جنرل مشرف کی نسبت جنرل کیانی زیادہ پراعتماد نظر آئے |
جب آرمی چیف کے کمان کی علامت، تقریبا ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی میز پر رکھی گئی تو جنرل مشرف دوسری طرف دیکھ رہے تھے اور جنرل کیانی نے انہیں اشارہ کرتے ہوئے میز کی طرف چلنے کی درخواست کی۔ میز پر موجود ایک فریم یا سٹینڈ پر رکھی اس چھڑی کو ایک سرے سے جنرل پرویز مشرف اور دوسری طرف سے جنرل کیانی نے اٹھایا۔ جنرل کیانی والے سرے سے تو وہ چھڑی نکل آئی لیکن جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پھنسی رہ گئی اور جنرل کیانی نے چھڑی نکالنے میں ان کی مدد کی۔ جب بینڈ باجے بج چکے اور سلامی والے دستے واپس جانے لگے تو جنرل مشرف انہیں دیر تک مڑ کر دیکھتے رہے اور آخر میں جنرل کیانی نے انہیں چلنے کا اشارہ کیا اور ایسا لگا کہ وہ انہیں کہہ رہے ہوں کہ ’اب چلیے سر جی‘
جنرل پرویز مشرف نے جاتے ہوئے جہاں سے بھی گزرے تقریب میں موجود فوجیوں اور خواتین سمیت کئی سویلین شخصیات کو بھی سلیوٹ کرتے گئے۔ جب تقریب ختم ہوئی تو اچانک ذہن کی سکرین پر خیال آیا کہ بس! یہی آرمی چیف کے کمان کی تبدیلی تھی کہ محض ایک ڈھائی فٹ لمبی بانس کی چھڑی حوالے کرنی تھی۔ جس کے لیے اپوزیشن والے برسوں سے شور مچا رہے تھے!۔
لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں۔ فوج کو اس وقت مختلف اقسام کے چیلنجز درپیش ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ قیادت میں ان کی آخری وقت تک کوشش تھی کہ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کے دونوں عہدے اپنے پاس رکھیں۔ اس وجہ سے وہ فوج پر پوری توجہ نہیں دے سکے۔ اس سے بھی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر منفی اثر پڑا۔
وہ بھی ایک ایسے وقت جب اتنی بڑی فوج اور اس کو اتنے ہی بڑے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا بھی تھا۔ ایسے میں قیادت چاہے کتنی ہی اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو جب اس کی توجہ بٹی ہو اور اس کا زیادہ وقت اور توجہ کا مرکز سیاست ہو تو پھر کوئی کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ اس فوج کا مورال بہتر ہوگا۔
فوج کے سربراہ سیاست میں تقریباً آٹھ سال ملوث رہے جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں بلکہ منفی نتائج حاصل ہوئے اور فوج کا وقار اور فوج کو جو لوگوں سے حمایت ملنی چاہیے تھی وہ حاصل نہ ہو سکی، بلکہ جتنی ہونی چاہیے تھی اس میں ایک قسم کی کمی ہی آئی۔
ملک میں فوج کا سربراہ بیک وقت عسکری اور سیاسی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ جنرل ضیا الحق تو مشرف سے بھی زیادہ مدت تک دونوں عہدوں پر فائز رہے۔ اس وقت بھی عوام میں فوج کی مقبولیت میں کمی آئی تھی لیکن اس مربتہ کچھ زیادہ ہوا ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ ماضی میں فوج اس حد تک حکومت میں ملوث نہیں تھی کہ جس حد تک اس دور میں رہی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے اس وقت بین الاقوامی لحاظ سے اور خاص طور سے امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج کو چیلنجز یا مشکلات کا سامنا تھا۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کی جو اصل ساری تربیت تھی وہ ایک روایتی جنگ کے لیے تھی جس میں بھارت اس کا حریف تھا۔ اسی پر تمام تربیت، کارروائیاں اور منصوبہ بندی وغیرہ ہمیشہ سے روایتی طور سے رہی ہے۔ لیکن اب مغربی سرحد پر خود اندرونی طور سے جو مزاحمت کا سامنا ہے وہ فوج کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف نے امریکہ اور دیگر ممالک سے جنگی آلات و تربیت وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ناکافی تھے۔ فوج کو اس طرز کی گوریلا وارفیئر یا کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز میں مہارت حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن پھر بھی کافی کچھ انہوں نے اس عرصے میں سیکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اپنی صلاحیت کو بہتر کیا جائے۔
نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اب بڑے پیمانے پر اپنی پالیسی اور حکمت علمی میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ ایک بالکل عام سی بات ہے جس کا سب کو علم ہے کہ دنیا میں کوئی فوج اپنے لوگوں کے خلاف جنگ کبھی جیت ہی نہیں سکتی چاہے وہ کتنی بھی بہترین فوج کیوں نہ ہو۔
دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی میں یہ ضرورت ہے کہ ہم بلوچستان میں بھی فوج کو لگائیں اور اپنے ہی لوگوں سے لڑائی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر جگہ چاہے وہ سوات ہو یا قبائلی علاقے ہی کیوں نہ ہوں فوج کو صرف اسی وقت استعمال کریں جبکہ ہم سمجھیں کہ سیاسی اور دوسرا لائحہ عمل ہے وہ بالکل ناکام ہو گیا ہے۔ یہ بڑا ضروری ہے۔
اپنے لوگوں کے خلاف فوج کو آخری حربے کے طور پر انتہائی محدود انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ کولیٹرل ڈیمیج بہت زیادہ ہوتا ہے اور کوئی آپ قابض فورس نہیں ہیں، تو آپ اس طریقے سے فوج کو نہیں استعمال کر سکتے جس طریقے سے امریکہ یا نیٹو فورسز افغانستان میں یا عراق وغیرہ میں استعمال ہو رہی ہیں۔
جنرل کیانی کی سنجیدگی سے یہ کوشش ہوگی کہ وہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے اپنے پیشے ہی میں وہ زیادہ تر اس کو توجہ دیں، اور اسی کی بہتری میں مصروف رہیں۔ جنرل کیانی ایک مدبر اور ایک پیشہ ور صلاحیت کے مالک سپاہی ہیں۔ ان کا کافی وقار ہے فوج میں۔ لوگوں کا ان کے بارے میں اچھا خیال ہے۔ ان کی طبیعت پچھلے لیڈروں سے ذرا مختلف ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ تر توجہ اپنے پیشے کی طرف دیں گے اور یہ کوشش کریں گے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔
ماضی میں ایک خیال یہ تھا کہ فوج کے ذریعے ملک کا دفاع ہو سکتا ہے لیکن اب یہ اپنے تجربے سے اور ملک میں جس طرح کے حالات رہے ہیں، اس سے تو بالکل عیاں ہوگیا ہے کہ فوج خود اکیلی کسی صورت میں ملک کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ لوگ اس کا ساتھ نہ دیں۔ اس سلسلے میں سیاسی لائحہ عمل بڑا ضروری ہے، جمہوریت بڑی ضروری ہے، اس کو مضبوط بنیادوں پر رکھا جائے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ صدر مشرف نے بار بار کہا تھا کہ اگر نیشنل سکیورٹی کونسل کے آنے سے اب مارشل لاء کبھی نہیں لگے گا لیکن آپ نے دیکھا کہ انہوں نے خود ہی مارشل لاء یا ایمرجنسی نافذ کر دی باوجود اس کے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل موجود تھی۔
تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو روایتی طریقے ہیں دنیا میں اور جس طریقے سے دنیا میں جمہوریت کامیاب ہوئی ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ جتنی جمہوریت چاہتے ہیں اس سے ان کو کیوں دور رکھا جائے۔ بجائے اس کے کہ فوج مداخلت کرے، وہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے سنبھالے، دوسروں کے کاموں میں ملوث ہو کر ان کا بھی کام خراب کرے اور پھر اپنا بھی ادارہ اور اپنی بھی پیشہ ورانہ صلاحیت میں کمی لائ |