر اعظم شوکت عزیز پر اٹک میں جلسے کے بعد حملہ۔ دو ہزار سات میں وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ پر چارسدہ کے جلسے میں حملہ اور بینظیر بھٹو کے قافلے پر دو حملے۔ ان حملوں میں سیاسی شخصیات تو بال بال بچ گئے لیکن ایک سو ستتر لوگ مارے گئے۔
سنہ دو ہزار دو سے اب تک کراچی میں نو حملے ہوئے۔ ان حملوں میں دو سو تیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے ایک سو پینتیس بینظیر کی ریلی میں اور سینتالیس دو ہزار چھ کی سنی تحریک کے مجمعے میں حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ باقی اڑتالیس لوگ فرقہ وارانہ حملوں میں ہلاک ہوئے۔
پنجاب میں گیارہ خودکش حملے ہوئے جن میں نوے افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے چھتیس افراد تین حملوں میں فرقہ واریت کی بھینٹ چڑہے۔ جبکہ باقی حملے سیکورٹی اہلکاروں پر ہوئے۔ ان گیارہ حملوں میں سے سے پانچ حملے راولپنڈی میں ہوئے۔ جبکہ ان پانچ حملوں میں سے چار حملے فوجی ہیڈ کوارٹر کے بہت قریب تھے۔
بلوچستان میں صرف دو خودکش حملے ہوئے جس میں سینتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ دونوں حملے دو ہزار سات میں ہوئے۔ ایک حملہ کوئٹہ کی عدالت میں ہوا اور دوسرا حملہ چینی قافلے پر ہوا جس میں تیس افراد ہلاک ہوئے۔
صوبہ سرحد میں اب تک پینتیس خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں تقریباً تین سو ستر افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ وارانہ خودکش حملہ تھا جن میں انتالیس افراد مارے گئے۔ باقی بیشتر حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسلام آباد میں پانچ خودکش حملوں میں اکسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں سے ایک حملہ فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا جس میں پچیس افراد ہلاک ہوئے۔ باقی حملوں میں میریٹ ہوٹل، ائرپورٹ اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے شامل ہیں۔
ان باسٹھ حملوں میں سے چھیالیس خودکش حملے بندوبستی علاقوں میں ہوئے جن میں سات سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ صرف سولہ حملے علاقہ غیر میں ہوئے جن میں نوے افراد ہلاک ہوئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی تعداد میں بندوبستی علاقوں میں خودکش حملوں سے صاف ظاہر ہے کہ امن و امان کی صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔ ایمرجنسی لگانے سے اگر یہ فدائی حملے رک سکتے تو یہ قدم اس سال اپریل یا مئی ہی میں اُٹھا لینا چاہئے تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر اور آرمی سربراہ کے پاس کون سے ایسے اختیارات نہ تھے جو ایمرجنسی کے بعد ان کو مل گئے ہیں جن سے امن و امان کی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment